نراجیت کا شکار: لیبیا، دو پارلیمنٹیں اور تین حکومتیں

184

برطانوی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی سلیکٹ کمیٹی نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ لیبیا کی تباہی اور معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد تیل سے مالا مال ملک میں موجودہ نراجیت کے تسلط اور داعش کے قدم جمانے کے اصل مجرم برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ہیں۔ یوں، کیمرون ایک اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں عراق کی تباہ کن جنگ کا اور کئی لاکھ عراقیوں کی ہلاکتوں کا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کی رکنیت سے کیمرون کے استعفے کے اعلان کے دو روز بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں لیبیا میں معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے برطانیہ کی فوجی مداخلت ہر پہلو سے ناکام رہی ہے، اور اس ناکامی کا دوش ڈیوڈ کیمرون کے کندھوں پر جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی مداخلت سے پہلے، صحیح انٹیلی جنس تجزیہ مفقود تھا، فوجی مداخلت شروع ہوتے ہی اس کے مقصد کو تبدیل کر دیا گیا اور یہ اتنی عجلت میں ہوا کہ معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کی صورت حال کے لیے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا گیا تھا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ امور خارجہ کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور تمام اراکین، ان 557 اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنہوں نے لیبیا میں فوجی مداخلت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ صرف 13اراکین پارلیمنٹ نے مداخلت کی مخالفت کی تھی جن میں لیبر پارٹی کے موجودہ سربراہ جیریمی کوربن بھی شامل تھے۔
بہر حال پارلیمانی کمیٹی کا اب کہنا ہے کہ بن غازی پر حملے اور شہریوں کے قتل عام کے بارے میں معمر قذافی پر الزام مبالغے پر مبنی تھا۔ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بن غازی کے شہریوں کے دفاع کے لیے فوجی مداخلت کا مقصد، مداخلت کے دوران تبدیل کردیا گیا اور مشن، معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کا قرار دیا گیا، جب کہ بن غازی کے شہریوں کے دفاع کا مقصد مارچ 2011 میں چوبیس گھنٹوں میں حاصل ہو گیا تھا لیکن کیمرون نے قذافی کے خاتمے کے لیے تباہ کن آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور قذافی کی ہلاکت کے بعد کیمرون اور فرانس کے صدر سرکوزی، فاتحوں کی طرح بن غازی گئے لیکن انہوں نے لیبیا میں خانہ جنگی اور نراجیت کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ فوجی مداخلت کے دوران برطانیہ اور فرانس نے لیبیا میں اس قدر اسلحہ تقسیم کیا تھا کہ اس اسلحہ کے بل پر ہر علاقہ میں مسلح گروپ منظم ہوگئے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ ملک میں 1700 مسلح گروپ ہیں جو من مانی کارروائی کر رہے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کے بعد لیبیا اس قدر لا قانونیت کا شکار ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب مغربی طاقتوں کو سخت تشویش ہے کہ اس لا قانونیت کے نتیجے میں داعش نے نہ صرف لیبیا میں بلکہ پورے شمالی افریقا میں قدم جما لیے ہیں۔ لیبیا ایسا ملک اس وقت کرہ ارض پر نہیں ملتا جہاں، دو متحارب پارلیمنٹیں ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف، تین حکومتیں ہیں جن میں اس وقت جنگ تیل کے کنووں اور تیل کی بندرگاہوں پر قبضہ کے لیے جاری ہے۔
تیل سے مالا مال لیبیا، ایک زمانہ میں افریقا کا خوشحال ترین ملک تھا جہاں عام آدمی کو مفت تعلیم سے لے کرمفت صحت تک بے شمار سہولتیں حاصل تھیں اور عوام کا معیار زندگی یورپ کے کئی ملکوں سے بلند تھا، اب تیل کی پیداوار اور برآمد کم و بیش بند ہوگئی ہے، معیشت ٹھپ پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے سنگین مالی بحران کا سامنا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ لیبیا میں فوجی مداخلت کے عین دوران معمر قذافی کو ہٹانے کا مشن تبدیل کیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مشن عین وقت پر تبدیل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا منصوبہ بہت پہلے تیار کر لیا گیا تھا۔ اب یہ بات صاف صاف سامنے آگئی ہے کہ مغربی طاقتوں نے 2011 کی شورش کی آڑ میں، معمر قذافی کو اقتدار سے اس لیے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، کیوں کہ لیبیا کے سربراہ نے افریقا کے مرکزی بینک کے قیام اور افریقی کرنسی رائج کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا اور اس پر بہت جلد عمل درآمد ہونے والا تھا، جس کے نتیجے میں سب سے کاری ضرب امریکی معیشت اور امریکی ڈالر پر پڑتی۔ منصوبہ کے تحت، مجوزہ افریقی کرنسی، دینار کی بنیاد سونے پر ہوتی، معمر قذافی نے اس منصوبہ کے لیے 143ٹن سونا جمع کر لیا تھا۔ بلا شبہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی افریقی دینار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پھر معمر قذافی نے فیصلہ کیا تھا کہ لیبیا کا تیل امریکی ڈالر کے بجائے افریقا کی مجوزہ کرنسی دینار میں فروخت کیا جائے گا۔ افریقی دینار کے رائج ہونے کے بعد تیل پیدا کرنے والے افریقا کے دوسرے ممالک بھی اپنا تیل دینار میں فروخت کرتے۔ یہ صورت حال امریکا اور مغربی طاقتوں کی معیشت کے لیے مہلک ثابت ہوتی، یہی وجہ ہے کہ معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور امریکا اور مغربی اتحادیوں نے ثابت کر دیا کہ جو رہنما بھی، ان کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی چنگل سے نکلنے کی کوشش کرے گا اس کا حشر صدام حسین اور معمر قذافی ایسا ہوگا۔ عراق میں صدام حسین کے خاتمے کے بعد تو امریکا اور اس کے اتحادی تیل کی دولت پر شب خون مارنے میں کامیاب ہوگئے لیکن لیبیا میں تین متحارب حکومتوں، بے شمار مسلح گروپس اور داعش کے قدم جمانے کی وجہ سے ابھی تک مغربی طاقتیں، تیل کی دولت پر قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔