امریکا میں رنگ دار انقلاب

167

امریکا میں بعد از انتخاب مظاہرے تھمنے کے بجائے تیزہوتے جارہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مظاہرے پرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔عام تاثر یہ ہے کہ ٹرمپ کے خلاف امریکی عوام ازخود نکل آئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کا کوئی بھی گوشہ ہو ، مظاہرین کبھی ازخود جمع نہیں ہوتے۔ انہیں منظم کرنے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی مثال ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ مشرف اور زرداری کے دور حکومت میں ن لیگ نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پورے پنجاب کو مظاہروں کے ذریعے مفلوج کرکے رکھ دیا۔ حالات اب بھی وہی ہیں مگر متاثرین کو منظم کرنے والا کوئی نہیں ہے تو کہیں پر بھی کوئی مظاہرہ نہیں ہورہا۔ اسی طرح امریکا میں بھی یہ مظاہرے غیر منظم نہیں ہیں اور اب تو انہیں باقاعدہ Purple Movement کا نام دے دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں رنگین انقلابات کی ایک تاریخ ہے۔ رنگین انقلابات اصل میں نام کا انقلاب ہوتا ہے اور اس کا حقیقی انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انقلاب کا مطلب ہوتا ہے ایک نظام کو یکسر ختم کرکے دوسرا نظام نافذ کردیا جائے جبکہ رنگین انقلاب کا مطلب ایک ایسا پروجیکٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے ناپسندیدہ حکومت کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ بہار عرب کے تحت جتنے بھی انقلاب آئے وہ سب رنگین انقلاب کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔ میں نے رنگین انقلابات پر کئی اقساط پر مبنی آرٹیکل لکھے تھے جو میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ Purple Movementکوئی نیا نام نہیں ہے۔ عراق میں صدر صدام حسین کے خلاف جو تحریک منظم کی گئی تھی اسے Revolution Purple کا ہی نام دیا گیا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ امریکا میں ان مظاہروں کو کون منظم کررہا ہے۔ امریکا میں جو تنظیم ان مظاہروں کو منظم کررہی ہے اس کا نام ہے MoveOn۔
MoveOn نامی تنظیم 1998 میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب بل کلنٹن کے خلاف مونیکا لیونسکی اسکینڈل کے بعد پارلیمنٹ میں مواخذہ کی تحریک لائی جارہی تھی۔ اسے ای میل گروپ کا نام دیا گیا تھا اور اس تنظیم نے بل کلنٹن کو مواخذہ کے نتیجے میں سزا دینے کے بجائے معاف کرنے کی تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں آن لائن پٹیشن پر پچاس لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کیے تھے تاہم یہ تحریک بل کلنٹن کو مواخذہ کی تحریک سے نہیں بچاسکی تھی۔ امریکا ہو یا پاکستان ، ایک بات سمجھ لینے کی ہے کہ فنڈ کے بغیر نہ کوئی جلسہ ہوسکتا ہے اور نہ کوئی مظاہرہ۔ چلیں ایک منٹ کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ جلسے کے شرکاء رضاکارانہ طور پر آئے مگر صرف شرکاء کے آنے سے تو جلسہ نہیں ہوجاتا۔ اس کے لیے کئی ہفتے پہلے سے تشہیری مہم شروع کی جاتی ہے۔ اس تشہیری مہم میں بینرز بھی شامل ہوتے ہیں ، ٹرک پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مہم بھی شامل ہوتی ہے ، جگہ جگہ کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں اور اخبارات و ٹی وی پر بھاری بھرکم فنڈز کے ذریعے اشتہار بھی دیے جاتے ہیں۔ پھر اس کے علاوہ جلسہ گاہ میں کرسیاں، اسٹیج، لاؤڈ اسپیکر ، پانی کا انتظام وغیرہ وغیرہ۔ اس سب کا بجٹ ہی کروڑوں روپے میں پہنچ جاتا ہے۔ جب کوئی سیاسی یا مذہبی پارٹی یہ جلسہ کررہی ہو تو پتہ چل جاتا ہے کہ سامنے کون خرچ کررہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پس پردہ یہ فنڈ مہیا کرنے والے پراسرار لوگ ہوتے ہیں جن کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ مگر جب کوئی این جی او اس قسم کا پروگرام کررہی ہو تو پھر معاملہ زیادہ حساس ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگر فنڈ مہیا کرنے والی پس پردہ شخصیت کا پتہ چلا لیا جائے تو بہت ساری باتوں کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ امریکا میں انتخابات کے فوری بعد جیتنے والے امیدوار ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ یہ مظاہرے فوری طور پر پرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہوگئے اور نجی املاک پر حملے شروع کردیے گئے۔ یہ مظاہرے MoveOn نامی تنظیم نے منظم کیے ۔ یہ تنظیم پہلے بھی کلنٹن خاندان کے لیے خدمات سرانجام دے چکی ہے۔ اس تنظیم کو فنڈ فراہم کرنے والی شخصیت ہے جارج سوروس۔ جارج سوروس کا نام سامنے سے بات سمجھنا آسان ہوجاتی ہے۔ دنیا میں رنگین انقلابات کے حوالے سے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں ان سب کو فنڈ فراہم کرنے والی ایک ہی شخصیت تھی اور اس کا نام تھا جارج سوروس۔
جارج سوروس پر گفتگو سے قبل ایک اور چھوٹی سی وضاحت۔ اس دنیا پر ایک شیطانی عالمگیر حکومت کے قیام کے سازش کار اپنے پروجیکٹ کے ہر ہر پروگرام کے لیے کسی ایک شخصیت یا اس کی کارپوریشن کو ذمہ داری دیتے ہیں اور وہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پولیو کی ویکسین پوری دنیا کو زبردستی پلانے کی ذمہ داری بل گیٹس کو دی گئی ہے۔ لہٰذا اب ملنڈا اور بل گیٹس فاوندیشن ہی یہ کام کرتی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں رنگین انقلابات کے ذریعے بدامنی پھیلانے کی ذمہ داری جارج سوروس کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ اب چاہے یہ رنگین انقلاب یو ایس ایڈ کے ذریعے منظم کیا جائے یا پھر کسی اور تنظیم کے ذریعے، فنڈ جارج سوروس نے ہی مہیا کیے۔
Occupied Wall Street نامی تحریک نے گزشتہ دنوں خاصی شہرت حاصل کی۔ تاہم کوئی ظاہری نتیجہ حاصل کیے بغیر ہی یہ تحریک خاموشی سے ختم کردی گئی۔ حیرت انگیز طور پر اس تحریک کے فنانسر کا نام بھی جارج سوروس ہی تھا۔ بعد از انتخاب مظاہروں میں MoveOn کے نام کے ساتھ ساتھOccupied Wall Street کی تحریک کا انسانی اثاثہ بھی شامل ہے۔ امریکا کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی بھی شخص بغیر ادائیگی کے کوئی بھی کام کرنے پر راضی نہیں ہے۔ اس لیے Purple Movement کے نام سے چلائی جانے والی تحریک کے لیے چھوٹے موٹے فنڈ درکار نہیں ہیں۔
یہ پس منظر جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جارج سوروس کیوں ٹرمپ کے خلاف تحریک کے نام پر اقتدار کی تبدیلی کی مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کے بالکل برعکس ہے۔ امریکا میں نہ تو انتخاب پہلی مرتبہ ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی ایک فریق پہلی مرتبہ ہارا ہے مگر نصف صدی کے بعد اس طرح کے بعد از انتخاب ہنگامے حیرت انگیز ہیں۔ اس اہم سوال کا جواب آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔