شیخ صاحب سے رسم وراہ

192

پنے شیخ کے مداح تو ہمیشہ سے ہیں، اس وقت بھی جب وہ جنرل پرویز مشرف کے نفس ناطقہ تھے اور دوسروں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے قوم کو امریکا سے ڈرایا کرتے تھے جیسے کوئی بیوہ اپنے شریر بچوں کو ڈرانے کے لیے کہتی ہے ’’چُپ کرجاؤ ورنہ ’’بیچا‘‘ آجائے گا‘‘۔ آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ گبر سنگھ آجائے گا۔ گزشتہ دنوں کچھ گبر سنگھوں نے آنے کی کوشش بھی کی لیکن اُلٹے پاؤں بھاگ لیے۔
ہمیں وہ شیخ صاحب یاد ہیں جو کہتے تھے کہ پرویز مشرف امریکا کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے تو امریکا پورے پاکستان کو تورا بورا بنا دیتا، پتھر کے دور میں پہنچا دیتا۔ کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کر بیٹھے کہ واشنگٹن سے چلنے والی گولی یہاں ٹھیک نشانے پر بیٹھتی ہے۔ یہ راز نہیں کھلا کہ امریکا نے اپنے چھوٹے موٹے کاسہ لیسوں کو کس کس طرح سے نوازا۔ پرویز مشرف کو تو9 سال حکمرانی کرنے کی سند عطا کردی تھی۔ پہلے وائسرائے‘ ملکہ برطانیہ کی سند لے کر برعظیم میں آتے تھے، اب یہ سند امریکا سے ملتی ہے۔ پرویز مشرف تو آج بھی امریکا کی پناہ میں ہیں اور اپنی ٹوٹی ہوئی کمر سے ٹھمکے لگارہے ہیں۔ اب بھی بتارہے تھے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے۔ یہ ایک کمانڈو ہی کی ہمت اور حوصلہ ہے کہ وہ اس عالم میں بھی خوب ناچتے ہیں، کبھی وہ نچایا کرتے تھے۔
شیخ صاحب نے رائے ونڈ جلسے میں عمران خان کے کاندھے پر چڑھ کر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تو ایسا موقع حاصل نہیں کرسکتے، عموماً دوسروں ہی کے کندھوں پر سوار رہے ہیں۔ وہاں انہوں نے اپنے بھڑکیلے مزاج کے عین مطابق عمران خان کو مشورہ دیا کہ یہ آنیاں جانیاں چھوڑو، جاتی امرا کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔ نواز شریف نے ان کے عزائم سے خوف زدہ ہوکر پیر3 اکتوبر کو پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندوں کے اجلاس میں شیخ رشید کو بلایا ہی نہیں، حالاں کہ انہیں چاہیے تھا کہ شیخ صاحب کو بلاکر دو اینٹیں ان کے ہاتھ میں تھما دیتے کہ بجاتے رہو۔ اس سے پہلے آصف زرداری فوج کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر ملک سے ایسے بھاگے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
ان کو اجلاس میں نہ بلانے کا جواز شیخ صاحب نے یہ پیش کیا کہ چین اور کشمیر کے بارے میں پورے پاکستان میں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ چنانچہ انہیں ڈر تھا کہ چین پاک راہداری منصوبے اور کشمیر پالیسی پر میں بڑے چبھتے ہوئے سوال کر بیٹھوں گا۔ چین کے بارے میں اپنی مہارت کے ثبوت میں انہوں نے بتایا کہ وہ چواین لائی سے مل چکے ہیں۔ بس اس ایک ملاقات میں وہ چین کے بارے میں سب کچھ جان گئے۔ لیکن ان دونوں میں گفتگو کس زبان میں ہوئی ہوگی۔ چواین لائی کبھی انگریزی نہیں بولتے تھے اور شیخ صاحب کو چینی زبان نہیں آتی، کم ازکم اس وقت تو بالکل بھی نہیں آتی تھی۔ اب ممکن ہے دوچار جملے یاد کرلیے ہوں۔ کسی ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی ہوگی تو کسی ملک کے بارے میں ترجمان کے ذریعے آگہی نہیں حاصل کی جاسکتی۔ انہیں تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کر دریائے زرد کہاں سے نکل کر کہاں جاتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ان کے دعوے میں شاید کچھ حقیقت ہو کہ وہ بھی کشمیری ہیں اور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ راولپنڈی آچکے ہیں۔ جس بڑے جلسے سے انہوں نے خطاب کیا تھا، باخبر ذرائع کے مطابق اس جلسے میں کہیں شیخ رشید بھی دیکھے گئے۔ شیخ عبداللہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے دیہانت کی خبر سن کر ترنت ہی واپس لوٹ گئے تھے، نہرو شیخ صاحب کے گہرے دوست جو تھے، ایسے دوست جس نے انہیں برسوں جیل میں ڈالے رکھا۔ پنڈت نہرو بھی کشمیری تھے۔ لیکن شیخ رشید کشمیر کے بارے میں جتنا جانتے ہوں گے، اس سے کہیں زیادہ تو معروف کشمیری صحافی عارف بہار جانتے ہیں۔
شیخ صاحب نے رائے ونڈ جلسے کے شرکاء کو مشورہ دیا کہ سب مل کر پیشاب کردو، جاتی امرا کا محل بہہ جائے گا ۔ اس پر خوب ’’بہجا، بہجا‘‘ہوئی لیکن یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ جلسے کے شرکاء کے لیے حوائج ضروریہ کا معقول انتظام نہیں تھا۔ 2014ء کے دھرنے میں تو اطراف کے پارک، گرین بیلٹس اور گلیاں تک مہک اُٹھیں۔ شیخ صاحب نے حسب عادت پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری کو بلو رانی کہہ کر مخاطب کیا۔ جس کو وہ چند دن پہلے اپنا شہزادہ قرار دے چکے تھے۔ اب کوئی جواب میں انہیں شیدا ٹلی کہہ دے تو بُرا تو لگے گا ناں۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے ہوتے ہوئے عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ یعنی بقول مرزا غالب ’’ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔ اور فیض احمد فیض بہت پہلے انتباہ کرچکے ہیں کہ:
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
یہ انتباہ عمران خان کے لیے ہے، اگر سمجھ میں آجائے ، نواز شریف سمجھ گئے ہیں۔