شناختی کارڈ یا شناختی جنگ زرنگار

132

گزشتہ دنوں شناختی کارڈ بنانے کے سلسلے میں 5 نمبر کے شناختی کارڈ کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صبح 6 بجے جب گھر سے نکلے تو سوچا یہ تھا کہ شاید پہلے پہل ٹوکن مل جائے گا تو کچھ آسانی ہوگی لیکن وہاں جا کر دیکھا تو لمبی قطار میں کئی خواتین کھڑی ہیں کچھ وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھی ہیں جمعہ کا دن تھا تو چند مرد جو اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ آئے ہوں گے وہ موجود تھے۔ خواتین کی اتنی لمبی لائن دیکھ کر یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہورہا تھا کہ آخر یہ خواتین کس وقت سے اس لائن میں لگی ہوئی ہیں۔ کچھ خواتین صبح 3 یا 4 بجے کی آئی ہوئی تھیں۔ سب سے آگے کھڑی خاتون دفتر کا دروازہ کھلنے کا انتظار کررہی تھی تاکہ وہ پہلے نمبر کا ٹوکن حاصل کرسکیں ان سے آنے کا وقت پوچھا تو کہنے لگیں کہ وہ رات پونے بارہ بجے سے آئی ہوئی ہوں یعنی وہ اور ان جیسی کئی خواتین نے رات کھلے آسمان تلے سڑک پر گزاری۔ کچھ لوگ اپنے ساتھ پانی، چادر اور کھانے پینے کی اشیاء بھی لائی تھیں یعنی انہیں معلوم تھا کہ آج کا دن یہیں گزارنا ہے۔ یقیناًوہ خواتین بھی کسی کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں تھیں جو گھر کی چار دیواری میں باپردہ رہتی ہوں گی اور مزید حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک خاتون کہہ رہی تھی کہ آج صرف 70 لوگوں کو ہی ٹوکن مل سکے گا باقی یا تو واپس جائیں گی یا پھر شاید انہیں بھی مل جائے۔ جب گنتی کرنے کی کوشش کی تو ہم 100 خواتین کی لسٹ میں بھی نہیں تھے۔ گھر لوٹ آنے میں عافیت سمجھی۔
ٹوکن ملنے کے بعد کا عمل کتنی سست روی سے ہوتا ہے اس کا علم تو ان تمام افراد کو ضرور ہوگا جو ایمانداری سے رشوت دیے بغیر لائن میں کھڑے رہتے ہیں کہ اندر جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان کی باری آتی ہے اور نہ لائن آگے بڑھتی ہے۔ کیوں کہ کچھ وی آئی پی لوگوں نے پہلے سے ٹوکن کی بکنگ کرائی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مرحلے سے گزرنے کے بعد میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بنا کر لوگوں کو یہ کہہ کر واپس کیا جاتا ہے کہ بل نہیں لائے۔ میٹرک کی سند نہیں ہے، سند ہے تو مارک شیٹ کہاں ہے، ماں باپ نہیں تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ کہاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اتنی پریشانی، اتنی خواری، کتنا مشکل ہے اپنی شناخت کرانا وہ بھی اپنے وطن میں۔ ایسا لگتا ہے کہ شناختی جنگ چل رہی ہو۔ ہر علاقے میں چند روزہ کیمپ لگا کر شناختی کارڈ بنوائے جائیں تو وہ لوگ جو دفتر میں جا کر اتنا وقت نہیں دے سکتے تو کم از کم قریبی علاقوں میں شاید آجائیں۔ خدارا اس ملک کے لوگوں پر رحم کیا جائے اور اپنی شناخت کے عمل کو آسان بنایا جائے۔