فکر اقبال اور موجودہ صورت حال

261

علامہ اقبال کے اِفکار و خیالات کی روشنی میں پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بن کر عالم اسلام کا دفاع کرنا چاہیے تھا، لیکن پاکستانی قوم کی بد نصیبی تو اُسی دن شروع ہوگئی تھی جب قیام پاکستان کے بعد مخلص رہنما یکے بعد دیگرے دُنیا سے رخصت ہوتے گئے۔ ایسے لوگ ایوان اقتدار میں آن بیٹھے جنہوں نے قومی خودداری کو پس پشت ڈال کر غیروں کے آگے کشکول اُٹھا کر بھیک مانگنا شروع کردی اور پاکستانیوں کو ساری صورت حال سے بے خبر رکھا گیا۔
یہود و نصاریٰ نے پاکستانی حکمرانوں کی ہوسِ زر کو بھانپتے ہوئے اِن کے اردگرد مضبوط سنہری جال بننا شروع کردیا جن میں وہ روز بروز پھنستے چلے گئے اور آخر کار آج ہر پاکستانی اِن کو ایوانوں میں لانے کی سزا بھگت رہا ہے۔
علامہ اقبال نے جس ملک کا خواب دیکھا تھا وہاں کے لوگ بہادر اور خود دار قوم بن کر اُمتِ مسلمہ کے لیے طاغوتی قوتوں کے خلاف ایک ڈھال کا کام کرتے، اسی لیے علامہ نے اپنی شاعری میں خودی پر بہت زور دیا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
موجودہ صورت حال پر نظر کریں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم خودی کو تو کیا بلند کرتے اُونچی اُونچی عمارتیں اور پلازے کھڑے کرلیے اور ہمارے نام نہاد رہنما مخلصی کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔ ہم برسوں سے ایک ہی غلطی بار بار دُہرا رہے ہیں، یہی چیز ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے، ہمیں قول و فعل کے تضاد سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہر سطح پر اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے دینِ اسلام کا سیدھا اور شفاف راستہ اپنا کر دُنیا و آخرت کی کامیابی کو مقصدِ زندگی بنا لیں تو دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
ہمارے غیر سنجیدہ رہنماؤں نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو علامہ کے افکار و نظریات سے دور رکھا کیوں کہ اگر یہ قوم آپ کی شاعری کو مشعل راہ بناتی تو ایک با ضمیر اور خود دار قوم بن کر اُبھرتی جو ایسے بے ضمیر حکمرانوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی۔
علامہ محمد اقبال کی یہ دِلی خواہش تھی کہ مسلمان شاہین کی طرح اُونچی اُڑان اُڑیں۔ مسلمانوں کا مقام پستیاں نہیں بلندیاں ہیں۔ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جاگنا ہوگا اور نئی نسل کے ذہنوں کی آبیاری علامہ کے بلند نظریات و خیالات سے کرنی ہوگی۔ پھر دیکھیں کہ اِس قوم کے شاہین کس طرح آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتے ہیں اور پاکستان کو عالم اسلام کا نمائندہ ملک بناتے ہیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
فوزیہ تنویر- ملیر کینٹ فیز I