امریکی انتخابات اور ٹرمپ کی کامیابی

180

امریکا کے نئے صدر پر گفتگو سے قبل ایک چھوٹی سی وضاحت۔ گو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ابھی باقاعدہ طور پر امریکا کا صدر منتخب نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم توقع ہے کہ 17 دسمبر کو جب صدارتی امیدوار کے لیے پولنگ ہوگی تو ٹرمپ باآسانی امریکا کے 45 ویں صدر منتخب کرلیے جائیں گے اور جنوری میں اپنا عہدہ سنبھال لیں گے۔ 8 نومبر کو امریکا میں ہونے والے انتخابات میں امریکی صدر کا انتخاب عمل میں نہیں لایا گیا بلکہ اس میں کانگریس کے 438 اراکین کو منتخب کیا گیا ہے۔ کانگریس اور سینیٹ میں موجود ارکان پارلیمنٹ ہی امریکی صدر کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ان دونوں ایوانوں میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ارکان کی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے امیدوار انتخابی ریس میں کتنے ووٹ حاصل کرپائیں گے۔ 8 نومبر کو ہونے والی پولنگ کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں کے سینیٹ اور کانگریس میں اراکین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے اراکین کی تعداد 290 ہے اس لیے وہ باآسانی امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوجائیں گے۔ ان کی حریف ہیلری کلنٹن کی پارٹی ڈیموکریٹ کے ان دونوں ایوانوں میں مجموعی تعداد 218 ہے۔ سینیٹ کے اراکین کی تعداد 100ہے جب کہ کانگریس کے اراکین کی تعداد 438 ہے۔ ان دونوں ایوانوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 538 بنتی ہے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کے نمائندوں کی تعداد کو جمع کریں تو 508 بنتی ہے جو دونوں ایوانوں کے اراکین کی مجموعی تعداد سے 30 کم ہے۔ یہ 30 ارکان پارلیمنٹ وہ ہیں جو یا تو آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے ہیں یا کسی تیسری پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام طور سے سمجھا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ ابھی انتخاب کی رسمی کارروائی باقی ہے جو 17 دسمبر کو ہوگی۔ چوں کہ ٹرمپ کوکامیابی کے لیے 270 ووٹوں کی ضرورت ہے اور اس کی پارٹی ریپبلکن کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 290 ہے۔ اگر صدارتی انتخاب میں چند ووٹ پراسرار طور پر مسترد بھی ہوگئے اور سارے کے سارے آزاد امیدوار ہیلری کے حق میں بھی ووٹ ڈال دیں تب بھی ٹرمپ کی کامیابی یقینی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آزاد امیدوار ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالیں اور وہ صدارتی انتخاب میں تین سو سے بھی زائد ووٹ حاصل کرلیں۔ اندازہ ہے کہ ٹرمپ 306 ووٹ تک حاصل کرلیں گے جب کہ ہیلری کے ووٹ 232 تک رہیں گے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوچکے ہیں۔
یہ تو تھی ایک وضاحت۔ تمام تر سروے رپورٹوں، تجزیوں اور پیش گوئیوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ریپبلکن پارٹی کے امیدوار نہ صرف جیت گئے بلکہ انہوں نے کانگریس میں قطعی اکثریت بھی حاصل کرلی۔ تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کو تو چھوڑیں، خود ٹرمپ کو 8 نومبر کو ہونے والی پولنگ کے دوران تک اس امر کا قطعی یقین تھا کہ وہ ہار رہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے پیش بندی کے طور پر دھاندلی کا نہ صرف نعرہ بلند کیا بلکہ کورٹ میں فوری سماعت کی درخواست بھی ڈال دی جو جج نے مسترد کردی۔ اسی طرح ہیلری کا رویہ پولنگ والے دن فاتحانہ تھا۔ مگر جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو معاملات اس کے بالکل برعکس تھے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے اعلان کے ساتھ ہی امریکی ریاستوں میں خونیں فسادات پھوٹ پڑے جو ابھی تک جاری ہیں۔ گو کہ امریکی تاریخ میں انتخابات کے دوران اور بعد میں خونیں فسادات کوئی نئی بات نہیں ہیں اور امریکا کی قدیم تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے مگر امریکی انتخاب کی جدید تاریخ میں ایسے فسادات پوری دنیا کے لیے اچنبھا ہیں۔ جب کہ خوف زدہ مسلمانوں اور ایشیائی و میکسیکن تارکین وطن نے کینیڈا کا رخ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے روز ہی معلومات حاصل کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد نے کینیڈا کی امیگریشن کی ویب سائیٹ کو ہٹ کیا کہ اس کا سرور اتنا بوجھ برداشت نہیں کرسکا اور سروس تعطل کا شکار رہی۔
ٹرمپ کی اپنی تقاریر اتنی تند و تیز تھیں کہ پوری دنیا نے ٹرمپ کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔ ٹرمپ کی کامیابی کے اعلان کے فوری بعد دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں اور خام تیل کی قیمتیں گر گئیں۔ ابھی تک دنیا میں ایک بے یقینی کی کیفیت ہے۔ ٹرمپ کے انتخاب کے فوری بعد اخبارات کا ردعمل کچھ اس طرح کا تھا کہ جیسے امریکی عوام ایک گرداب میں پھنس گئے ہیں۔ گارجین کے اداریے میں اسے امریکی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا گیا تھا۔ سی این این نے ہیڈ لائن میں لکھا کہ ٹرمپ اور دل شکنی۔ اس کے ساتھ ہی اسے ششدر کرنے والی کامیابی قرار دیا۔ نیویارک ٹائمز نے اسے ایک ایسا انقلاب قرار دیا جس میں امریکی قوم کی گاڑی ڈھلان کی طرف چل پڑی ہے۔ ہفنگٹن پوسٹ، سلیٹ اور بزفیڈ جیسی ویب سائٹیں ٹرمپ کی کامیابی کو پریس کو پا بہ زنجیر کرنے کے انداز میں دیکھ رہی تھیں۔ کچھ ایسا ہی ردعمل پوری دنیا کے اخبارات اور عوام کا تھا۔ دنیا بھر کے سیاست دانوں کا بھی ردعمل کچھ ایسا ہی تھا۔ ڈیوڈ کیمرون کے مشیر اسٹیو ہلٹن جو ٹرمپ کے پرزور حامی ہیں نے فاکس نیوز پر اپنے تاثرات میں ٹرمپ کی کامیابی کو حقیقی انقلاب قرار دیتے ہوئے اسے دوسرا بریگزٹ قرار دیا۔
انتخابی دنگل کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ رنگ دار تارکین وطن ٹرمپ کے مخالف تھے۔ میکسیکو سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ٹرمپ کے خلاف تھے۔ مسلمان ٹرمپ کی تقریروں سے خوف زدہ تھے۔ عورتیں ہیلری کو امریکا کی پہلی خاتون صدر دیکھنا چاہتی تھیں۔ ٹرمپ علی الاعلان اسرائیل کی مزید امداد کا اعلان کررہے تھے۔ امریکا میں سفید فام یا ہسپانوی نژاد اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں کہ ان کے سارے ووٹ بھی ریپبلکن کو پڑ جائیں تو وہ جیت جائیں۔ امریکا میں یہودی بھی اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں کہ وہ اپنے ووٹوں سے ٹرمپ کو منتخب کرواسکیں۔ امریکی انتخابی تاریخ کے برعکس کوئی اکتوبر سرپرائز بھی نہیں آیا تھا۔ جولیان اسانج آخری وقت میں ہیلری کی ای میل کے حوالے سے انکشاف کرنے کے اعلان سے پھر گئے تھے جو اکتوبر سرپرائز ثابت ہوسکتا تھا تو پھر آخر ٹرمپ یا اس کے سرپرستوں نے ایسا کیا چمتکار کیا کہ ٹرمپ کو الیکٹرول کالج سے تین سو سے زائد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو پوری دنیا جاننا چاہتی ہے۔ کیا واقعی امریکی انتخابات میں دھاندلی ہوئی؟ اور اگر دھاندلی ہوئی تو کس طرح ہوئی۔
اس اہم سوال پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔