ایجنڈا 2030

232

یہ بات تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ امریکا میں بعد از انتخاب جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ کسی واقعے کا فوری ازخود ردعمل نہیں ہے۔ کسی بھی تحریک کو چلانے کے لیے بڑی تعداد میں فنڈز بھی درکار ہوتے ہیں اور ماحول بنانے کے لیے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے کاموں کی منصوبہ بندی کئی برس پہلے کی جاتی ہے۔ اس کے بعد منطقی طور پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا میں سول نافرمانی یا رنگین انقلاب کے لیے یہی وقت کیوں چنا گیا۔
اس سوال کے جواب کو ڈھونڈھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پیچھے کی طرف جانا ہوگا۔ یہ 25 ستمبر 2015 کا دن ہے۔ آج اقوام متحدہ کی 70ویں سالگرہ کا دن ہے۔ اس روز اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں دنیا میں امن امان کی بہتری، ماحول کو مزید تباہی سے بچانے اور غربت کے خاتمے کے لیے 17 اہداف پر مبنی ایک قرارداد پیش کی گئی۔ ان 17 اہداف کے ساتھ ملحق 169 اہداف تھے۔ اس قرارداد کو کرہ ارض کو بچانے کا ہدف بھی قرارد یا گیا۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا جس پر دنیا بھر کے تمام سربراہان مملکت نے دستخط کیے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے 2030 کا سال مقرر کیا گیا۔ اسی مناسبت سے اس قرارداد کو اقوام متحدہ کا ایجنڈا 2030 کہا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ ایجنڈا 2030 اصل میں ہے کیا۔ پہلے منظور کیے گئے 17 اہداف کو دیکھتے ہیں جس پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی دستخط کیے، ایران، بھارت، اسرائیل، ترکی سمیت دنیا بھر کے سربراہان نے اس پر دستخط کیے اور پھر جائزہ لیتے ہیں کہ اس سے اصل میں مراد کیا ہے۔ یہ اہداف مندرجہ ذیل ہیں۔
(1 غربت کی ہر شکل کو ختم کردیا جائے۔
(2 بھوک کے خاتمے کے لیے خوراک کے حصول کو یقینی بنایا جائے اور پائیدار زراعت کو فروغ دیا جائے۔
(3 صحت مند زندگی کو یقینی بنایا جائے اور ہر عمر کے افراد کی فلاح و بہبود کو فروغ دیا جائے۔
(4 تمام افراد کے لیے بہتر تعلیم اور تاحیات سیکھنے کے منصفانہ مواقع کو یقینی بنایا جائے۔
(5 صنفی مساوات کا ہدف حاصل کیا جائے اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنایا جائے۔
(6 فراہمی اور نکاسی آب کی سہولتوں کی دستیابی اور پائیدار انتظام کو یقینی بنایا جائے۔
(7 ارزاں، قابل اعتماد، پائیدار اور جدید توانائی تک ہر ایک کی پہنچ کو یقینی بنایا جائے۔
(8 ہر شخص کے لیے پائیدار، جامع، پائیدار، اقتصادی ترقی، مکمل اور پیداواری روزگار اور مہذب روزگار کو فروغ دیا جائے۔
(9 لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی جائے اور جدت طرازی و جامع اور پائیدار صنعت کاری کو فروغ دیا جائے۔
(10 ممالک کے مابین اور ان کے اندر عدم مساوات کا خاتمہ کیا جائے۔
(11 شہروں اور دیگر انسانی بستیوں کو محفوظ، مضبوط اور لچکدار بنایا جائے۔
(12 پائیدار پیداوار اور کھپت کے نمونوں پر عمل درامد یقینی بنایا جائے۔
(13 ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدام کیا جائے۔
(14 سمندروں اور بحری مخلوقات اور سمندری وسائل کو پائیدار ترقی کے لیے محفوظ کیا جائے۔
(15 ارضی ماحولی نظام کو محفوظ بنانے اور اس کے پائیدار استعمال کو فروغ دینے، بحال کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے جنگلات میں اضافہ کیا جائے، زمین کو مزید ریگستان بننے سے روکا جائے اور حیاتی نظام میں تبدیلی کو روکا جائے۔
(16 پرامن اور جامع سوسائٹیوں کو پائیدار ترقی کے لیے فروغ دیا جائے، انصاف تک سب کو رسائی فراہم کی جائے، اور ہر سطح پر موثر، جوابدہ اور جامع اداروں کی تعمیر کی جائے۔
(17 عمل درامد کے اسباب کو مضبوط بنانے اور پائیدار ترقی کے لیے عالمگیر شراکت داری کو ازسرنو بحال کیا جائے۔
دیکھنے میں یہ ایجنڈا انتہائی خوشنما اور انسان دوست ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اختلاف کیا جائے۔ مگر جب ہم تفصیل میں جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ میٹھے میں لپٹی اس تلخ گولی سے مراد کیا ہے۔ الفاظ کے گورکھ دھندے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان الفاظ کو لکھنے والے کا اپنا مطلب ہوتا ہے اور پڑھنے والا اپنی عینک سے اسے دیکھ کر ذہن میں اپنی تصویر بناتا ہے۔ مثال کے طور پر جب پاک بھارت مذاکرات ہوتے ہیں تو دونوں ایک ہی بات کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ اس کے بعد طرفین کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ تنازع اس کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تعریف کیا ہے۔ پاکستان کے نزدیک مقبوضہ کشمیر وہ خطہ ہے جو بھارت کے تسلط میں ہے اور بھارت کے نزدیک مقبوضہ کشمیر وہ علاقہ ہے جو پاکستان کے زیر انتظام ہے۔
اس وضاحت کے بعد دیکھتے ہیں کہ اس ایجنڈے کے خالقوں کی ان اہداف سے کیا مراد ہے۔ مختصرا ان اہداف سے مراد ہے کہ کیش کے بغیر معاشرے قائم کیے جائیں اور مرکزی بینکوں، آئی ایم ایف، عالمی بینک کو ایک عالمگیر ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کے تمام اختیارات دیے جائیں۔ دنیا بھر میں بھوک کے خاتمے سے مراد جی ایم او خوراک ہے۔ صحت کو یقینی بنانے سے مراد بڑے پیمانے پر ویکسین لگانا ہے اور خوراک کی کوڈنگ ہے۔ تعلیم عام کرنے سے مراد لازمی تعلیم کے ذریعے اقوام متحدہ کے پروپیگنڈے کو فروغ دیا جائے تاکہ عوام الناس کی برین واشنگ کی جاسکے۔ صنفی مساوات سے مراد لازمی خاندانی منصوبہ بندی ہے۔ سب کو توانائی کی فراہمی کا مطلب ہر چیز کی فروخت کے لیے میٹروں کی تنصیب ہے۔ اسی طرح پائیدار اقتصادی ترقی کا مطلب میگا کارپوریشنوں کے لیے فری ٹریڈ زون کا قیام ہے۔ اسی طرح انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کا مطلب ہر سڑک پر ٹول ٹیکس لگایا جائے، عوام کے مفت سفر کی سہولت کو ختم کردیا جائے اور ماحولیات کے نام پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ ممالک کے درمیان عدم مساوات کے خاتمے سے مراد حکومت کی مزید بالادستی اور بستیوں کو محفوظ بنانے سے مراد سیکورٹی کے نام پر انسانی نگرانی کو مزید سخت کرنا ہے۔
پائیدار صرف اور پیداوار سے مراد لازمی سادگی اختیار کرنا ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا مطلب کاربن ٹیکس قسم کے نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہے، بحری وسائل کو محفوظ بنانے سے مراد تمام بحری وسائل پر قبضہ ہے، ارضی ماحولی نظام کو محفوظ بنانے کا مطلب مزید ماحولی پابندیاں عائد کرنا ہے۔ پرامن سوسائٹیوں کے فروغ سے مراد اقوام متحدہ کے امن مشنوں کا مزید اثر و نفوذ ہے اور آخری ہدف کا مطلب پوری دنیا سے قومی حکومتوں کا خاتمہ ہے۔
یہ سیدھا سادھا نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا ہدف ہے۔ مگر اس کا امریکا میں رنگین انقلاب اور جغرافیائی تبدیلی سے کیا تعلق ہے۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔