عیدالاضحی کے پہلے روز ترکی میں کاربم دھماکا

219

ترکی کے مشرقی شہر وین میں حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹرز کے باہر کار بم دھماکے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت 48 افراد زخمی ہوگئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک حکام نے دھماکے کی ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) پر عائد کی، جسے ترکی اور عالمی برادری کی جانب سے دہشت گرد گروپ قرار دیا جاتا ہے۔

مقامی حکومت کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق دھماکا وین شہر میں اے کے پی کے دفتر کے باہر موجود پولیس چیک پوسٹ کے قریب ہوا۔بیان میں کہا گیا کہ ‘علیحدگی پسند شدت پسند تنظیم کی جانب سے کیے گئے کار بم دھماکے کے نتیجے میں 46 عام شہری اور 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔تاہم عیدالاضحی کے پہلے روز ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک قانون ساز بصیر اتالے نے واقعے میں 2 پولیس افسران کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔اتالے نے بھی واقعے کا الزام کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے)پر عائد کیا اور کہا کہ ‘شدت پسند تنظیم نے ہماری پارٹی کے دفتر کو نشانہ بنایا’۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکے سے ارد گرد کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ حکمران جماعت کے دفاتر کو بھی نقصان پہنچا۔واقعے کے بعد ایمبولینسز جائے وقوع پر پہنچ  گئیں جبکہ دھماکے سے لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے فائر فائٹرز بھی موقع پر پہنچے۔

یاد رہے کہ رواں برس 15 جولائی کو ترک صدر طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد سے ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے اور بغاوت کی سازش میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب کرد باغیوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)کی جانب سے حملوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔گذشتہ ماہ 26 اگست کو ترکی کے جنوب مشرق میں واقع صوبے سرنیک کے قصبے جزرے میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر کار بم دھماکے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک جبکہ 64 زخمی ہوگئے تھے۔جبکہ 21 اگست کو شامی سرحد کے قریب ترکی کے شہر غازی انتیپ میں ایک شادی کی تقریب میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک اور 94 زخمی ہوگئے تھے، رپورٹس کے مطابق یہ دھماکا ممکنہ طور پر داعش کی جانب سے کیا گیا تھا کیوں کہ جس علاقے میں دھماکا ہوا، وہاں کردوں کی اکثریت تھی اور شادی میں بھی بڑی تعداد میں کرد کمیونٹی کے افراد شریک تھے۔23 اگست کو بھی ترکی میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے، اس واقعے کا ذمہ دار بھی کرد باغیوں کو ہی ٹھہرایا گیا۔

واضح رہے کہ ترکی میں کرد باغیوں کی تنظیم پی کے کے کی جانب سے 1984 میں علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کی گئی، بغاوت کی اس تحریک میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں دوسری جانب حکومت بغاوت کچلنے کے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی پالیسی بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔