عورتوں پر تشدد کرنے والے خواتین پر تشدد کے مخالف بن بیٹھے

167

?آج دنیا بھرمیں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ جب بھی عورتوں پر تشدد کی بات ا?تی ہے تو ذہن میں ایک ہی بات ا?تی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں عورتوں کی حالت زار انتہائی ناگفتہ بہ ہے جبکہ مغربی ممالک خواتین کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک کے رہنے والے افراد انتہائی شائستہ اور مہذب ہیں۔عام لوگوں کے ذہن میں ہے کہ اول تو مغربی ممالک میں لوگ عورتوں کے ساتھ انتہائی عزت و وقار کے ساتھ پیش ا?تے ہیں اور اگر بالفرض کوئی خواتین کے ساتھ ذرا سی بھی بدتمیزی کرنے کی کوشش کرے تو پولیس فوری طور پر ان کی مدد کے لیے حاضر ہوتی ہے۔اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک خاص طور سے مسلم ممالک میں خواتین کے ساتھ غلاموں سا سلوک ہورہا ہے انہیں پردے کے نام پر گھروں میں بند کرکے رکھا جاتا ہے اور ان خواتین کے پاس حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مغربی ممالک کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس تاثر کی نفی ہوتی ہے۔
2014ء4 میں یورپ میں یورپین یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق نے خواتین پر تشدد کے حوالے سے ایک سروے کیا تھا۔ یورپ میں یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا سروے تھا۔ جب اس سروے کا تجزیہ کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خوفناک تھے۔ اس سروے کے مطابق یورپ میں رہنے والی ہر تیسری عورت 15 برس کی عمر سے ہی جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہے۔ اس وقت یورپ میں خواتین کی تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ تھی اور اس سروے میں مختلف طبقات کی نمائندہ 42 ہزار خواتین کے انٹرویو کیے گئے تھے اور ان سے ان کے گھر اور کام کی جگہوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق تشدد کا شکار ہونے والی 67 فیصد خواتین اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی کوئی رپورٹ ہی نہیں کرتی ہیں۔
اس سروے کی ایک اہم بات یہ تھی کہ خواتین کے خلاف تشدد ان ممالک میں زیادہ تھا جو عام طور پر صنفی مساوات کے علمبردار ہیں۔ مثلا سب سے زیادہ تشدد کا شکار ڈنمارک کی خواتین تھیں۔ ان کی تعداد 52 فیصد تھی۔ فن لینڈ میں یہ تعداد 47 فیصد اور سوئیڈن میں 46 فیصد تھی۔ برطانیہ اور فرانس 44 فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھے۔ مشرقی یورپ کے بارے میں تاثر عمومی طور پر درست نہیں ہے مگر خواتین پر سب سے کم تشدد پولینڈ میں ہی ریکارڈ ہوا تھا جو 19 فیصد تھا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق ا?سٹریلیا، کینیڈا، اسرائیل، جنوبی افریقا اور امریکا میں 40 تا 70 فیصد خواتین کا قتل ان کے پارٹنر کے ہاتھوں ہی ہوا۔ پاکستان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یہاں پر خواتین کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شرمین عبید چنوئے کی اس بارے میں ایک دستاویزی فلم کو ا?سکر ایوارڈ سمیت دیگر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس بارے میں صرف برطانیہ کے ہی اعداد و شمار دیکھیں تو وہ پاکستان سے زیادہ ہیں۔برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق 2004۔5 میں اسپتالوں میں تیزاب کی شکار 55 خواتین کو داخل کیا گیا تھا۔ یہ تعداد 2014۔15 میں بڑھتے بڑھتے 106 کا عدد پار کرگئی تھی۔ گارجین نے ایک واقعہ رپورٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 18 ستمبر 2015 کو ایک خاتون کارلا وٹ لاک جو چھ بچوں کی ماں تھی پر گلڈ ہال اسکوئر، ساو?تھمپٹن پر تیزاب پھینکا گیا جس سے اس کا چہرہ بری طرح جھلس گیا۔ گارجین بتاتا ہے کہ یہ واقعہ تو پولیس میں رپورٹ ہوگیا مگر اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں جو لوگ پولیس میں رپورٹ ہی نہیں کرواتے ، خاص طور سے معمر افراد۔
یہ تو ایک چھوٹی سی جھلک ہے ان ممالک کی جو ترقی یافتہ بھی کہلاتے ہیں اور مہذب بھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے مگر واویلا صرف اور صرف ترقی پذیر ممالک اور خاص طور سے مسلمان ممالک کے بارے میں ہے۔ خواتین تو کیا ، کسی پر بھی تشدد کے بارے میں دو رائے نہیں ہیں۔ جرم جہاں پر بھی ہو اس کا سدباب ہونا چاہیے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ پولیس اور ریاست ہی اس تشدد کی پشتیبان ہے۔ جی ہاں امریکا ، یورپ اور ا?سٹریلیا میں بھی۔