امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ گڈانی میں بحری جہاز کا حادثہ بہت بڑاانسانی المیہ ہے مگر بد قسمتی سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ریسکیوکے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جاں بحق ہونے والوں کی درست تعداد ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے ۔150افراد ابھی تک لاپتہ ہیں ۔سانحہ گڈانی کی تحقیقات کرائی جائے ،جاں بحق اور زخمی ہو نے والوں کو معاوضہ دیا جائے ۔زخمیوں کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے اور ریسکیو آپریشن کو تیز کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گڈانی کے دورے اور متاثرہ جہاز کے جائزے کے بعد وہاں موجود مزدوروں اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔حافظ نعیم الرحمن کو وہاں پر موجود مزدوروں اور قرب و جوار میں رہنے والے فراد نے واقع کی تفصیلات ریسکیو میں درپیش مشکلات اور حکومت کی عدم دلچسپی کے بارے میں بتا یا ۔اس مو قع پر جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری عبد الوہاب ،الخدمت کراچی سیکریٹری انجینئر سلیم اظہر ،امیر ضلع غربی عبد الرزاق خان اور دیگر بھی موجودتھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں ہو نے والے سانحے کے بعد بلوچستان حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیئے تھا ۔لیکن اس انسانی المیہ کو نظر انداز کیا گیا ۔کراچی اور سندھ سے بھی مدد لینی چاہیئے تھی ۔انہو ں نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ متاثرہ جہاز میں ریسکیو کا کام جس طرح ہو نا چاہیئے تھا وہ ابھی تک نہیں ہو اہے ۔جہاز میں 200افراد کام کر رہے تھے ۔تاحال کچھ نہیں پتا چل سکا کہ اتنی شدید آگ کیسے لگی ۔وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری دورہ تو کر کے چلے گئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی سر گرمی نظر نہیں آرہی ۔وزیر اعلیٰ کو یہاں ایمرجنسی نافذ کر نی چاہیئے تھی ۔وزیر اعظم نواز شریف کو خود یہاں کا دورہ کر نا چاہیئے تھا لیکن وہ اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس علاقے میں تین چار مرتبہ بڑے حادثات ہو چکے ہیں۔شپ بریکنگ کے اس کام میں یہاں پر ملک کے مختلف حصوں سے مزدور آکر کام کرتے ہیں لیکن اس علاقے میں کوئی ڈسپنسری اور فوی طبی امداد کا انتظام موجود نہیں ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم مودی کا بیان اور عزائم واضح ہیں ۔اس واقع میں دہشت گردی کا عنصر بھی ہو سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی گرفتار ہی نہیں ہو اتو تحقیقات کیا کی جائے گی۔؟