سعودی عرب اور امریکا (آخری حصہ) ۔

153

دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشیں جاری ہیں تو یہ سازش کا ربھی یقیناًاسی دنیا میں موجود ہوں گے۔ سازش کاروں کو منظم کرنے والے گروپ کا نام ہے بلڈر برگ۔ اس بارے میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں تفصیل کے ساتھ میں لکھ چکا ہوں۔ دنیا کو ایک عالمگیر حکومت کے زیر تحت لانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیا ر کیا جائے۔ اس بارے میں ہر برس جون میں بلڈر برگ کے اجلاس میں غور کیا جاتا ہے۔ جون 2014 میں ہونے والے اجلاس کے بعد میں نے 5 جون کو جو آرٹیکل لکھا تھا۔ اس کا ایک اقتباس۔
’اجلاس میں کیا فیصلے کیے گئے اور ان کا کیا ٹائم فریم مقرر کیا گیا اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ تاہم ہم اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے اور اس کے شرکاء کو دیکھ کر کافی کچھ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ عالمی سازش کار آئندہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہفتہ اتوار کواس گروپ کے اجلاس میں کون کون افراد شریک ہوئے، ان میں سے اکثر کے نام تو دستیاب ہیں مگر کچھ کے نام خفیہ بھی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا خفیہ بھی نہیں ہے۔ آئیے سب سے پہلے جاری کردہ ایجنڈے کو دیکھتے ہیں۔ بلڈر برگ سیکرٹریٹ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اس اجلاس کا جو ایجنڈا تھا، اس میں دنیا کی موجودہ معاشی صورت حال، چین کی معاشی صورت حال، یوکرین کی صورت حال سمیت کئی معاملات پر غور کیا گیا۔ اس میں یورپ کے نئے مستقبل، ٹیکنالوجی کی جدت اور اس کے نتیجے میں ملازمتوں کی صورت حال، انٹیلی جنس کی معلومات کے تبادلے کی اہمیت بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ عالمی آبادی کے مسائل پر بھی غور کیا گیا۔ اس کے علاوہ کیا پرائیویسی کہیں پر موجود ہے، جیسا سوال بھی ایجنڈے پر موجود تھا۔ ایجنڈے کا آخری نکتہ حالیہ واقعات کے عنوان سے تھا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک جامع عنوان ہے اور اس کے تحت ہر چیز کو قابل بحث لایا جاسکتا ہے۔ اسی ایجنڈے میں مزید دو اور نکتے بھی شامل تھے جس میں سے ایک تھا ’متوسط طبقہ کا حال اور جمہوریت کا مستقبل‘ اور دوسرا ’مشرق وسطیٰ کی نئی تعمیر‘ تھے۔
یہی دو اہم ترین نکات ہیں جن پر اس وقت عالمی سازش کار اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ہم مشرق وسطیٰ کی صوررت حال کو کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس نکتہ کو زیر بحث لانے سے پہلے ایک بات کی دوبارہ وضاحت ہوجائے کہ اس پورے کھیل کا کہیں سے بھی تعلق تیل سے نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب و ایران کی تو کیا بات ہے، پاکستان، نائیجیریا، چین، روس و وینزویلا سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں جو تیل کے ذخائر ہیں وہ کْل سات کمپنیوں کے پاس ہیں جو سیون سسٹرز کے نام سے مشہور ہیں۔ ان سیون سسٹرز کے مالکان کون ہیں۔ یہی عالمی بینکار۔ اس لیے یہ محض ڈس انفارمیشن ہے کہ یہ تیل کی جنگ ہے یا روس، چین و امریکا کے مابین کوئی آویزش ہے۔یہ صرف اور صرف اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور دیگر عرب ممالک کا ان سازش کاروں کے نزدیک نیا نقشہ کیا ہے۔ اس کے کچھ نقوش ہمیں ان سازش کاروں کے گزشتہ اجلاسوں اور ان کے ہی تھنک ٹینکوں کے جاری کردہ پیپروں سے ملتا ہے۔ ان اشارات کے مطابق پورے مشرق وسطیٰ، سعودی عرب اور اسرائیل کے ٹکڑے کرکے چھوٹی چھوٹی نئی ریاستیں تشکیل دی جائیں گی جنہیں بعد ازاں ایک نئے بڑے سیٹ اپ کے تحت کردیا جائے گا۔
اب بلڈر برگ کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کی بات کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ دنوں میں اس منصوبے پر کام شروع کیا جارہا ہے۔ اس خطہ کے سیاسی و معاشی حالات بھی اسی جانب اشارے کررہے ہیں۔ شطرنج کی بساط پر مہروں کی چال دیکھیے۔ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔‘
تیل کی دریافت کے بعد سے سعودی عرب بتدریج ایک خوشحال ملک میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس کے پاس ہر برس سیکڑوں ارب ڈالر کی آمدنی اس کے اخراجات سے فاضل ہوتی تھی جو اس کی مضبوط معیشت کی ضامن تھی۔ سب سے پہلے تو سعودی عرب کو خسارے کے بجٹ میں لانے کے لیے اسے جنگوں میں پھنسایا گیا۔ عراق کے ایران پر حملے اور پھر کویت پر حملے کی آڑ میں سعودی عرب کے حکمرانوں کو سلامتی کے خوف میں مبتلا کردیا گیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب کوچند سو روپے کلو کا لوہا سیکڑوں ارب ڈالر کی مالیت میں اسلحے کے نام پر فروخت کردیا گیا۔ کویت کی سلامتی کے نام پر عراق پر جو خوفناک بمباری کی گئی تھی، اس کے اثرات عراق پر پڑے ہوں یا نہ ہوں، تاہم اس بمباری کے بل نے سعودی عرب کو ضرور قرض دار کردیا تھا۔ اس کے بعد قرض کا جو سلسلہ طویل ہوا، پھر سعودی حکومت اس کے جال سے باہر نہیں نکل سکی۔ نائن الیون کے بعد تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے بہار عرب، پھر شام و یمن کی ایک ایسی دلدل میں سعودی حکمرانوں کو پھنسادیا گیا ہے جس سے نکلنا اب ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔
امریکا میں سعودی عرب کے مالی اثاثوں کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ سعودی عرب میں انتشار برپا کرنے کے لیے دوسری سمت سے حملہ ہے۔ معاشی طور پر بے دست و پا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شیر کا شکار کرنے سے قبل اس کے دانت نکال دیے جائیں، اس کے ناخن کھینچ لیے جائیں اور جسمانی طور پر اسے نڈھال کردیا جائے۔ یاد رکھیے کہ سوویت یونین ٹوٹنے کی وجہ اس کی افغانستان میں فوجی شکست نہیں تھی بلکہ معاشی بدحالی تھی۔ یہی وہ جدید ترین طریق کار ہے جس مدد سے آج کی جدید دنیا میں قوموں کو غلام بنایا جاتاہے۔حالات کی رفتار کو دیکھتے رہیے، پس پردہ کہانیاں خود سمجھ میں آجائیں گی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔