رائزنگ یوتھ کا پروگرام یا عوامی میلہ

172

غزالہ عزیز

ایکسپو میں ہونے والا رائزنگ یوتھ کا پروگرام کتنا کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے؟
یہ سوال کئی جانب سے آیا، بہت سے ذہنوں میں پیدا ہوا اور بہت سے لوگوں کے درمیان بحث اور مناظرے کا نکتہ بنا اور بنے گا۔۔۔ حاضری ہی کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ کسی کا کہنا تھا کہ حاضری توقع سے زیادہ رہی، کوئی کہہ رہا تھا کہ جماعت سے باہر کے لوگوں کی حاضری کسی بھی دوسرے پروگرام کی نسبت ایک ریکارڈ تھی، کسی کا خیال تھا کہ پچاس فیصد تو ہمارے ہی لوگ تھے، کسی کا کہنا تھا کہ نوجوان بچیاں 80 فیصد سے زیادہ تھیں۔
بہت سے سوال جن میں ایک ایک سوال کے کئی کئی جوابات۔۔۔ جس نے جس نظر سے دیکھا اُس نے اسی نظر کے تحت سوال اٹھائے۔
لیکن ایک بات ہر ایک نے دہرائی کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان خون کو جمع کرلینا بڑی کامیابی ہے۔۔۔ اور وہ بھی کراچی کے اس قدر غیر مستحکم سیاسی حالات میں۔
لوگوں کا اطمینان دیکھنے کے لائق تھا۔ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات سے دلوں کو جیسے ڈھارس سی تھی۔ اگرچہ حفاظت کرنے والا تو رب ہے۔۔۔ رب پر اعتماد اور یقین نظر بھی آرہا تھا۔ مطمئن، خوش باش۔۔۔ ہشاش بشاش کھلتے چہرے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔
ہال میں داخلے کے لیے طویل قطار تھی۔ سیکورٹی گیٹ سے گزر کر بیگ چیک کیے جارہے تھے۔۔۔ بات لمحوں کی تھی لیکن مسلسل آمد کے باعث قطار کی لمبائی کم نہیں ہورہی تھی۔
ہال سے باہر بڑی کشش تھی۔ شاپنگ کے مزے اور عید کی تیاری دونوں ایک ساتھ۔ کپڑے، عبایا، جیولری اور اسکارف کے علاوہ بھی بہت کچھ۔۔۔ لیکن ہم نے سوچا آج خواتین میں ہال کے اندر ہونے والے پروگرام کی کشش زیادہ ہے، وہ بھی شاپنگ سے زیادہ۔۔۔ حیران کن معاملہ تھا۔
پروگرام کے دوران فون اور میسجز آئے تو پتا چلا کہ باہر بارش ہورہی ہے وہ بھی کڑاکے دار طوفانی بارش۔ لیکن رب جسے چاہے بچائے اور سجائے بھی۔ باہر شیڈ کے نیچے اسٹال اسی طرح سجے تھے، البتہ سبزے نے دھلا دھلایا لباس ضرور پہن لیا تھا۔ خوب صورت منظر تھا۔۔۔ ایک پکنک کے جیسا۔
ایک شیڈ کے نیچے کھانے پینے کے اسٹال تھے، لیکن یہاں اندازے کی غلطی ہوگئی تھی۔ تقریباً تمام اسٹال سے کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوگئی تھیں۔ شاید دوسرے ہاف میں دوبارہ لائی گئی ہوں۔
ایک بڑا ایریا بچوں کے لیے منی فن لینڈ کا تھا۔ مزے تو یہ تھے کہ سب فری۔۔۔ آپ حیران ہوئے ناں؟ جی ہاں بچے جمپنگ کاسل میں فری ہوکر اچھل رہے تھے۔ ربڑ کے تالاب میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے ہاتھوں سے پیڈل چلا رہے تھے۔ ایک بڑی سی بس زوردار ہارن کے ساتھ چھوٹی بڑی بچیوں کو سیر کرا رہی تھی۔
ویسے یہ باہر کے مناظر تھے، اصل پروگرام اندر تھا جہاں باپردہ و باحجاب اسمارٹ بچیاں اسٹیج سنبھالے ہوئے تھیں۔ قرأت اور نعت کے بعد پروگرام شروع ہوا۔ بھائی زبیر منصوری کی ورکشاپ انتہائی دل چسپ تھی۔۔۔ اتنی دل چسپ کہ نہ بارش کا پتا چلا، نہ لائٹ جانے کا نوٹس لیا کہ اسٹیج تو اسی طرح روشن تھا۔ اندھیرا ہونے پر ہم نے سوچا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہوگا، اسٹیج پر ارتکاز کے لیے۔۔۔ کہ ہم خود بھی اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئے تھے۔
نشستیں بھرتی جارہی تھیں۔ بعد میں ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل کی آمد پر تو بیٹھنے کے لیے کرسی ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا تھا۔ بچیوں کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا۔
کانفرنس ہال کے باہر والے ہال میں جماعت اسلامی کے سارے شعبہ جات انپے تعارفی اسٹال کے ساتھ موجود تھے۔ تعلیمی شعبے میں جماعت کی جدوجہد انتہائی پُراثر اور ہمہ جہت ہے۔ جامعۃ المحصنات جو دینی اور دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج فراہم کرتا ہے، اس کے اسٹال پر ملنے والے معلوماتی کتابچے کے مطابق یہاں طالبات کی تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مستقل بنیادوں پر ادبی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں، پھر مطالعاتی دوروں کے ساتھ فرسٹ ایڈ کورس، کمپیوٹر کورس، سول ڈیفنس ٹریننگ، کوکنگ، سلائی کڑھائی سکھائی جاتی ہے، ساتھ ساتھ سیر و تفریح کے لیے بھی لے جایا جاتا ہے۔
سبحان اللہ، اس قدر سب کچھ اور وہ بھی معمولی فیس کے ساتھ۔۔۔ ہمیں پچھلے دنوں فیس بک پر کسی والد یا والدہ کی جانب سے لگایا جانے والا فیس واؤچر یاد آگیا جس میں ایک ماہ کی فیس چالیس ہزار درج تھی۔۔۔ پھر یہ دیکھیں کہ اس فیس کے ساتھ بچوں کی کیسی ذہنی تربیت کی جاتی ہے۔۔۔ معاملہ کچھ یوں کہ بھاری فیسوں کی وصولی اس بات پر کہ بچہ آپ کی نہیں اپنی مرضی کا تیار کرنا ہے، یعنی آپ کا بچہ آپ کا نہیں۔۔۔
جامعۃ المحصنات کے اسٹال سے ہمیں اُن کا نیوز لیٹر ملا جس سے پتا چلا کہ رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان بورڈ کے تحت 2016ء کے امتحانات میں جامعہ کی طالبات نے حسب سابق نمایاں ترین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یقیناًیہاں کے اساتذہ اور طالبات پاکستان کا قابلِ قدر اثاثہ اور شاندار پاکستان کی نوید ہیں جس کی تعمیر میں ان کی جدوجہد وقت کے ساتھ ساتھ نظر آتی چلی جائے گی، ان شاء اللہ۔
ایک اسٹال ول فورم یعنی ’’وومن اسلامک لائرز فورم‘‘ کا تھا۔ یہ تنظیم خواتین وکلا کی ہے جو ضرورت مند غریب خواتین کو قانونی مدد فراہم کرتی ہیں۔ وہ اپنے تازہ شائع ہونے والے کتابچے فراہم کررہی تھیں۔ ایک کتاچہ ’’خاص کلاشنکوف‘‘ کے نام سے تھا جس کو سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ غلام قادر جتوئی نے تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوں یا کھل سکتی ہوں وہاں فوجی عدالتیں قائم کرکے لوگوں کو سزا دینا سراسر ناجائز اور ناانصافی پر مبنی ہے‘‘۔ ایک کتابچہ ایڈووکیٹ فائزہ خلیل کا تحریر کردہ تھا، عنوان تھا ’’نفسیاتِ غلامی‘‘۔ کچھ آگے عثمان پبلک اسکول کا اسٹال تھا جہاں ان کی منتظم اعلیٰ محترمہ صفورا مقیم سے ملاقات ہوئی۔ میٹرک میں حالیہ اعلیٰ کامیابی پر مبارک باد دی تو خوشی سے قبول کی لیکن پھر مسکرا کر بولیں کہ میرا نظریہ اوّل، دوم سے ہٹ کر ہر طالب علم کو بہترین کامیابی دلانا ہے۔ ہم نے والدین کی ذہن سازی اور بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی پر گفتگو کے لیے ایک نشست کا وعدہ لیا اور آگے بڑھ گئے۔
یہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا اسٹال تھا۔ یعنی مرکزی نیوکلیس جس سے گھر سازی آرگنائزیشن نکلتی ہیں۔۔۔ طاقت پاتی ہیں اور معاشرے کی فلاح کے لیے مصروف رہتی ہیں۔ یہاں سوشل میڈیا پر کاموں کی تفصیل موجود تھی۔ آن لائن لیکچرز۔۔۔ ویب سائٹ یعنی آن لائن سسٹم جس میں معلومات کا خزانہ چھپا ہے۔
پھر ایک اور علمی ادارے قرآن انسٹی ٹیوٹ کا اسٹال تھا جہاں کے خاص کورس عربی بول چال، انگریزی میں فہم القرآن کورس اور کمپیوٹر کورس تھے۔ اس کے علاوہ فہم القرآن سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورس، ناظرہ ترجمہ اور تجوید کے کورس بھی موجود تھے۔
یہ علمی میدان تھے، مختلف جہتوں میں۔۔۔ ہر عمر، ہر میدان کی عورت۔۔۔ نوجوان ہو یا بوڑھی، بچی ہو یا بچے۔۔۔ سب کے لیے دینی اور دنیاوی علم کے حصول کے لیے راہیں موجود ہیں۔ انتخاب کریں اور اپنے بچوں کو صراطِ مستقیم کا راہی بنائیں۔ برکت ڈالنے والا رب ہے۔ اولاد کو والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے والی بھی وہی ذات ہے لیکن انتخاب تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔
پھر اسلامی جمعیت طالبات کا اسٹال تھا جہاں مستقبل کی قیادت اور مستقبل کے معمار موجود تھیں۔ مختلف کھیل، کونسلنگ کارنر اور ڈسکشن فورم موجود تھے۔
اب ہم تھے ایک ایسے شعبے کے اسٹال پر، جس کی ضرورت اور اہمیت اس وقت پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔ وہ تھا انسانی حقوق نیٹ ورک کا اسٹال، جس کا مشن ہے معاشرے میں بے انصافیوں اور زیادتیوں کی نشان دہی کرنا، پھر ان کے تدارک کے لیے آواز اٹھانا، قانون کے مطابق حقوقِ انسانی کے تحفظ کو یقینی بنانا، یعنی انسانیت کی خدمت کرکے رب کو راضی کرنا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو جدوجہد کو بے غرض بناتا ہے، ورنہ مغرب اور اس کی پروردہ اقوام متحدہ کا کردار سب کے سامنے ہے۔ معصوم بچے قتل ہورہے ہیں، جلائے جارہے ہیں لیکن ان کا ضمیر نہیں جاگتا۔
بچوں کی یاد آئی تو گوشۂ اطفال کا ذکر لازم ہے جو داخلی دروازے کے ساتھ تھا۔ منتظم بچیاں ہر عمر کے بچوں کو پیار و محبت اور خوشی سے سنبھال رہی تھیں۔ بچوں کے لیے مزیدار کھیل اور انعام موجود تھے۔ معصوم بچے نظمیں سنا رہے تھے۔ کشش ایسی تھی کہ ہم وہیں فرش پر بیٹھ گئے۔ بچے جنت کے پھول۔۔۔ اور جہاں جنت کے پھول ہوں وہاں جنت نہ ہوتے ہوئے بھی جنت کا گماں ہوتا ہے۔۔۔ لہٰذا ہم نے دل بھر کر جنت کی ہوا سے تازگی حاصل کی۔
ارے ہاں ہمارا اپنا حریم ادب کا اسٹال تو رہ ہی گیا۔ جہاں ادب سے دلچسپی رکھنے والی بچیوں سے فارم بھروائے جارہے تھے۔ کلاسک اور جدید ادب کا خوب صورت کلیکشن موجود تھا۔۔۔ شاید اسی لیے ادب کی شائق شہد کی مکھیوں کی طرح کھنچ کر آرہی تھیں۔
یہ پروگرام صرف کامیاب نہیں بہت کامیاب تھا، لیکن کچھ ایسی باتیں تھیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے، ان میں ایک بہتر ساؤنڈ سسٹم ہے، اس کے ساتھ پانی اور کھانے کے اسٹال زیادہ ہونے چاہیے تھے۔
وہی ابتدائی بات کہ سوال بھی بہت اور جواب بھی۔ سب کو سمیٹنا لازم ہے۔۔۔ پھر تجزیہ در تجزیہ، مشورے، وہ بھی مفت کے۔۔۔ لیکن یہ اہم بھی ہیں اور ضروری بھی کہ ان سے راستے ہموار، روشن اور واضح ہوتے ہیں۔
سو ہم بھی ایک مشورہ تو دے ہی دیتے ہیں کہ عوامی ہونے کے لیے ایسے پروگرام مستقبل بنیادوں پر ہونے چاہئیں، وقفہ تین ماہ کا بھی ہوسکتا ہے، چھ ماہ کا بھی، یہ بجٹ پر منحصر ہے۔ پھر اشتراک تو سارے شعبہ جات کا تھا ہی جیسا کہ ہوتا ہے، لیکن اسٹیج ہر دفعہ کسی ایک یا دو شعبوں کے حوالے ہونا چاہیے۔ اس سے جدت اور وسعت پیدا ہوگی۔ ہر دفعہ ایک نیا شعبہ پوری اسٹرینتھ (قوت) کے ساتھ عوام میں متعارف ہوگا۔ یوں اس کے قدم عوام میں جمیں گے اور عوام یعنی عام لوگ اس میں شامل ہوں گے۔ بہرحال رائزنگ یوتھ نے ایک اچھی روایت کی ابتدا کی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔