امن کے نوبل انعام کا اصل حقدار

198

سرائیل کے سابق صدر، شمعون پریز کے انتقال پر پوری دنیا میں انہیں امن ساز قرار دے کر ان کی جے جے کار ہو رہی اور ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ واہ واہ کے اس شور و غوغا میں، مشرق وسطیٰ کے امور کے ممتاز ماہر صحافی، رابرٹ فسک نے دنیا کو للکارہ ہے۔ برطانوی روزنامہ انڈیپینڈنٹ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جب دنیا نے یہ سنا کہ شمعون پریز انتقال کر گئے تو دنیا نے، امن ساز کا شور مچایا، لیکن جب میں نے سنا کہ شمون پریز چل بسے تو میرے ذہن میں، خون، آگ اور قتل کے الفاظ گونج اٹھے۔
رابرٹ فسک نے 1996 میں جنوبی لبنان کے گاؤں قانا کے قریب اقوام متحدہ کے کیمپ کی رونگٹے کھڑے کردینے والے سانحے کی یاد دلائی ہے، جس پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے 106فلسطینی پناہ گزیں شہید ہو گئے تھے جن میں آدھے ننھے بچے تھے۔ اس بمباری کا حکم شمعون پریز نے دیا تھا جو وزارت اعظمیٰ کا انتخاب لڑ رہے تھے اور اپنے سینہ پر فوجی جیت کا تمغہ سجانے کے لیے انہوں نے لبنان پر حملے کا حکم دیا تھا۔
رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ پریز کو علم تھا کہ قانا کیمپ میں سیکڑوں فلسطینی پناہ گزیں ہیں اور اقوام متحدہ نے انہیں خبردار بھی کیا تھا، لیکن انہوں نے بعد میں جھوٹ بولا کہ انہیں اس کا علم نہیں تھا اور انہیں اتنی ہلاکتوں پر سخت تعجب ہوا۔ رابرٹ فسک نے لکھا ہے، جب میں کیمپ کے یو این گیٹس پر پہنچا تو وہاں خون ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ میں اس خون کی بو سونگھ سکتا تھا۔ خون سے ہمارے جوتے لت پت ہو گئے اور جوتوں پر خون، گوند کی مانند جم گیا۔ وہاں ٹانگیں اور ہاتھ کٹے پڑے تھے۔ بچوں کی، بے سر، لاشیں پڑی ہوئی تھیں، سر کٹے، بوڑھے لوگوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ایک شخص کی لاش ایک جلتے ہوئے درخت پر دوحصوں میں لٹکی ہوئی تھی، اس کے جسم کا جو حصہ بچا تھا وہ آگ میں جل رہا تھا۔ بیرک کی سیڑھیوں پر ایک بچی، سفید بالوں والے ایک شخص کی لاش کو چمٹائے بلک بلک کر رو رہی تھی، دیوانہ وار دھاڑیں مار رہی تھی اور بار بار چلا رہی تھی ’’میرے ابا، میرے ابا‘‘۔
قانا کی اس ہلاکت و تباہی کا حکم دینے والا یہی شمعون پریز تھا جسے ناروے کی نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بڑے طمطراق سے امن کا انعام دیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہی شمعون پریز تھا جس نے اپنی سفارت کاری سے 1956میں نہر سوئز پر حملہ کے لیے، اسرائیل کے ساتھ فرانس اور برطانیہ کو آمادہ کیا تھا اور ایک تباہ کن جنگ کا خطرہ پیدا کیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ اسے اس کا قطعی علم نہیں تھا کہ یہی شمعون پریز تھاجس کی سربراہی میں سن پچاس اور سن ساٹھ کے عشرے میں اسرائیل نے نہایت خفیہ طور پر جوہری اسلحہ کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اگر اس کا علم نہیں تھا تو کمیٹی کو یقیناًاس کا علم تھا کہ اسرائیل کے وزیر دفاع کی حیثیت سے شمعون پریز نے 1967کے جنگ کے بعد فلسطین کے علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز کیا تھا اور نعرہ لگایا تھا۔ Settlement Everywhere۔ مقصد اس کا پورے ارض فلسطین پر اسرائیل کا تسلط دائمی بنا دیا جائے۔
نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی کی سیاسی مصلحت اسی وقت بے نقاب ہوگئی جب اس نے صدر اوبا ما کو اس وقت امن کو نوبل انعام دیا تھا جب کہ انہیں انتخاب جیتے صرف چند مہینے ہوئے تھے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ایک دمڑی کا کام نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ تمغہ سینے پر سجا کر انہوں نے اپنے دور میں اب تک سات ملکوں پر بمباری کی اور ڈروں حملے کیے جن میں پاکستان۔ افغانستان، عراق، شام، صومالیہ لیبیا، یمن اور شام شامل ہیں۔ ان حملوں میں 4700 افراد ہلاک ہوئے۔
نوبل انعام کی کمیٹی سے گزارش ہے کہ شمعون پریز ایسے جنگی جرائم کے مجرم کو اس نے امن کا انعام عطا کیا ہے تو پھر ہندوستان کے وزیر اعظم نریند ر مودی بھی اس انعام کے مستحق ہیں، وہ بھی خونریزی کے لحاظ سے شمعون پریز کے معیار پر پورے اترتے ہیں، نریندر مودی کے ہاتھ گجرات میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں 2000 مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اور آج کل ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں آزادی کی تحریک کو جس طرح فوج کی طاقت کے بل پر کچل رہے ہیں وہ نازی ہتھکنڈوں سے ملتے جلتے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، ایک سو سے زیادہ کشمیری ہندوستانی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہندوستانی فوج نے نوجوانوں کو چھروں کا نشانہ بنانے کا وتیرہ اختیار کیا ہے اور انہیں دھڑ کے اوپر کے حصوں کو چھروں سے زخمی کرتے ہیں۔ اب تک دس ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں ان میں سے ساڑھے چار ہزار نوجوان ہیں جن میں سے بیش تر آنکھ میں چھرے لگنے سے بینائی کھو چکے ہیں۔ کٹر ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ نریندر مودی آج کل پاکستان کے خلاف جنگ کا صور پھونک رہے ہیں۔ امریکا کی مفاد پرست حمایت کی وجہ سے نریندر مودی کا سینہ پھولا ہوا ہے اور انہوں نے اپنی اقتصادی قوت کے بل پر بنگلا دیش، بھوٹان اور افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ پھر مصلحت کے لحاظ سے بھی امن کے نوبل انعام کے لیے نریندر مودی کا انتخاب بالکل صحیح رہے گا کہ آج کل پوری مغربی دنیا تجارتی مفادات اور اسلحہ کی فروخت کے امکانات کے پیش نظر ہندوستان پر نچھاور ہورہی ہے اور اس کی معیشت کے گن گا رہی ہے۔