1961میں جب غیر وابستہ تحریک کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت ہندوستان اس کے بانیوں میں ایک اہم ملک مانا جاتا تھا اور دو متحارب دھڑوں میں بٹی دنیا میں اس تحریک کی بناء پر ہندوستان کو دنیا میں وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ 1962میں جب ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازع پر جنگ چھڑی تو اس تحریک کو سخت دھچکا پہنچا۔ جنگ کے دوران وزیراعظم نہرو نے امریکا کے صدر کینیڈی کو دو خط بھیجے جن میں ان سے ہندوستان کے دفاع کے لیے لڑاکا طیاروں کے بارہ اسکوڈرنز اور جدید ترین رڈار سسٹم بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ اس زمانہ میں دلی میں تعینات امریکی سفیرجان کینتھ گیلبرتھ نے چین کے خلاف، ہندوستان کے دفاع میں، امریکا کے لڑاکا طیارے جھونکنے کے لیے بہت کوشش کی تھی اور صدر کینیڈی سے پر زور سفارش کی تھی لیکن اس کے باوجود، صدر کینیڈی نے نہرو کی یہ درخواست منظور کرنے سے معذوری ظاہر کی،کیوں کہ امریکی حکومت اس زمانے میں کیوبا کے مزائل کے سنگین بحران سے دوچار تھی۔ البتہ صدر کینیڈی نے فلی پینزمیں تعینات امریکا کے C130 ٹرانسپورٹ طیارے ہندوستان بھیجے جن کو اسلحہ اور گولا بارود کی رسد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے علاوہ امریکا نے چین کی فوج کی نقل و حرکت کی تصاویر لینے کے لیے خاص جاسوس طیارے ہندوستان بھیجے۔
دوسری جانب سفیر گیلبرتھ کو پاکستان کے بارے میں سخت تشویش تھی کہ کہیں وہ اس جنگ میں چین کا ساتھ نہ دے اور ہندوستان کے لیے مصیبت کا باعث بنے۔ سفیر گیلبرتھ ہی کی تجویز پر صدر کینیڈی نے اپنے مشیر خاص ایورل ہیری مین کو برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈنکن سینڈیز کے ساتھ دلی بھیجا تاکہ وہ جواہر لعل نہرو کو پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات کے وعدہ پر آمادہ کریں، جس کے عوض، صدر ایوب خان کو جنگ میں چین کا ساتھ نہ دینے پر راضی کیا جاسکے۔
نہرو سے بات چیت کے بعد جس رات کو ایورل ہیری مین اور ڈنکن سینڈیز، صدر ایوب سے ملنے اسلام آباد جا رہے تھے، دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر آغا ہلالی کی قیام گاہ، گل رعنا میں مجھے ان دونوں سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ یہ دونوں نہرو سے ملاقات سے بہت خوش تھے اور انہیں یقین تھا کہ ایوب خان، کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات کے عوض، جنگ میں چین کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کریں گے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کینیڈی کے ان دو ایلچیوں نے چین کے خلاف ایک بڑا معرکہ سر کر لیاہے۔ اسی سمجھوتے کے تحت 1963 میں سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان، کشمیر کے مسئلہ پر طویل بے نتیجہ مذاکرات ہوئے تھے۔
ہندوستان کی غیر وابستہ پالیسی کو ایک اورسخت دھچکہ اس وقت لگا جب 1971میں اندرا گاندھی نے، پاکستان کو دو لخت کرنے لیے جنگ کے دوران، سویت یونین سے امن اور دوستی کا سمجھوتا کیا تاکہ امریکا کو پاکستان کی مدد سے باز رکھا جا سکے۔ اور واقعی امریکا نے، سویت یونین کے دو بدو آنے سے گریز کیا اور پاکستان کو محض تسلی دیتا رہا کہ امریکا کا بحری بیڑہ خلیج بنگال کی سمت روانہ ہوگیا ہے۔
یہ بات واقعی سخت تعجب کی تھی کہ عراق کی جنگ سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ہندوستانی فوج، عراق بھیجنے کے لیے صدر بش کی متعدد درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ہندوستان ایمان دارانہ طور پر غیر وابستہ پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔ لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے واجپائی کی پالیسی یکسر ترک کردی ہے اور امریکا سے کھلم کھلا فوجی اتحاد کر کے جنوبی ایشیاء میں امریکا کے فوجی اور سیاسی محاذکے رکھوالے بن گئے ہیں۔
جون 2015میں امریکا کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے ہندوستان کا دس روزہ دورہ کیا تھا جس کے دوران دس سالہ دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس سال مئی میں امریکا اور ہندوستان کے درمیان باہمی دفاعی تعاون کو اور وسعت دینے کے لیے LEMOAکے نام سے لاجسٹک امداد کے سمجھوتے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت دونوں ملکوں نے فوجی کاروائیوں، مشترکہ فوجی مشقوں اور آفتوں کے دوران انسانی ہمدردی کی امداد کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین پر فوجی اڈوں، بندرگاہوں اور فضا کو استعمال کرنے کا پیمان کیا ہے۔
اس سمجھوتے کا اصل مقصد ایک طرف، چین کی فوجی قوت کے مقابلہ میں امریکا کا ساتھ دینا ہے اور دوسری جانب، پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی میں امریکا کا تعاون حاصل کرنا ہے۔ ہندوستان امریکا کے اس وسیع پیمانے پر فوجی تعاون کے ذریعے جنوبی ایشیاء میں اسی انداز کی حاوی فوجی قوت بننے کے لیے کوشاں ہے جس طرح، مشرق وسطی میں اسرائیل ہے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ عن قریب جنوبی ایشیاء میں امریکا اور ہندوستان کے فوجی اتحاد میں اسرائیل بھی شامل ہو جائے۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی موجودہ تحریک کو کچلنے اور دنیا کی توجہ اس کی طرف سے ہٹانے کے لیے ہندوستان نے پاکستان کے خلاف، سوچے سمجھے انداز سے جو جنگجویانہ رویہ اختیار کیا ہے اس کے پیچھے دراصل، امریکا کے ساتھ حالیہ فوجی تعاون کے سمجھوتے ہیں جن کے بل پر نریندر مودی کا سینہ پھول گیا ہے اور وہ طالع آزما ئی پر بضد ہیں۔ کہاں ایک وقت تھا ہندوستان غیر وابستہ تحریک کا علم بردار رہنما تھا اور اب یہی ہندوستان،اپنے ماضی کی ہتھیاکر کے، امریکا کے ساتھ فوجی گٹھ بندھن سے وابستہ ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟