ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے افسر، کلبھوشن یادو کو اس سال مارچ کی تین تاریخ کو بلوچستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، ایک اقبالی ویڈیو میں، جو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا تھا، یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو تخریبی کارروائیوں کے لیے مالی امداد دینے اور انہیں منظم کرنے کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطہ میں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا ایک اہم مشن، چین اور پاکستان کی راہ داری کے منصوبہ کو سبوتاژ کرنا تھا۔ کلبھوشن نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ وہ 2013 سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے، حسین مبارک پاٹل کے نام سے، پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے خفیہ آپریشن سر انجام دے رہا تھا۔ گرفتاری کے وقت اس کے قبضہ سے اہم نقشے بھی برآمد ہوئے۔
یہ اہم بات ہے کہ کلبھوشن، را کا ایجنٹ نہیں بلکہ افسر ہے۔ خود اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ 1991سے را کا عہدہ دار تھا اور را کے لیے جاسوسی سے پہلے وہ ہندوستان کی بحریہ کے انجینئرنگ شعبہ میں 1986سے لیفٹیننٹ کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔
آٹھ ماہ ہوگئے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر کلبھوشن کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری کے سنگین الزام کے تحت جو جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے، مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کلبھوشن کو سات پردوں میں چھپا دیا گیا ہے۔ پتا نہیں کیوں ہم کلبھوشن کے نام سے الرجک ہو گئے ہیں، کہ اس کا نام لیتے ہی ہم لرز اُٹھتے ہیں۔
اس موقعے پر جب کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد پر پردہ ڈالنے کے لیے، اڑی میں ہندوستانی فوج کے اڈہ پر حریت پسندوں کے حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر اسے دہشت گرد ملک قرار دینے کی مہم چلا رہا تھا، وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوراں عالمی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ یقیناًانہوں نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھڑکانے اور ان کی مدد کرنے کے سلسلے میں ہندوستان کے اقدامت کا ذکر کیا ہوگا لیکن جنرل اسمبلی سے خطاب میں میاں نواز شریف نے ہندوستان کے ان اقدامات کا نہ کوئی ذکر کیا اور نہ کلبھوشن کے اقبالی بیان کا حوالہ دیا۔ پاکستان کے عوام یقیناًیہ جاننا چاہیں گے کہ اس میں کیا مصلحت تھی۔ بلا شبہ اس کی وضاحت سے پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام یہ بھی جاننے کے حق دار ہیں کہ آخر آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی کلبھوشن کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔ بہت سے پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ اس وقت جب کہ ہندوستان، پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے زبردست مہم چلا رہا ہے، کلبھوشن کے خلاف مقدمہ چلا کر ہندوستان کے اس پروپیگنڈے کی یلغار کا جواب دیا جا سکتا تھا۔ عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کلبھوشن کے خلاف مقدمہ چلانے کی راہ میں کیا دشواریاں ہیں؟ اس سلسلے میں کلبھوشن کے خلاف شہادت اور ثبوت جمع کرنے میں مشکلات کا حیلہ نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ خود اس نے اپنے اقبالی بیان میں سارے ثبوت فراہم کر دیے ہیں۔
پتا نہیں، ہم اپنے خلاف پڑوسی ملک کی جاسوسی کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتے اور مقدمہ چلانے کے بجائے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ پڑوسی ملک میں ہمارا کوئی شہری پکڑا جائے تو اس سے تبادلے کا اہتمام ہو سکے۔
دنیا کے دوسرے ممالک جاسوسی کو کتنا سنگین جرم گردانتے ہیں اور اس کے خلاف کس تیزی سے مقدمہ چلا کر اسے قرار واقعی سزا دیتے ہیں، اس کی مثال، جرمن جاسوس، کارل ہانس لوڈی کی ہے، جسے پہلی عالم گیر جنگ کے دوران، برطانیہ کے بحری اڈوں کی جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لوڈی کو ایڈنبرا کے قریب بحری اڈہ کی جاسوسی کرتے ہوئے اکتوبر 1914 کو گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف اکتوبر کے آخر میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جو تین روز جاری رہا۔ لوڈی نے اعتراف کیا کہ وہ برطانیہ میں جاسوسی کر رہا تھا۔ عدالت نے اسے جنگی مجرم قرار دیا اور 6 نومبر 1914کو ٹاور آف لندن میں اس کی گردن اڑا دی گئی۔
ایک اور مشہور معاملہ، چار نوجوانوں کا ہے جو دوسری عالم گیر جنگ کے دوران 1940میں کینٹ کے ساحل پر پکڑے گئے تھے، ان میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ لیکن اس کے تین ساتھی جو ہالینڈ سے، جاسوسی کے لیے برطانیہ آئے تھے، انہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ وہ جنگ سے جان بچا کر کینیڈا جانا چاہتے تھے لیکن MI5 کے اہل کاروں کو ان کی آکسفرڈ کے لہجے میں انگریزی اور ان کے پاس وافر رقم دیکھ کر شبہ ہوا اور پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے اعتراف کر لیا کہ وہ برطانیہ کے بحری اڈوں کی جاسوسی کے لیے آئے تھے۔ یہ اگر فوجی ہوتے تو انہیں جنگی قیدیوں کی حیثیت سے جنگ کے خاتمہ تک نظر بند کردیا جاتا لیکن یہ چوں کہ شہری جاسوس تھے اس لیے ان پر گرفتار ی کے تین ماہ بعد مقدمہ چلا کر انہیں جاسوسی کا قصور وار قرار دے کر، لندن کے پینٹنویل جیل میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔
ہم نہ جانے گلبھوشن کے خلاف مقدمہ چلانے سے خوف زدہ کیوں ہیں؟
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا