کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) کراچی میں12 ہزارمیٹرک ٹن یومیہ ذخیرہ ہونے والے کچرے میں سے محض 5 ہزار میٹرک ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، بلدیاتی اداروں کی اس مجرمانہ غفلت نے لاکھوں شہریوں کو مختلف اقسام کے امراض میں مبتلا کر رکھا ہے، 15 لاکھ سے زائد شہری بلدیاتی اداروں کی اس غفلت اور مجرمانہ بے حسی کے باعث متعدی امراض میں مبتلا ہوکر سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں اور دوا خانوں سے رجوع کرتے ہیں۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں، مرکزی شاہراہوں، گلیوں، چوراہوں، فٹ پاتھوں اور بازاروں میں لگے ان کچرے کے ڈھیروں میں افزائش پانے والے جراثیم، حشرات الارض، مکھیوں، مچھروں اورکچرے سے اٹھنے والے دھویں اور تعفن نے شہریوں کو سانس، پیٹ، جگر، پھیپھڑوں سمیت دیگر مہلک اور خطرناک امراض کا شکار بنا دیا ہے۔
بلدیاتی اداروں کے ذرائع کے مطابق باقی ماندہ7 ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں ہی موجود رہتا ہے، 7 ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں موجود ہو وہ بھی گزشتہ 5 تا7 برسوں کے دوران تو تخمینہ لاکھوں میٹرک ٹن بنتا ہے، اس کے باوجود کہ کئی علاقوں سے صفائی مہمات میں ہزاروں میٹرک ٹن کچرا اٹھا بھی لیا گیا ہو گا مگر پھر بھی کثیر مقدار میں کچرا اب بھی شہر میں موجود ہوتا تو عام ذہنی سوچ کے مطابق شہر میں کچر ے کے پہاڑ موجود ہونے چاہیے تھے۔
ملیر، لیاری ندی کے علاوہ اورنگی ٹاؤن کے ریلوے ٹریک سے ملحقہ جگہیں کچرے کے پہاڑ کا منظر پیش کرتی ہیں مگر اس کی مقدار بھی 7 ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا شہر میں موجودگی کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔
ذرائع کے مطابق پانچ سال میں مذکورہ کچرے کی موجودگی میں شہر کے آدھے حصے کو پہاڑی کامنظر پیش کرنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے پھر یہ کچرا جاتا کہاں ہے؟ سروے اور ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق پانچ ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا اٹھانے کے بعد باقی ماندہ کچرے میں شہر بھر سے ایک محتاط اندازے کے مطابق قریبا چار ہزار میٹرک ٹن کچرا کچرا چننے والے اپنے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔
اس میں زیادہ تر کچرا ہیوی مٹیریل جیسے دھاتوں اور شیشے کی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ حیرت انگیز طور پر پلاسٹک کی اشیا کو کچرے سے حاصل کر کے ری سائیکل کر کے مختلف پلاسٹک مصنوعات میں استعمال میں لایا جاتا ہے، کاغذی کچرا ہاتھوں ہاتھ ری سائیکل کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس سے ملتی جلتی اشیا حاصل کچرے سے کی جاتی ہیں مگر استعمال صنعتوں میں ہوتی ہیں جب کہ بلدیاتی ادارے معقول رقم پر مختلف صنعتوں کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیا فراہم کر کے مالی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا تعاون گاربیج اسٹیشنز تک ہوتا ہے جہاں سے وہ رات گئے تک کچرا چننے کی اجازت دیتے ہیں اور اس دوران مذکورہ عمل سر انجام دیا جاتا ہے، کہیں بھی کچراچننے والے موجود ہوں تو وہ کچھ ہی دیر میں کچرے سے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کچرے کو ہلکا کر دیتے ہیں۔
اب ایسی صورت میں بھاری کچرے کی شہر میں موجودگی کے خدشات ختم ہو گئے ہیں، گیلا کچرا مستقل پڑا رہے تو چند دنوں میں سوکھ کر اپنا آدھا وزن ختم کر دیتا ہے جو شہر کے مختلف مقامات پر جلا دیا جاتا ہے، یہ جلایا جانے والا کچرا سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اس سے آس پاس کی آبادی میں طبی ماہرین کے مطابق آنکھوں میں انفیکشنز، دمہ، گلے کی مختلف بیماریاں، ناک میں سوزش اور پھیپھڑوں کے کینسر کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بہت سا کچرا ملیر و لیاری سمیت دیگر ندی نما جگہوں پر آلائشوں کو دفنانے کی طرز پر بنائی جانے والی خندقیں کھود کھود کردفن کیا جاتا ہے جو زیر زمین اپنے مضر اثرات جمع کرتا رہتا ہے، جب کہ ہائی رائز بلڈنگز کی بنیادوں میں بھی ٹنوں کچرا بھرائی کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
اس طرح ایک اندازے کے مطابق چھ میٹرک ٹن کچرا یومیہ مختلف مقاصد میں استعمال ہو کر شہر میں کچرے کے بجائے دوسری شکلیں اختیار کر لیتا ہے، باقی ماندہ ایک میٹرک ٹن کچرا شہر میں کچرے کے پہاڑ بناتا ہے جس کی صفائی کے لیے کچھ کچھ عرصے بعد صفائی مہمات کی ضرورت پڑتی ہے، دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں 22ہزار سنیٹری ورکرز ہیں جو ضرورت سے کہیں کم ہیں جب کہ دستیاب مشینری خستہ حال ہونے کے ساتھ ناکافی ہے۔
اگر کچرے کو مکمل طور پر اٹھانا ہے تو فوری طور پر شہری انتظامیہ کو100 ہیوی ڈمپرز، اتنے ہی لوڈرز و دیگر مشینری ضروریات کے مطابق خریدنی ہو گی یا ری سائیکلنگ کر کے کچرے کو کارآمد بنانا ہوگا، اسی صورت میں بلدیاتی ادارے شہریوں کی صحت کو محفوظ بنایاجاسکتا ہے۔