فاٹا اصلاحات۔۔۔۔ فیصلہ پھر لٹک گیا

192

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

بلند و بالا پہاڑوں، حسین وادیوں، خشک اور چٹیل میدانوں پر مشتمل پاکستان کا شمال مغربی قبائلی علاقہ دنیا میں ایک اہم اور حساس ترین خطہ سمجھا جاتا ہے جس کو امریکی حکومت تواتر کے ساتھ عالمی امن کے لیے خطرناک قرار دیتی چلی آرہی ہے۔ بچپن سے بندوق سے کھیلنے والے قبائلی لوگ امن پسند ہیں اور ان کا علاقہ اگر ان کے اپنے اختیار میں ہوتا تو شاید وہ ملک کا سب سے پُرامن علاقہ ہوتا جہاں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔ لیکن اس وقت غیروں کی جنگ اور بالخصوص پڑوسی ملک افغانستان میں جاری عالمی طاقتوں کی مسلسل مداخلت کے باعث یہ خطہ ایک گرم نکتہ (Hot spot) اور عالمی جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔
27 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل پاکستان کے وفاقی قبائلی علاقے فاٹا کی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے بارے میں صحیح اعدادو شمار مشکل سے دستیاب ہیں۔ قومی اسمبلی میں اس کی نمائندگی 12نشستوں، جب کہ سینیٹ میں 8 نشستوں پر مشتمل ہے۔ فاٹا میں 7 قبائلی ایجنسیاں ہیں: خیبر، مہمند، باجوڑ،کرم، اورکرزئی، جنوبی اور شمالی وزیرستان، اس کے علاوہ 6 قبائلی علاقے ایسے ہیں جو صوبہ خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع سے جڑے ہوئے ہیں جن میں پشاور، کوہاٹ، بنوں، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں اور یہ FRکہلاتے ہیں۔ وفاقی ایجنسیوں میں حکومتی نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا ہے جب کہ اس کے تحت APA اور تحصیلدار ہوتے ہیں۔ جب کہ FR میں وہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یہ انتظامی نظام انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے اور جس قانون پہ قبائلی علاقوں کا نظام چلایا جارہا ہے وہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR)کہلاتا ہے اور یہ بھی انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے۔ قبائلی لوگ اس کو کالا قانون کہتے ہیں۔ اس طرح بدقسمتی سے آزادی کے 69 سال بعد بھی قبائلی عوام آزادی کی نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکے ہیں اور آزاد قبائل کہلانے والے دورِ غلامی میں جی رہے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے ہر حکمران طبقے نے قبائلی عوام کو غلامی کے اس نظام سے چھڑانے میں کبھی بھی دلچسپی نہیں لی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ جب صدرِ پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے قبائلی عوام کو ووٹ کا حق دیا تو اُس وقت امید تھی کہ اس کے ساتھ ہی اس کالے قانون سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ پھر جب صدر آصف علی زرداری نے ملک کی قومی سیاسی پارٹیوں کو اجازت دی کہ وہ وفاقی قبائلی حلقوں سے اپنے امیدواران کو اپنے انتخابی نشان پر کھڑا کرسکتی ہیں اور اس طرح فاٹا کا علاقہ قومی دھارے میں شامل ہوجائے گا تو پھر یہ توقع کی جارہی تھی کہ اگلے مرحلے میں FCRکے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اور اب جب ایک طویل مشاورتی عمل کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تو ملک بھر کی سیاسی پارٹیوں اور قبائلی عوام نے ایک بار پھر اس سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیں۔ لیکن کئی ماہ بعد جب مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے فاٹا اصلاحات کا اعلان کیا تو اس پر یہ شعر صادق آیا ؂
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نکلا
اس کا مطلب یہ ہے کہ قبائلی عوام کی آزمائش کا سلسلہ جاری ہے اور اسلام آباد کی حکومت اس خطے کے عوام کو جوں کا توں یعنی’اسٹیٹس کو‘ کی حالت میں رکھنا چاہتی ہے۔ وہ حالات میں تبدیلی نہیں چاہتی، کسی انقلابی اقدام کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ 69سالہ FCRقانون نے قبائلی عوام کو کیا دیا اس کا اندازہ آپ ان چند اعدادو شمار سے لگاسکتے ہیں جو ایک تقابلی جائزے کی صورت میں پیش خدمت ہیں۔
تفصیل
پاکستان
فاٹا
شرح خواندگی (مجموعی )
44%
17%
شرح خواندگی (مردانہ)
55%
30%
شرح خواندگی (زنانہ)
32%
3%
آبادی بمقابلہ ایک ڈاکٹر
1226
7670
آبادی بمقابلہ ایک بستر ہسپتال
1341
2179
شرح سڑک فی کلومیٹر
0.26
0.17
اس طرح قبائلی علاقے پاکستان کے غریب ترین اور پسماندہ ترین علاقے ہیں۔ جب 2001ء میں پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں داخل ہوئی تو اس کا انتظامی نظام دھڑام سے زمین بوس ہوگیا۔ اس سے پہلے طالبان اور دیگر مسلح گروہوں نے قبائلی نظام کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ انہوں نے خاص طور پر قبائلی مشران کو ہدف بنایا۔ کچھ کو ہلاک کیا اور باقی علاقہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ قبائلیوں کا صدیوں سے جاری جرگہ نظام اس موقع پر ان کے کوئی کام نہ آیا اور چند مسلح لوگ آبادیوں میں گھس کر ان کی سربرآور شخصیات کو قتل کرکے علاقے پر قابض ہوجاتے اور عام لوگ مجبور کردئیے جاتے کہ وہ ان کی مکمل اطاعت کریں، بصورت دیگر ان کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے۔ فوجی افسران بھی انہی تہی دست لوگوں سے مطالبہ کرتے کہ وہ طالبان کے خلاف لڑیں اور کارروائیاں کرکے ان کو علاقے سے نکالیں۔ اس پوری صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اپنے گھر چھوڑ کر صوبہ خیبر پختون خوا میں داخل ہوگئے اور یہاں مقامی لوگوں کے مہمان بنے یا پھر سرکاری کیمپوں میں رلتے رہے۔
اگر FCR ایک کامیاب قانون تھا تو اس کے نتائج کیوں اتنے ڈراؤنے نکلے کہ لاکھوں قبائل ’’دربدر خاورے پہ سر‘‘ ہونے پر مجبور ہوئے؟ اور اگر پاکستانی قانون اتنا برا ہے کہ اسے فاٹا پر لاگو نہیں کیا جا سکتا تو پھر کیوں ان لاکھوں قبائلیوں کو بندوبستی علاقوں ہی میں امن میسر آیا اور پناہ ملی؟ اس سے پہلے لاکھوں افغان بھی اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان میں امن اور پناہ کی تلاش میں پہنچے تھے اور یہیں ان کو اور ان کی کئی نسلوں کو امن اور تحفظ بھی ملا اور ان کے بچوں کو تعلیم و ہنر بھی ہاتھ آیا۔ یہ دونوں مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ پاکستانی قانون کتنا ہی گیا گزرا ہو، پاکستانی پولیس کتنی ہی بری ہو، پاکستانی عدالتیں بے انصاف ہوں لیکن پھر بھی قبائلی علاقوں میں جاری برٹش دور کی یادگار FCR قانون اور اس کی مرہونِ منت انتظامیہ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ پاکستان کے شہریوں کو عزت و آبرو حاصل ہے، قانون کا تحفظ حاصل ہے، ان کا کاروباراور املاک محفوظ ہیں، ان کے بچوں کو تعلیم و صحت کی سہولتیں ملتی ہیں، وہ آزادانہ رائے سے اپنے حکمران چنتے ہیں، انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں، پُرامن احتجاج کا جمہوری حق رکھتے ہیں۔۔۔ اور یہ سب کچھ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان کا حق ہے، یہ ان پر کسی کا احسان نہیں ہے، تو پھر یہ سوال پوچھنے کا ہر قبائلی بھی حق رکھتا ہے کہ وہ کیوں ان حقوق سے محروم ہے؟ اور کس نے اس کو ایک پاکستانی ہونے کے باوجود اپنے حقوق سے محروم رکھا ہے؟ جب پاکستان بنا تو محترم قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل کی حیثیت سے 1948ء میں پشاور تشریف لائے اور انہوں قبائلی مشران سے وعدہ کیا کہ قبائلی علاقوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی ان کی مرضی کے بغیر نہیں لائی جائے گی۔ پھر 1970ء میں جنرل یحییٰ خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان نے ایک حکم نامے کے ذریعے پاکستان کے مغربی حصے یعنی موجودہ پاکستان میں ’’ون یونٹ‘‘ کو ختم کرکے چاروں صوبوں کو بحال کیا تو اس موقع پر بھی قبائلی علاقوں کو مکمل طور نظرانداز کردیا گیا، اور ان کو نہ تو صوبے کی حیثیت دی گئی اور نہ ہی شمال مغربی سرحدی صوبے میں ضم کیا گیا۔ اس سے پہلے قبائلی علاقوں کو پاکستان کی مرکزی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی حاصل تھی۔ فاٹا میں اصلاحات کا ایک اور موقع وہ تھا جب پیپلز پارٹی کے بانی اور عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 1976ء میں گورنر صوبہ سرحد جنرل نصیراللہ خان بابر کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی جس میں اُس زمانے کے وزیر قانون اور 1973ء کے دستور کے خالق جناب عبدالحفیظ پیرزادہ، ڈاکٹر مبشر حسن اور رفیع رضا جیسی شخصیات شامل تھیں جن کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ قبائلی علاقوں کو صوبہ سرحد میں شامل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل اور قانونی طریقہ کار وضع کریں تاکہ 1977ء کے انتخابات سے قبل یہ عمل مکمل کیا جاسکے۔ لیکن اس کمیٹی نے اپنا کام مکمل نہ کیا اور 1977ء کے متنازع انتخابات کے بعد بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔
اسی طرح 2006ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف نے صاحبزادہ امتیاز کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کے لیے کمیٹی تشکیل دی جس نے کافی صلاح و مشورے کے بعد متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے بہترین حل یہی ہے کہ ان کو صوبہ سرحد میں شامل کردیا جائے، البتہ اس حل کو التواء میں ڈالتے ہوئے کمیٹی نے تجویز کیا کہ یہ کام افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے بعد کیا جائے۔ اس دوران صوبہ سرحد کا نام بھی تبدیل کرکے صوبہ خیبر پختون خوا رکھ دیا گیا حالانکہ خیبر ایجنسی صوبے میں شامل نہیں۔ درہ خیبر وہ تاریخی گزرگاہ ہے جس سے فاتحین گزر کر برصغیر ہندوپاک میں داخل ہوتے تھے جن میں مشہور عالم سکندر اعظم بھی شامل ہے۔ اس راستے کی نشانی بابِ خیبر ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کی ایک پہچان اور پختون قوم کی علامت ہے۔ خیبر پختون خوا کا نام رکھ کر گویا قبائلی علاقوں کو صوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور اس کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس کے بعد صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے بھی یہ مطالبہ کردیا کہ قبائل کو صوبے میں شامل کیا جائے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ایک عالمی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے توسط سے منتخب قبائلی نمائندوں اور تمام اہم قومی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں میں باہمی مشاورت کے ایک طویل سلسلے کے بعد اس تجویز کی توثیق کی گئی کہ فاٹا اصلاحات کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کردیا جائے۔ پھر قومی اسمبلی میں اس مقصد کے لیے قبائلی ارکان اسمبلی نے باقاعدہ قرارداد بھی پیش کردی۔ یہ ایک اہم موقع تھا کہ تمام اہم اور مقتدر ادارے، منتخب عوامی نمائندے، سیاسی جماعتیں اور قبائلی عوام ایک نکتے پر متفق نظر آرہے تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سطحی کمیٹی سے بجا طور پر توقعات وابستہ کی جارہی تھیں۔ لیکن اس کمیٹی کے سربراہ مشیر امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے جب 25 اگست کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کی سفارشات کا اعلان کیا تو ان توقعات اور جذبات پر گویا کہ اوس پڑگئی اور ایک بار پھر فاٹا کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ساتھ ادغام کو ملتوی کردیا گیا اور ایک نئے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا جس میں قبائلی عوام سے کئی ایسے وعدے کیے گئے ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی بار کیے جا چکے ہیں۔ کمیٹی نے اپنے کئی ماہ کے طویل مشاورتی عمل میں فاٹا اصلاحات اور بہتری کے لیے چار مختلف حل تجویز کیے ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی دفعہ پیش ہوچکے ہیں۔ ان میں
نمبر1: موجودہ صورت حال کو برقرار رکھنا۔
نمبر2: فاٹا کو خصوصی آئینی حیثیت دینا، جیسا کہ گلگت بلتستان کو دی گئی ہے۔
نمبر3: فاٹا کو علیحدہ صوبے کی حیثیت دینا۔
نمبر4: فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنا۔
سرتاج عزیز نے پریس کانفرنس میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ بہترین آپشن نمبر4 ہی ہے اور ان کو اس مشاورتی عمل کے دوران اکثر لوگوں نے یہی مشورہ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس فیصلے پر عمل درآمد کو معرضِ التواء میں ڈالنے کے حق میں رائے دی ہے اور کہا ہے کہ جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے فاٹا اصلاحات کو بے گھر ہونے والے قبائلی عوام کی واپسی سے مشروط کیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے افغانستان میں حالات بہتر ہونے سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے فاٹا کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ایک 10 سالہ طویل منصوبہ بھی پیش کیا ہے، جس میں صنعتی زون کا قیام، آب پاشی کے منصوبے، معدنیات کی ترقی، تعلیم و صحت کے نظام کی بہتری جیسے کام شامل ہیں جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے، لیکن اگر موجودہ نظام کے تحت یہ کیے جا سکتے تو کس نے روکا ہے! ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ہر دور میں وعدے کیے جاتے رہے ہیں اور اعلانات بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ FCRکے حوالے سے انہوں نے ایک مضحکہ خیز تجویز پیش کی کہ اس کو ’’قبائلی علاقوں میں رواج ایکٹ‘‘ سے بدل دیا جائے گا جس کو قبائلی روایات اور ثقافت کے مطابق تیار کیا جائے گا۔ انہوں نے ایک اور انقلابی اعلان لیوی کی 20 ہزار پوسٹوں کا کیا جن پر قبائلی جوانوں کو بھرتی کیا جائے گا۔
سرتاج عزیز نے اس دس سالہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 90 ارب پاکستانی روپے مختص کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ان سے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ اس سے پہلے گزشتہ 5سال میں پاکستان کو وار آن ٹیرر یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں جو 10ارب امریکی ڈالر ملے تھے اس کا کتنا حصہ قبائلی علاقوں پر خرچ کیا گیا اور کہاں اور کیسے خرچ ہوا؟
اس سے پہلے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں ایک اہم نکتہ قبائلی علاقوں میں انتظامی اصلاحات اور تعمیر و ترقی کا شامل تھا۔ یہ ایکشن پلان آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے اور150طلبہ کی شہادت کے خونچکاں واقعہ کے بعد قومی مشاورت کے بعد بنایا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ 2-1 سالوں میں قبائلی علاقوں میں کسی بھی جوہری تبدیلی اور بہتری کی طرف سفر کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔ اس سے بھی پہلے جب 2008ء کے شروع میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سول انتظامیہ اور عسکری قیادت کو مربوط کرنے کے لیے ایک قانون Actions in aid of civil power کا ریگولیشن نافذ کیا گیا تھا جو خاص طور پر قبائلی علاقوں میں نافذ تھا، لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اور حالات مزید بگڑتے چلے گئے۔
یہ مسئلہ سیاسی، انتظامی اور قانونی ہے، جب تک اس بنیادی مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا اُس وقت تک معاملات کو درست نہیں کیا جا سکتا۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے بھی عوامی نمائندگی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے پاکستان میں بھی فوجی آمروں نے بلدیاتی نظام کو اپنی مطلق العنانیت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا۔
جنرل ایوب خان کے بی ڈی نظام، جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام اور جنرل پرویزمشرف کے مقامی حکومتوں کے نظام نے ملک میں حقیقی جمہوری نظام کو بحال نہیں کیا بلکہ وہ آزادانہ قومی جمہوری انتخابات ہی کے ذریعے ممکن ہوا۔ اب بھی اگر حکومت کی قائم کردہ کمیٹی اس کا اعلان کرتی کہ 2018ئکے قومی انتخابات کے موقع پر قبائلی عوام کو صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی میں بھی نمائندگی دی جائے گی تو یہ یقیناًایک بڑی سیاسی پیش رفت ہوتی۔ فاٹا سیاسی اتحاد نے اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر پہلے سے یہ کہہ دیا تھا کہ FCRکو ختم کرنے کے بجائے کسی بھی دوسرے نام سے بحال رکھنے یا کسی رواج ایکٹ کو لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ اختیار ایک سادہ سے قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کراکے قبائلی علاقوں تک بڑھا دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے 5۔10سال کا جو عرصہ تجویز کیا ہے، نوکر شاہی اور سرکاری اداروں کی نااہلی، سستی اور بددیانتی کے پیش نظر اس پر عمل ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اگر اصلاحات پر فور ی عمل کرنا ہو اور فاٹا کے ستائے ہوئے بے شمار لوگوں کے زخموں پر مرہم پٹی کرنی ہو تو 2018ء کے قومی انتخابات سے پہلے آئینی و قانونی ترامیم مکمل کرلی جائیں تاکہ فاٹا کے عوام 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لے سکیں، ورنہ پھر وہ 2023ء تک نمائندگی کے حق سے محروم رہیں گے۔
جماعت اسلامی حلقہ فاٹا کے نائب امیر، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور فاٹا سیاسی اتحاد کے نائب صدر زرنور آفریدی نے بھی ایک اخباری بیان کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرکے آئینی، قانونی، سیاسی، جمہوری، معاشی اور تعلیمی اصلاحات کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ FCRکے نظام کے تحت آزادانہ اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات کرانا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام کو FCR کی غلامی سے آزاد کیا جائے۔ کسی رواج ایکٹ یا FGGRکو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کے آرٹیکل 106اور 247, 246 میں ترامیم کی جائیں۔ فاٹا کو ملاکنڈ ڈویژن کی طرز پر خیبر پختون خوا میں ضم کیا جائے۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ فاٹا میں قابل اور دیانت دار افسران کو تعینات کریں اور ان افسران کا یہاں سے ٹرانسفر کریں جو قبائلی عوام کو اصلاحات کے خلاف اکسا رہے ہیں اور مراعات یافتہ طبقے کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کردہ اصلاحات کے خلاف 8 ستمبر کو پریس کلب اور گورنر ہاؤس کے سامنے قبائلی عوام کے مظاہرے کا بھی اعلان کیا۔