عارف رمضان جتوئی اسلام کی بنیاد جن پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے ان میں کلمہ طیبہ کا اقرار، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ شامل ہیں۔ ان پانچوں ارکان میں جو سب سے اہم چیز ہے وہ ہے اخلاص کا ہونا۔ کوئی بھی ایسا کام جس میں اخلاصِ نیت شامل نہ ہو، وہ کام اپنے حقیقی مقصد اور اجر و ثواب کو کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے ہر کام اور ہر عمل کا دار و مدار نیتوں پر رکھا ہے۔ جس کی نیت خالص ہوگی اس کا کوئی بھی عمل اپنے مقصد کو پا لے گا، ورنہ وہ عبث اور ضائع ہی ہوگا۔ ان پانچ ارکان کی ادائیگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے ساتھ تقویٰ کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ حج کے لیے حکم دیا گیا ’’پس بے شک (حج) کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ مگر بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘(القرآن)۔ مطلب یہ ہوا کہ حج کی ادائیگی کے لیے جانے سے قبل اپنے ساتھ ضروری سامان جمع کرکے لے جائیں، مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمادیا کہ یاد رکھو کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ ایک شخص حج کی ادائیگی کے لیے ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا ساتھ لے کر نکلتا ہے تو اس کی نیت میں ہوتا ہے کہ وہ کسی مقصد کو حاصل کرے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جن کا مقصد سفر، ریاکاری اور شوبازی ہوگا۔ عموماً یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ سب ہی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا ہوتی ہے۔ اب جب کوئی اس مقصد کے لیے نکل ہی رہا ہے تو اس کے سارے کے سارے انتظامات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہوں گے، مگر دل میں تقویٰ ہی نہیں ہوگا تو یہ سفر سیاحت تو ہوگا مگر اس کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ یہ سوال یہاں پر اہم ہے۔ مختصرطور پر تقویٰ کی تعریف کے سلسلے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دل کی اس حالت کا نام ہے جس کی موجودگی میں انسان ہر اُس فعل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ پاک کو ناپسند ہو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعریف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: ’’کیا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہیں؟‘‘ آپؓ نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا ’’آپ نے کیا طریقہ استعمال کیا؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سمیٹ کر چلا‘‘۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے: ’’یہی تقویٰ ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مثال خاردار راستے کی ہے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اس میں سے گزرتے ہوئے دامن سمیٹ کر چلے۔ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر کام میں دیکھے کہ اس میں خدا کی خوشنودی مضمر ہے یا نہیں۔ شکوک و شبہات میں پڑنے سے بچنے کا حکم دیا گیا، جو کہ اعلیٰ تقویٰ میں شمار ہوتا ہے۔ ایک شخص جب شک والے معاملات سے ہی دور رہتا ہے تو وہ یقیناًحرام سے کہیں دور ہی رہے گا۔ صحیح بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’یقیناًحلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی بالکل ظاہر ہے، اور ان کے درمیان کچھ معاملات مشتبہ ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت سمجھ نہیں پاتی۔ پس جو شبہات سے بچا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچا لی، اور جو شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو (شاہی) چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانور) چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ (جانور) اس (چراگاہ) میں داخل ہوجائے۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) گناہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ ۔۔۔ دونوں طرح کے گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ ایام حج میں گناہوں سے بچنا تو ضروری ہی ہے مگر شریعت نے جس تقویٰ کا حکم دیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ غیر ضروری اور لایعنی کاموں سے بھی بچنا چاہیے۔ موجودہ دور میں اس کی بہترین مثال موبائل یا کمپیوٹر سے لی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ایک شخص کے لیے موبائل کا استعمال ضرورت کی حد تک تو ٹھیک ہے تاہم اسی موبائل کا استعمال غیر ضروری طور پر کرنا وقت کا ضیاع اور گناہ ہے۔ تاہم اگر کوئی ایسا بھی کام کیا جارہا ہو جو غیر اہم اور غیر ضروری ہو تو اس سے بچنا تقویٰ میں شامل ہوجاتا ہے، یعنی اس کام کو نہ کرنے والا متقی ہوتا ہے۔ ایام حج بہت ہی مختصر ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں بہت زیادہ محنت اور لگن سے عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اتنی دور سے اتنا سفر کرکے آنے کے بعد بھی کوئی حاجی موبائل، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر وقت کا ضیاع کرتا رہے تو گویا اس نے اپنے آنے کا مقصد ضائع کردیا۔ ان دنوں میں حج کے مواقع پر سب سے اہم اور بڑی برائی جو دیکھنے میں آتی ہے وہ سیلفیوں کا بے ہنگم استعمال ہے۔ یہ کام ایسا غیر ضروری، لایعنی ہے کہ اس سے وقت کا ضیاع تو ہوا ہی، ساتھ میں ریاکاری بھی شامل ہوجاتی ہے جو کہ نیکیوں کو ایسے مٹا دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ختم کردیتی ہے۔ سیلفی لینے والا کلک کرتے ہی پوری دنیا کو بتا رہا ہوتا ہے کہ دیکھو میں اس وقت حج کے لیے بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے پاس خود موجود ہوں۔ اس سیلفی کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ یہ بتانا کہ میں نے حج کرلیا، یا میں عمرے کی ادائیگی کے لیے نکلا ہوا ہوں اور دیکھنے والوں سے داد وصول کرنا ہے، جو کہ بغیر کسی اختلاف کے ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل کا غیر ضروری استعمال، سیلفیاں بنا بنا کر اپ لوڈ کرنا اور ہر وقت موبائل اور سوشل میڈیا کی ویب سائٹ میں کھوئے رہنا سراسر اس تقوے کے خلاف ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جانے سے قبل حکم دیا تھا۔ حج کو جس قدر اہمیت دینے اور اس پر فوکس رکھنے کا حکم دیا جارہا ہے اس کے پس پردہ ایک بنیادی مقصد کارفرما ہے۔ ہمارے دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت کرنا۔ یہ ایسی عبادت ہے کہ جس کے کرنے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس لیے عبادت جس قدر انہماک سے کی جائے گی، عبادت کا سرور اور مقصد بھی اسی قدر حاصل ہوگا۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ کے گھر کا حج کیا، بے ہودگی، فسق اور ہر قسم کے گناہ سے بچا رہا (حج کے بعد) اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی (تمام گناہوں سے پاک) ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو‘‘۔ بخاری ہی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’حج کرنے کی نیکی تو جنت ہے‘‘۔ یاد رکھیں یہ تمام تر نیکیاں اور جزا ہمیں اُس وقت ہی نصیب ہوگی جب ہم بالکل انہی شرائط اور ضوابط کے ساتھ حج کریں گے جن کا ہمیں حکم دیا گیا۔ حج کی عبادات کے 100 فیصد نمبر حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کے علاوہ حج کے ضروری احکامات پر مکمل عمل کرنا ضروری ہے۔ حج کے لیے جانے سے قبل ضروری ہدایات کو بغور پڑھ لینا چاہیے۔ ہدایات کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ آپ اپنے دنوں کو بہت قیمتی بنائیں۔ صدقات و خیرات کے ساتھ ساتھ اپنے ایام حج میں خوب خوب عبادات پر توجہ مرکوز رکھیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ رب العزت نے کیوں یہ بات ارشاد فرمائی:’’بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘۔ اس زادِ راہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں، کیوں کہ اگر کھانے پینے میں کمی آجائے گی تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کا حج قبول فرما لے گا، لیکن اگر تقویٰ میں کمی واقع ہوگئی تو پھر شاید آپ کی عبادات میں کمی واقع ہوجائے گی۔