کیا واقعی پاک بھارت جنگ ہونے جارہی ہے؟

382

میں الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ذرائع ابلاغ کے سارے ہی میڈیم دیکھیں تو ایک ہی بات نظر آتی ہے اور وہ ہے جنگی ترانے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگ بس اب شروع ہوئی کہ تب۔ کوئی مخالف فریق کو بھبکیاں دے رہا ہے تو کوئی اپنے بازو کی طاقت دکھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایٹمی حملے سے بچاؤ کی تراکیب بھی نظر آئیں گی اور ’تازہ ترین‘ صورت حال بھی۔ یہ ’تازہ ترین‘ صورت حال ایک طرح سے رننگ کمنٹری ہوتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ فریق مخالف کی کون سی ڈویژن فوج کہاں پر متعین کردی گئی ہے اور کس قسم کے ہتھیار پاک بھارت سرحد کے کون سے مقام پر پہنچا دیے گئے ہیں۔ کوئی یہ بھی خبر لے آتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو منجمد حالت سے متحرک حالت میں لے آیا گیا ہے اور اس کے نشانے پر کون کون سے شہر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہر شخص جنگی تجزیہ نگار کا روپ دھار گیا ہے۔ یہ جنگی تجزیہ نگار آپ کو اخبارات میں بھی نظر آئیں گے، ٹی وی پر بھی اور گلی محلے میں بھی۔
کیا واقعی پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی جنگ ہونے جارہی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر سب سے پہلے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر گفتگو سے قبل ایک چھوٹا سا واقعہ۔ یہ دسمبر 2001 کی بات ہے۔ یہ مشرف صاحب کے اقتدار کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس وقت بھی کچھ ایسا ہی ماحول بن چکا تھا کہ بھارت اب پاکستان پر حملہ آور ہوا کہ تب۔ کچھ ایسی ہی خبریں اس وقت بھی آرہی تھیں جیسی کہ اب۔ یعنی پاک فوج حملہ آور فوج کا دندان شکن جواب دینے کو تیار ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے تمام ائرپورٹوں پر ہائی الرٹ جاری کردیا ہے، بحریہ نے مشقیں شروع کردی ہیں، اسٹرا ٹیجک اثاثوں کی حفاظت کے لیے تمام تر تدابیر اختیار کرلی گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں اس زمانے میں دی نیوز سے وابستہ تھا اور ایوی ایشن کی رپورٹنگ بھی کررہا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حامد نواز اس زمانے میں سیکرٹری دفاع تھے اور بربنائے عہدہ پی آئی اے کے چیئرمین بھی۔ جب بھی وہ کراچی آتے تھے تو چیئرمین پی آئی اے کی حیثیت سے ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حامد نواز انتہائی نفیس انسان ہیں اور سیکرٹری دفاع اور فوجی جنرل ہونے کے باوجود ان میں انتہائی تواضع اور انکساری تھی۔ ان کی ایک خاص خوبی یہ بھی تھی کہ جب تک ان سے میں گفتگو کرتا رہتا وہ ہر سوال کا انتہائی اطمینان اور تفصیل کے ساتھ جواب دیتے۔ چوں کہ یہ نائن الیون کے بعد ہی کا زمانہ تھا اور ہمارے پڑوس میں امریکا اور اتحادی فوجیں طاقت آزمائی کررہی تھیں۔ اس حوالے سے میں اور طارق ابوالحسن (طارق اس زمانے میں جسارت کی نمائندگی کررہے تھے) ہمیشہ ہی متجسس رہتے۔ ہم دونوں ہی کو حالات سے اس لیے بھی گہری دلچسپی تھی کہ نائن الیون کے فوری بعد افغانستان پر امریکی حملوں کے دوران ہم دونوں ہی وہ اخبار نویس تھے جنہوں نے افغانستان کے اندر جاکر جنگی رپورٹنگ کی۔ جیسے ہی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حامد نواز سے پی آئی اے میں دسمبر 2001 میں ملاقات کا موقع ملا، ان سے پہلا سوال ہی یہی تھا کہ پاک بھارت جنگ کے کتنے فی صد امکانات ہیں۔ مجھے آج بھی حامد نواز کا مسکراتا ہوا مختصر سا جواب یاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی جنگ ہوتی ہے اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ بس شروع ہوجاتی ہے۔ اتنے شور شرابے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اب بھی ایسا ہی ہے۔ 2001 میں اور آج واحد فرق الیکٹرونک میڈیا کا ہے۔ اس زمانے میں نجی ٹی وی چینل پاکستان میں وارد نہیں ہوئے تھے اس لیے جنگ کا بخار قدرے ہلکا تھا۔ اب چوں کہ الیکٹرونک میڈیا موجود ہے اس لیے ان کا منجن تیار ہے اور جنگ کا بخار دونوں طرف خوب اچھی طرح سے سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ جنگی بخار پیدا ہی کیوں کیا جارہا ہے۔ کیوں مودی صاحب اپنا وقت ملٹری کنٹرول روم میں گزار رہے ہیں اور پاکستان میں موٹروے پر جنگی طیارے اتارنے کی ریہرسل کی جارہی ہے۔ کیوں دونوں طرف فوجی جنتا سانسیں پھلائے ایک دوسرے کو گھور رہی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ایک چھوٹا سا مشاہدہ۔ یہ تقریباً ہر برس ہی کی بات ہے کہ جنوری کا آغاز ہوتے ہی پاک بھارت سرحد پر گرما گرمی شروع ہوجاتی ہے۔ ہلکی پھلکی فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے اور جولائی میں آکر سب کچھ بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مارچ میں بھارت کا بجٹ آتا ہے اور جون میں پاکستان کا۔ دونوں طرف کی فوجوں کو بھاری بجٹ درکار ہوتا ہے جس کے جواز کے لیے یہ ایکسر سائز ہر برس ہوتی ہے۔ اب ضمنی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کیوں یہ حرارت پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا ایک منطقی جواب تو یہ ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں معاملات قابو سے باہر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں حکومتوں پر بھرپور عوامی دباؤ ہے۔ اس دباؤ کو ہلکا کرنے اور ریلیز کرنے کا آسان ترین طریقہ جنگی ترانے ہیں۔ بھارت کو بھی اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل عام پر سبکی کا سامنا تھا تو پاکستانی حکومت پر بھی کشمیر کا کیس پرزور طریقے سے پیش کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ سو دونوں جانب سے آزمودہ طریقہ کار اپنایا گیا۔ اب چند دن اور انتظار کیجیے۔ پھر دیکھیے گا کہ کسی مشترکہ دوست نے دونوں ممالک کے سربراہان کو ایک میز پر بٹھادیا ہے اور برف پگھل رہی ہے جیسی گھسی پٹی ہیڈلائین سب کے سامنے ہوگی۔ پھر سے سارے موسمی جنگی تجزیہ کار اس برف کے پگھلنے کے بارے میں پرجوش تجزیے پیش کررہے ہوں گے۔
اس سوال کا ایک اور جواب بھی ہے جو آئندہ چند ماہ کے بعد ہی سامنے آسکے گا۔ آخر اس خطے میں عالمی طاقتیں کون سا کھیل کھیلنے جارہی ہیں جسے پس منظر میں رکھنے کے لیے یہ اسموک اسکرین کھڑی کی گئی ہے۔ آخر ایسا کیا ہونے جارہا ہے جس کو چھپانے کے لیے پوری دنیا کی توجہ اس طرف مرکوز کردی گئی ہے۔
تو پھر پہلے تو برف پگھلنے کا انتظار کیجیے۔ مگر اس خطے میں پس منظر میں ہونے والی سرگرمیوں پر بھی نگاہ رکھیے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔