مراد علی شاہ بے مراد ہی رہیں گے

104

254’رقص و موسیقی لبرل معاشرے کا جزو ہے پابندی لگانے والے کے خلاف کارروائی ہوگی‘‘۔ ایسا کہنا ہے ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا۔ شاید مراد علی شاہ نے نہ تو دین کا مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم ہے کہ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ہمارا مذہب رقص و موسیقی کی اجازت نہیں دیتا یہ حرام ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پر ایسے حکمراں مسلط ہوگئے ہیں جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں اور وہ تمام کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جن سے یہود و نصاریٰ خوش ہوں۔
مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ میں نہیں میرا کام بولے گا۔ لیکن کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کراچی میں کون سا کام ہوا۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اسی طرح موجود ہیں۔ سیوریج کی لائنیں اور پانی کی پائپ لائنیں آئے دن پھٹ کر سڑکوں کو اسی طرح غلیظ کررہی ہیں۔
بجلی اور پانی کا مسئلہ اسی طرح لوگوں کو پریشان کررہا ہے، آئے دن لوگ اسی طرح لُٹ رہے ہیں، کرپشن ہر جگہ اسی طرح ہورہی ہے، کون سا کام ہے جو انہوں نے ٹھیک کیا ہو؟ اب کچھ اور نہیں تو ایک حرام کام کو حلال اور اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
ہندو کمیونٹی نے کچھ دن پہلے شراب پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعلیٰ نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔ رقص و موسیقی پر پابندی لگانے والے کے خلاف تو کارروائی ہوگی لیکن شراب بیچنے والے، پینے والے اور بنانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
سارے غلط اور شیطانی کام اس ملک میں اسی لیے دھڑلے سے ہورہے ہیں کیوں کہ حکمراں اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرتے ہیں اور شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہیں، کسی غلط کام پر کوئی سزا نہیں ہے۔
پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے یہاں پر لبرل ازم نہیں چلے گا۔ لیکن حکمراں برابر اِس کوشش میں ہیں کہ اپنے ساتھ ملک کے تمام لوگوں کو بھی لبرل بنادیا جائے تا کہ وہ قوتیں جو ان جیسے لوگوں کو اقتدار میں لا کر بیٹھا دیتی ہیں وہ خوش ہو جائیں اور اُن کا جو ایجنڈا ہے وہ پورا ہوجائے۔
کاش مراد علی شاہ اس وقت کا تصور کریں جب یہ اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو وہاں پر لبرل ازم کا کیا جواز پیش کریں گے۔
سیما رزقی- نارتھ ناظم آباد بلاکF