حد کردی

180

ظالموں نے حد کردی۔ ایسی ویسی زیادتی۔ ہمارے ممدوح جناب شیخ کے سگار تک ضبط کرلیے۔ جط رک سگار نہ سلگے وہ خود بجھے بجھے رہتے ہیں۔ ان کی گاڑی پکڑ لی تھی جس میں ان کے موبائل فون وغیرہ کے علاوہ سگار بھی تھے۔ سگار کا ایک ڈبہ تو نوادرات میں سے ہے۔ سنا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی ترجمانی پر خوش ہو کر دیا تھا۔ یہ پتا نہیں چلاکہ خالی ڈبہ تھا یا اس میں سگار بھی تھے اور کیا کوئی ایسا آدھا ادھورا سگار بھی تھا جسے کمانڈو کے لب چھونے کا شرف بھی حاصل ہوا ہو۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کی پولیس کو یہ تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ جناب شیخ 7 مرتبہ وفاقی وزیر بن چکے ہیں۔ پہلے وہ چھ مرتبہ بتاتے تھے اب ایک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے جب جیمز بانڈ کی طرح کمیٹی چوک پر دبنگ انٹری دی تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ ایک ٹی وی چینل کی گاڑی پر چڑھ کر سگار بھی پھونک رہے ہیں۔ شاید روپوشی کے دوران میں کسی طرح حاصل کرلیا ہوگا۔ تمباکو نوشی یقیناًصحت اور پیسے دونوں کا زیاں اور ضیاع ہے۔ لیکن ایک اسموکر ہی دوسرے کی تکلیف کو جان سکتا ہے۔ شیخ صاحب کی صحت گزرتے دنوں کے ساتھ بہتر سے بہترین ہوئی جارہی ہے۔
گزشتہ جمعہ کو تو وہ دوڑ بھی لگاتے نظر آئے اور ایسے دوڑے کہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ رانا ثناء اللہ تو ٹاپتے ہی رہ گئے جو کہہ رہے تھے کہ ذرا ٹی وی کی گاڑی سے اترے، اسے دبوچ لیں گے۔ ’’ابے تبے‘ تو ہمارے راہ نماؤں میں عام ہوتا جارہا ہے کہ سیاست میں نئی راہ دکھائی جارہی ہے۔ ان معاملات میں شیخ رشید نے بھی عمران خان کی شاگردی اختیار کررکھی ہے۔ شائستگی سے اپنی بات کرنے والے اب انگلیوں ہی پر گنے جاسکتے ہیں، باقی سب انگلیاں اٹھانے کے ساتھ زبان دانی یا زبان درازی کے مقابلے میں مصروف ہیں۔
شیخ صاحب کی قابل رشک صحت کا راز بھی اسی دن کھلا۔ جب ایک ٹی وی چینل پر دکھایا گیا کہ وہ لال حویلی سے نکلنے سے پہلے خوب ڈٹ کر ناشتہ کررہے تھے۔ ناشتے میں مرغ چھولے، پائے اور یخنی کا خصوصی اہتمام تھا۔ سگریٹ، سگار پینے والوں کو یخنی ضرور پینی چاہیے۔ دوڑ لگانے کے باوجود شیخ صاحب کا دم نہیں پھولا بلکہ یوں لگا جیسے وہ تازہ دم ہوگئے گوکہ وین پر چڑھ کر بیٹھنا اپنے پیٹ کی وجہ سے مشکل ہورہا تھا۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیخ صاحب کو چوہا قرار دیا لیکن جس نے بھی یہ منظر دیکھا وہ اس تشبیہ سے اتفاق نہیں کرے گا۔ شیخ صاحب چوہے کی طرح تو نہیں بھاگ رہے تھے۔ اور پھر یوں ہوا کہ انہیں دیو چنے کی تاک میں لگے ہوئے کہتے سنائی دیے کہ گیا ہے شیخ نکل، اب لکیر پیٹا کر، لکیر تو کیا، سرکار کے خدمت گاروں نے لوگوں ہی کو پیٹ کر رکھ دیا۔ کچھ گرے، بڑے لوگوں کو گھسیٹ کر لے جایا جارہا تھا، اس پر کسی نے اسے تشدد قرار دیا تو ایک لیگی نے کہا کہ اسے تشدد کہنا بالکل غلط ہے، پولیس بڑے پیار سے گھسیٹ رہی تھی۔ خدا کرے ایسا پیار صاحبان اقتدار کو بھی نصیب ہو جائے۔ ہم 12 اکتوبر 1999ء کے واقعات کی طرف نہیں جائیں گے۔
شیخ صاحب کی تھانے اور کھانے سے رغبت مثالی ہے۔ پکڑے جانے اور جیل بھیجنے کے ذکر پر بھی انہوں نے فرمایا کہ جیل میں میرے لیے بریانی پک رہی ہے اور میں نے جدید مواصلاتی نظام حاصل کرلیا ہے جس پر ٹی وی چینلوں سے مسلسل رابطے میں رہوں گا۔ انہوں نے کئی بار انکشاف کیا کہ جیل ان کا سسرال ہے۔ سسرال کا مطلب ہے سسر کی آل لیکن آخری اطلاعات آنے تک موصوف کی شادی نہیں ہوئی تھی پھر کہاں کا سسر اور اس کی آل۔ انہوں نے جیل جانے کے اپنے تجربات پر ایک بار پھر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجی دور حکومت میں بچہ جیل بھی جاچکے ہیں اور اس معاملے میں کوئی سیاستدان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انداز بتارہا ہے کہ وہ اب تک بچہ جیل سے باہر نہیں آئے۔ بی بی بے نظیر نے اپنے دور حکومت میں ان کے پلنگ کے نیچے سے کلاشنکوف برآمد کرلی تھی جس پر انہوں نے 5 سال بہاولپور کی جیل میں کاٹے اور شکوہ کرتے رہے کہ نواز شریف اینڈ کمپنی نے انہیں پوچھا بھی نہیں۔ اور جنہوں نے جیل میں نواز شریف کو پوچھا اور آنسو پونچھے، انہوں نے بڑے درجے حاصل کیے۔ یہ خوبی آصف علی زرداری میں بھی ہے۔ وہ بھی جیل کے ساتھیوں کو نہیں بھولے، مالشیوں تک کے درجات بلند کردیے۔ شیخ صاحب کو کسی اور نے نہ سہی، جنرل پرویز نے خوب نوازا۔ اپنے جھوٹ ان کے منہ سے ادا کروائے گئے۔ اب خود کہتے ہیں کہ والدہ کے انتقال کے بعد جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا ایک جملہ کسی نے ریکارڈ کرلیا ہے کہ عمران خان پاگل ہوگیا ہے۔
عمران خان کے بہت قریبی ساتھی شاہ محمود قریشی گزشتہ جمعہ کے ہنگاموں میں فرمارہے تھے کہ میں تو جمہوری آدمی ہوں، شہر بند کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ یعنی جو یہ کرنے جارہے ہیں وہ غیر جمہوری کام کررہے ہیں۔
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ رشید کو چوہا کہیں یا کنگلا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے، ہیرو بن گئے ہیں۔ چلبل سے دبنگ کہلانے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چھا گئے ہیں۔ مقبولیت میں نواز شریف کے پورے ٹولے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اب 2 نومبر کو کیا ہوگا یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن لمحہ لمحہ پلوں کے نیچے سے بڑی تیزی سے پانی بہہ رہا ہے اور کنارے پر کھڑے لوگ فریاد کررہے ہیں کہ ’’کرے دریا نہ پل مسمار میرے‘‘۔
پل مسمار ہونے لگے ہیں۔ ابھی تو پرویز رشید کا مضبوط ستون مسمار ہوا ہے۔ شیخ رشید ہی نے ایک ہفتہ پہلے پیش گوئی کی تھی کہ ان کے ہم نام پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ لیکن اس باڑے میں اور بھی کئی بکرے باری کے منتظر ہیں۔ وزیر اطلاعات کے اہم افسر راؤ تحسین کہتے ہیں کہ مجھ پر ہاتھ ڈالا تو سلطانی گواہ بن کر سب کے نام بتادوں گا۔ شاید اسی لیے انہیں باہر بھجوادیا گیا ہے۔ یوں تو وزیر دفاع خواجہ آصف بھی باہر چلے گئے ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ باہر رہیں گے یا اندر۔ عمران خان بنی گالہ میں اپنے کارکنوں کو روٹیاں سینکنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔