مودی ایک ممتاز تاریخ دان کو شہید کرنے کے درپے

221

یہ بات 1963کی ہے۔ دلی کے رائے سینا ہوسٹل میں، میرے ہمسایہ، بائیں بازو کے جریدے لنک کے نائب مدیر روی برت بیدی ایک روز خوش ہیجانی انداز سے آئے اور کہنے لگے کہ چلو آج میں تمہیں ہندوستان کے ایک نوجوان ممتاز دانش ور سے ملواوں۔ وہ اس قدر جوش میں تھے کہ میں اس سے مغلوب ہوکر فوراً ان کے ساتھ ہو لیا۔ بیدی صاحب نے، قرول باغ کے چھپر والے کنویں کے سامنے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ اند رسے ایک نوجوں نکلا، جس کا چہرہ مسکراہٹ سے دمک رہا تھا۔ عمر یہی کوئی تیس پینتیس سال کی ہوگی۔ بیدی صاحب اور نوجوان والہانہ انداز سے بغل گیر ہوئے۔ وہ نوجوان، شاید اپنے کسی عزیز یا دوست کے ہاں ٹھیرا ہوا تھا۔ وہ ہمیں اندر ایک چھوٹے سے سادہ کمرے میں لے گیا اور وہاں پڑے مونڈھوں پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ بیدی صاحب نے تعارف کرایا۔ یہ بپن چندرا ہیں۔ ہندوستان کے ابھرتے ہوئے دانش ور اور تاریخ دان۔ یہ ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک اور آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔ یہ ایک عرصہ سے ہندوستان میں فرقہ پرستی کے مسئلہ پر کام کر رہے ہیں اور عن قریب ان کی تحقیق اور کتاب مکمل ہونے والی ہے۔ بیدی صاحب کہنے لگے کہ بہت جلد جب تم بپن چندرا کی تحقیق، کتاب کی شکل میں دیکھو گے تو اپنے آپ پر فخر کرو گے کہ تم کس عظیم شخصیت سے مل چکے ہو۔
بپن چندرا کو جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو لاہور کو یاد کر کے انہوں نے ایسی آہ بھری کہ وہ خود بھی لرز اٹھے اور ہم کو بھی لرزا دیا۔ آنکھوں میں جھلملاتے آنسو لیے کہنے لگے کہ میں نے لاہور کے فورمین کرسچین کالج میں تعلیم پائی تھی اور وہ میری زندگی کا ایسا تابناک دور تھا کہ میں مرتے دم تک نہ بھلا سکوں گا۔
ان کے مطالعہ اور تحقیق کے خاص موضوع فرقہ پرستی کے پیش نظر میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے نزدیک، آزادی کی جدوجہد کے دوران فرقہ پرستی کے عروج کی اصل وجہ کیا ہے۔ بپن چندرا نے ایک لمحہ بھی جواب میں توقف نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ پہلے ہی بھانپ گئے تھے کہ میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ بپن چندرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی کی اصل وجہ، مذہبی بنیاد پرستی نہیں ہے بلکہ اسے بعض مفاد پرست قوتوں نے ایک نظریہ کے طور پر پروان چڑھایا ہے۔ انگریزوں کا اپنا الگ مفاد تھا۔ وہ ہندوستان کی جدو جہد آزادی کو کمزور کرنا اور مختلف فرقوں کے درمیان کشمکش پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اور ہندوستان کی سب سے بڑی کٹر ہندو فرقہ پرست تنظیم آر ایس ایس، مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکا رہی تھی۔ بپن چندرا نے کہا کہ یہ اہم بات ہے کہ آر ایس ایس جو 1925میں منظر عام پر آئی ہے، کبھی جدو جہد آزادی میں شامل نہیں رہی ہے اور ہمیشہ اس نے کہا ہے کہ وہ سیاست سے الگ تھلگ، سماجی اصلاحی تنظیم ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ 1930میں جب کانگریس نے مکمل آزادی کا نعرہ لگایا تو آرایس ایس کے بانی ڈاکٹر ھیگے واڑ نے حکم دیا کہ آر ایس ایس کے جو اراکین مکمل آزادی کے نعرہ کی حمایت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ تنظیم سے نکل جائیں۔ بپن چندرا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ ہی نتیجہ اخذ کرلیجیے کہ آر ایس ایس کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی۔
بپن چندرا سے اس ملاقات کے بعد 1965 میں ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی اور مجھے دلی کی تہاڑ جیل میں ’’مہمان‘‘ بننا پڑا اور اس کے بعد دوبارہ بپن چندرا سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ بیدی صاحب اپنے خطوط میں مجھے ان کتابوں کے بارے میں باخبر رکھتے رہے جو اس دوران بپن چندرا نے لکھی تھیں۔ جن میں آزادی کی جدوجہد کے بارے میں فریڈم اسٹرگل، نیشنلزم اینڈ کلونیلزم ان انڈیا، کمیونزم ان ماڈرن انڈیا، ہسٹری آف موڈرن انڈیا، انڈین نیشنلزم، آیڈیالوجی اینڈ پالیٹکس ان انڈیا شامل تھیں ان میں سب سے نمایاں ہندوستان میں فرقہ پرستی پر ’’کمیونلزم، اے پریمیر‘‘ ہے۔ ہندوستان کی قدیم اور جدید تاریخ پر انہوں نے 17 کتابیں لکھی ہیں بپن چندرا کی ان تصانیف پر انہیں 2010 میں ہندوستان کا تیسرابڑا اعزاز، پدما بھوشن دیا گیا تھا۔
اب پچھلے ہفتہ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے حکم پر نیشنل بک ٹرسٹ نے بپن چندرا کی کتاب ’’کمیونلزم، اے پریمیر‘‘ کی اشاعت پر مکمل پا بندی عائد کر دی ہے جس میں آر ایس ایس کو سب سے بڑی انتہا پسند فرقہ پرست جماعت ثابت کیا گیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بپن چندرا خود ایک طویل عرصہ تک نیشنل بک ٹرسٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ نیشنل بک ٹرسٹ کے اس اقدام کے بعد دلی یونیورسٹی نے بپن چندرا کی فرقہ پرستی پر ان کی کتاب کا ہندی ورژن ممنوع قرار دے دیا ہے جو نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ کوئی تقسیم کر سکتا ہے۔
ملک کے 150نامور تاریخ دانوں نے نیشنل بک ٹرسٹ کے اس اقدام کو آزادی رائے کی صریح خلاف ورزی، جابرانہ اور آمرانہ اقدام قرار دیا ہے۔ ان تاریخ دانوں میں رومیلا تھاپڑ، عرفان حبیب، کے این پانیکر، پربھات پٹنایک۔ شیرین موسوی، ویون سندرم، ادیتا مکر جی اور مردولا مکر جی شامل ہیں۔
بپن چندرا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو سال ہو گئے ہیں لیکن ان کی تصانیف برابر، آر ایس ایس کے کٹر ہندو قوم پرستوں اور ان کی زیر اثر مودی سرکار کو ستا رہی ہیں کیوں کہ بپن چندرا نے ان تصانیف میں ان فرقہ پرستوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ بپن چندرا سے نریندر مودی کی اس وجہ سے سخت دشمنی ہے اور وہ ان سے انتقام لینے کے درپے ہیں کیوں کہ بپن چندرا نے اپنی کتاب ’’انڈیا آفٹر انڈی پینڈنس‘‘ میں گجرات میں 2002 کے خونریز مسلم کش فسادات میں گجرات کی ریاستی حکومت کے رول کو بے نقاب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے نریندر مودی نے بپن چندرا کی کتابوں کو ممنوع قرارد ینے کا عمل شروع کیا ہے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ وہی انداز ہے جیسے کہ آر ایس ایس نے، 1947کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے بعد۔ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں گاندھی جی کو راہ سے ہٹانے کی غرض سے، نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں، انہیں قتل کرادیا تھا۔