ڈونلڈ ٹرمپ کی حیرت انگیز فتح کے اسباب اور مضمرات کے بارے میں بلاشبہ تجزیوں کا سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہے گا، لیکن فی الفور جو تجزیے سامنے آئے ہیں، ان میں جریدہ ’’نیویارکر‘‘ کے مدیر ڈیوڈ ریمنک کا تجزیہ نمایاں ہے، جس میں انہوں نے ٹرمپ کا انتخاب، امریکی عوام کے لیے، امریکا کے آئین کے لیے المیہ قرار دیا ہے اور ان قوتوں کی فتح سے تعبیر کیا ہے جو امریکا میں اور امریکا سے باہر مقامیت، مطلق العنانی، عورت کی بے حرمتی اور نسل پرستی کی عَلم بردار ہیں۔ ڈیوڈ ریمنک نے البتہ ٹرمپ کی جیت کے اسباب پر گہری نظر نہیں ڈالی، محض انہوں نے اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے دسیوں لاکھ ووٹروں، خاص طور پر سفید فام ووٹروں میں احساسِ محرومی اور مستقبل کے بارے میں تفکرات کو محسوس کراتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اور دیہی علاقوں میں ہیلری کلنٹن کی ناکامی کی بدولت ٹرمپ کو جیت حاصل ہوئی۔
اِدھر پاکستان میں بعض تجزیہ کاروں نے جنہیں ہمیشہ اپنے ہاں جمہوریت کو خطرہ لاحق رہتا ہے، امریکا میں ٹرمپ کی فتح کی سیدھی سادی وجہ یہ بتائی ہے کہ جمہوریت ماں نے اپنے بچوں کے ساتھ بیگانگی اختیار کی تھی، نتیجہ یہ کہ ایک آؤٹ سائیڈر آیا اور اس ماں کو ورغلا کر لے گیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عام طور پر انتخابی مہم کی گہماگہمی میں لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کر گئے کہ 2008ء کے سنگین مالی بحران کے بعد جس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، امریکا میں بڑی تیزی سے ان انتہاپسند قوتوں نے سر اُٹھایا ہے جن کو ’’ریڈیکل رائٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی انتہا پسند قوت ری پبلکن صدر آئزن ہاور کے دور میں اُبھری اور ریگن کے زمانے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران امریکا میں یہی نقشہ نظر آتا ہے کہ شدید مالی بحران کے بعد دس سال تک ’’ریڈیکل رائٹ‘‘ ملک پر چھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ سال کے دوران امریکا میں انتہا پسندی کی لہر اُٹھی ہے۔ ریگن کے دور میں کرسچین کروسیڈا (عیسائی صلیبی جنگجو) کے بعد سوشلزم کے خلاف جان برچ سوسائٹی اور 9/11 کے بعد جہاد کے خلاف تحریک قائم ہوئی تھی۔ بلاشبہ ان انتہا پسند تنظیموں نے امریکی ووٹروں خاص طور پر سفید فام ووٹروں کو متاثر کیا ہے، جنہوں نے ٹرمپ کے حق میں پانسہ پلٹا ہے۔
ایک اہم پہلو اس سلسلے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ تیس برس کے دوران میں امریکا میں نام نہاد اشرافیہ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور امراء اور غریبوں میں فرق کئی گنا بڑھا ہے۔ 1986ء سے اب تک امریکا میں ارب پتیوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1986ء میں 41 ارب پتی تھے، جن کی تعداد اب500 تک پہنچ گئی ہے۔ دولت کی بناء پر ان ارب پتیوں کا مالی اور سیاسی اثر بڑھا ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں 46 ملین امریکی غربت کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان ہی محروم عوام پر ٹرمپ کے وعدوں کا اثر ہوا ہے اور ان ہی کی زندگی میں تبدیلی کی توقعات نے ٹرمپ کو جتایا ہے۔
اس وقت امریکا ہی کیا پوری دُنیا انتہا پسندی میں جکڑی ہوئی ہے۔ انڈونیشیا میں حزب التحریر سے لے کر جاپان میں ’’یاکو زا‘‘ اور’’زیتو کوکائی‘‘ سے منسلک آٹھ سو تنظیمیں اور ان کے ایک لاکھ بیس ہزار کارکن انتہا پسندی کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ فلپائن میں کمیونسٹ پیپلزپارٹی اور مورو لبریشن فرنٹ سرگرم ہیں۔ ہندوستان میں شیوسینا، وشو ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی سرپرستی اور آشیرباد حاصل ہے۔ پاکستان میں انتہاپسند سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے ساتھ دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ہے اور ابھی سیاسی جماعتوں کا نظام صحیح طور پر قائم نہیں ہوسکا ہے۔
ادھر یورپ میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے انتہا پسندی کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے اور انتہا پسند جماعتیں، یورپ میں جمہوریت کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ فرانس میں نسل پرست جماعت نیشنل فرنٹ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اگلے صدارتی انتخاب میں اس جماعت کی سربراہ میری لے پین، ٹرمپ کی طرح فتح مند ہوسکتی ہیں۔ خود انہوں نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ صدارتی انتخاب میں ان کی جیت برطانیہ کے یورپ سے علیحدگی کے فیصلے اور امریکا میں ٹرمپ کی فتح کے بعد عالمی انقلاب کی تیسری کڑی ہوگی۔
فرانس کے بعد سویڈن میں انتہا پسند اور نسل پرست جماعت فریڈم پارٹی تیزی سے اُبھری ہے۔ یہ پارلیمنٹ کی245 نشستوں میں سے 34 نشستوں پر قابض ہے اور حکومت میں شامل ہے۔ ڈنمارک میں انتہا پسند پیپلز پارٹی تیسری بڑی جماعت ہے اور اسے پارلیمنٹ کی 179نشستوں میں سے 25 نشستیں حاصل ہیں۔ اٹلی میں انتہاپسند جماعت لیگا نورڈ (شمالی لیگ) کو پارلیمنٹ میں 85 نشستیں حاصل ہیں اور وہ حکومت میں شامل ہے۔ ہالینڈ میں اسلام دشمن جماعت فریڈم پارٹی جو 2005ء میں قائم ہوئی تھی، بڑی تیزی سے سیاست پر چھا گئی ہے اور اسے پارلیمنٹ میں 150نشستوں میں سے 24 نشستیں حاصل ہیں۔ جرمنی میں انتہا پسند جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اب AFD نسل پرست اور اسلام دشمن پارٹی، پناہ گزینوں کے مسئلے کی بنیاد پر بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ برطانیہ میں نسل پرست جماعت برٹش نیشنل پارٹی اور انگلش ڈیفنس لیگ کو UKIP نے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔1991ء میں UKIPقائم ہوئی تھی، شروع میں اس پارٹی کا کسی نے خاص نوٹس نہیں لیا تھا لیکن جب سے نائجل فراج نے اس کی قیادت سنبھالی ہے، یورپی یونین میں برطانیہ کی شرکت کی مخالفت کی مہم کی وجہ سے یہ جماعت حکمران ٹوری پارٹی کے لیے خطرہ بن گئی اور اس پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے گھبرا کر ڈیوڈ کیمرون نے یورپ کی رکنیت کے بارے میں ریفرنڈم کے انعقاد کا تباہ کن اعلان کیا تھا جس نے پوری سیاست کو پلٹ کر رکھ دیا۔ گو پارلیمنٹ میں اس نوزائیدہ پارٹی کا صرف ایک رکن ہے، دارالامرا میں تین رکن اور یورپی پارلیمنٹ میں 22 اراکین ہیں لیکن اس وقت یہ جماعت سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ نائجل فراج، ٹرمپ کے گہرے دوست ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں حصہ لے چکے ہیں اور انتخاب کے فوراً بعد وہ ٹرمپ سے ملنے نیویارک گئے تھے۔
یورپ میں جس تیزی سے دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں مقبول ہورہی ہیں، اس کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کو چیلنج کا سامنا ہے بلکہ یورپ کے اتحاد کو بھی شدید خطرہ ہے، کیوں کہ بیشتر انتہاپسند جماعتیں، یورپی یونین کے سخت خلاف ہیں۔ یہ جماعتیں چوں کہ تارکین وطن کے خلاف ہیں اور شام اور شمالی افریقا کے پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی کی حامی ہیں، اس لیے یہ مقامی آبادی میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہی ہیں جس کے نتیجے میں قومی دھارے کی جماعتیں پسپائی اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ بڑی تیزی سے امیروں اور غریبوں میں فرق بڑھ رہا ہے، معیارِ زندگی گررہا ہے اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے، لہٰذا عوام کی ایک بڑی اکثریت کا موجودہ جمہوری نظام اور سیاست پر سے اعتماد اُٹھتا جارہا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کا یہ رجحان کہیں بڑے پیمانے پر سیاسی افراتفری اور خلفشار کی جانب نہ لے جائے، کیوں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو یورپ کی انتہا پسند جماعتیں ایک انقلاب سے تعبیر کرتی ہیں اور اسی نوعیت کا انقلاب یورپ میں بھی دیکھنے کی خواہاں ہیں۔