ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنا تباہ کن ہوگا،سی آئی اے چیف

182

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا خاتمہ ‘تباہ کن’ اور ‘حماقت کی انتہا’ ہوسکتا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گے انٹرویو میں جان برینن نے اس معاملات کی نشاندہی کی جس میں نئی انتظامیہ کو ‘ہوشیاری اور تنظیم’ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں دہشت گردی کے متعلق استعمال کی جانے والے زبان، روس کے ساتھ تعلقات، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور سی آئی اے کے خفیہ اقدامات کی صلاحیتیں شامل تھیں۔جان برینن نے ڈونلڈ ٹرمپ نے آنے والے ٹیم کو انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تنسیخ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

 انھوں نے کہاکہ میرے خیال میں یہ تباہ کن ہوگا۔ واقعی ایسا ہی ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک معاہدہ جو گذشتہ انتظامیہ نے کیا وہ دوسری انتظامیہ ختم کر دے۔انھوں نے کہ ایسا کرنے سے ایران میں سخت گیروں کو تقویت ملنے کا خطرہ ہے اور دیگر اقوام بھی ایران کی ازسرنو کوششوں کے جواب میں جوہری پروگرام شروع کر سکتی ہیں۔’جان برینن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ حماقت کی انتہا ہوگی اگر نئی انتظامیہ یہ معاہدہ ختم کر دے۔

جان برینن کا شام کی صورتحال کے حوالے سے کہنا تھا کہ شامی حکومت اور روس دونوں شامی شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں جسے انھوں نے ‘ہیبت ناک’ قرار دیا۔صدر اوباما کی انتظامیہ کی جانب سے صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے اعتدال پسند باغیوں کی حمایت کی پالیسی اپنائی تھی۔

سی آئی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ امریکہ کو یہی پالیسی جاری رکھتے ہوئے باغیوں کی شام، ایران، حزب اللہ اور روس کے خلاف مدد کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ روس شام میں مستقل میں اہم اکائی رہے گا لیکن انھوں نے کسی بھی قسم کے معاہدے پر پہنچننے پر شک و شبہات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو مذاکرات میں ‘چال باز’ رہا ہے، اور حلب کو ‘قابو کرکے’ اس عمل سے نکلنا چاہتا ہے۔ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی جانب سے اس امر کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ متعدد معاملات پر روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوششیں کریں گے۔جان برینن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں صدر ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ کو روسی وعدوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی وہ وعدے نبھانے میں ناکام رہا ہے۔