ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک نئی فصیل

96

ہندوستان کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ دسمبر 2018 تک پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی سرحد مکمل طور پرسیل کر دی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان دو ہزار تین سو کلومیٹر لمبی بین الاقوامی سرحد پر آٹھ سے بارہ فٹ اونچی خاردار فصیل کھڑی کی جائے گی۔ کشمیر میں پہلے ہی کنٹرول لائن کی سات سو چالیس کلومیٹر میں سے پانچ سو پچاس کلو میٹر پر ایسی اونچی فصیل تعمیر ہو چکی ہے، جس میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، اور اگر کوئی پرندہ اسے پار کرنا چاہے تو چکاچوند کرنے والی روشنی اور تصاویر کھنچنے والے کیمرے ایسا تعا قب کرتے ہیں کہ یہ اسی میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ کسی انسان کی کیا جرات۔
ربع صدی ہوئی جب مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان 96 میل لمبی دیوار برلن 28سال تک کھڑی رہنے کے بعد مسمار ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ دس برس کے دوران دنیا میں 6ہزار میل لمبی فصیلوں کا ایک ایسا جال پھیلا ہے کہ جس نے دنیا کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں دنیا اس طرح تقسیم نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ان فصیلوں کی وجہ سے تقسیم ہے۔
اب ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ لمبی سرحد پر دنیا کی نئی فصیل تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سن ساٹھ کے عشرے میں، ہندوستان کے ممتاز رہنما جے پرکاش نارائین، ہندوستان کے حکمرانوں پر زور دیتے رہے تھے کہ ہندوستان کے سیاسی، اور اقتصادی مفاد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کی سرحدیں کھلی رہنی چاہییں، ایک دوسرے کے شہریوں کے آنے جانے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے اور تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔ اس تجویز کے پس پشت ان کا بنیادی نظریہ تھا کہ ہندوستان کو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے پیش نظر اپنے پڑوسیوں سے اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات اور کشیدگیاں ختم کر کے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے سیاسی اور تجارتی مفادات کو فروغ ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑے طاقت ور ملک کے چھوٹے پڑوسی، ہمیشہ شکوک و شبہات اور خدشات میں مبتلا رہتے ہیں اور اگر ان سے قربت اور بھائی چارہ کی فضا نہیں بنی تو یہ پڑوسی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
لیکن جے پرکاش نارائین کی نہ تو نہرو نے سنی اور نہ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے۔ اب تو، آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے نظریہ میں پلنے والے ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ سارے کواڑ بھیڑ کر سرحدوں پر بلند فصیلیں تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ حکمران، سرحدیں سیل کر کے، یہ سوچتے ہیں کہ یوں وہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے کے اسے ساری دنیا میں تنہا کر دیں گے۔ انہوں نے، بنگلا دیش، افغانستان اور بھوٹان پر دباو ڈال کر اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کے بائیکاٹ میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اور حال میں امریکا کے ساتھ جو فوجی اتحاد کے جو معاہدے ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ برصغیر میں چودھری کی حیثیت سے اپنی مرضی تھوپ سکتے ہیں اور بڑی آسانی سے پاکستان کو ساری دنیا کی نظروں میں دہشت گرد ملک قرار دے سکتے ہیں۔
بلا شبہ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ وہ کشمیر میں آزادی کی جنگ کو دنیا پر صحیح تناظر میں عیاں نہیں کر سکا، حتیٰ کہ اڑی میں ہندوستانی فوج کے اڈہ پر حریت پسندوں کے حملہ کے سلسلے میں، پاکستان کے شدت پسندوں پر الزام کو جھوٹا ثابت نہ کر سکا۔ پھر اڑی کے حملہ کے بعد ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کے ہنگامے میں کشمیر میں ہندوستان کی دہشت گردی کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔
ہندوستان پاکستان کے ساتھ سرحد پر اس انداز کی فصیل تعمیر کرنا چاہتا ہے جو اسرائیل نے غرب اردن کے محاصرے کے لیے تعمیر کی ہے گو یہ صرف سات سو کلو میٹر لمبی ہے لیکن اس نے فلسطینیوں پر جو قیامت ڈھائی ہے اس کی نظیر عصری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس فصیل کی تعمیر 2002 میں شروع ہوئی تھی جس کا مقصد اسرائیل نے شدت پسندوں کے حملوں کا سدباب بتایا تھا لیکن اس فصیل کے دراصل دو مقاصد ہیں، ایک مقصد تو یہ ہے کہ فصیل فلسطینیوں کی سر زمین پر تعمیر کر کے ان کی زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ جمانا ہے، ان کے زیتون کے پرانے باغات کو تہس نہس کرکے ان کو اقتصادی طور پر تباہ و برباد کرنا ہے اور دوسرا مقصد اس فصیل کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حتمی سرحد بنانا ہے، جب کہ ساری دنیا کہتی ہے کہ امن کی خاطر اسرائیل کو لازمی طور پر 1967کی سرحدوں پر واپس جانا چاہیے۔ اس فصیل کے ذریعے سے اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم کی دس فی صد زمین ہتھیالی ہے۔
ہندوستان، صرف پاکستان کی سرحد ہی پر نہیں وہ اپنے پڑوسی بنگلا دیش کی سرحد پر بھی دو ہزار پانچ سو میل لمبی خاردار باڑھ کی فصیل کھڑی کر رہا ہے۔ ابھی یہ مکمل نہیں ہوئی لیکن یہ کچھ ایسی آڑی ترچھی ہے کہ بہت سے گاؤں، بہت سی برادریاں اور حتیٰ کہ گھر بٹ گئے ہیں۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ یہ باڑھ اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے نصب کی گئی ہے۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ ہر سال بیس لاکھ سے دو کڑوڑ تک بنگلا دیشی غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں لیکن بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ یہ محض غلط بیانی ہے اور اس علاقے کے چودھری کی طرح بنگلا دیش کو دھونس اور دھمکی دینے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کی بارڈر فورس کی فایرنگ سے پچھلے دس برس میں ایک ہزار بنگلا دیشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہی بنگلا دیش آج کل ان تمام حقائق سے آنکھیں موند کر ہندوستان کے قدموں سے لپٹا ہوا ہے۔