معزوروں کے لئیے امید کی کرن

531

گزشتہ دنوں دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی عالمی یوم معذورین اس احساس کے ساتھ منایا گیا کہ ان افراد کو معاشرے کا مؤثر شہری بنایا جاسکے، انہیں حقوق، انصاف اور عزت دی جا سکے۔ دنیا بھر کے ممالک معذور افراد کو معاشرے کا فعال شہری بنانے اور انہیں معذوری سے چھٹکارہ دلانے کے لیے ہر جتن کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات انتہائی فکر انگیز ہے کہ عالمی آبادی کا 10 فی صد یعنی 65 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ 80 فی صد معذور افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جب کہ پاکستان کی 7 فی صد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ پاکستان میں معذوروں میں سب سے زیادہ 40 فی صد جسمانی معذور ہیں جن میں ٹانگوں، ہاتھوں اور بازوؤں سے معذور ہیں جب کہ 20، 20 فی صد ذہنی و بینائی سے معذور اور 10، 10فی صد سماعت اور ایک سے زائد معذوری کے حامل افراد ہیں۔ عالمی معذوری کی بڑی وجہ جنگیں، قدرتی آفات اور بد امنی کی صورت حال ہے۔
اگر معذوری کی مختلف اقسام کا جائزہ لیں تو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جن معذوریوں کو ناقابل علاج سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، انہیں ذرا سی توجہ سے دور کیا جا سکتا ہے۔ بائی پاس آپریشن کے بعد مریض معمولات زندگی کی طرف لوٹنے کے بجائے بستر پر دراز رہنے کو بہتر سمجھتے ہیں، یہ بھی معذوری کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے افراد کو کارڈیک ری ہیبلی ٹیشن مرکز سے رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح نیورولوجیکل ری ہیبلی ٹیشن مرکز میں دماغ سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان میں کسی بھی قسم کے حادثے کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کے علاج کے مریض شامل ہیں۔ اسی طرح ہڈیوں کے کھوکھلے پن یا جوڑوں کی خرابی، گھٹنے کی تبدیلی یا حادثے کی صورت میں آرتھو پیڈک ری ہیبلی ٹیشن مرکز سے رجوع کرنا چاہیے، بچوں کو پیدائش کے وقت لاحق ہونے والی معذوری کی صورت میں پیڈیاٹرک ری ہیبلی ٹیشن ماہرین سے رجوع کر کے اس بیماری سے نمٹا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں جہاں شعبہ صحت کی حالت انتہائی دگرگوں ہے، وہیں صحت کی سہولتوں کے بارے میں عوام میں آگہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر معذور افراد کی بحالی کے لیے ابھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔ پاکستان میں ایسے چند ہی ادارے ہیں جو معذورین کی بحالی اور نئے اعضاء کی تیاری کے حوالے سے ایک منفرد شناخت کے حامل ہیں، ان ہی میں ڈاؤ یونی ورسٹی بھی شامل ہے جو ہزاروں معذورین کے لیے پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کی واحد علاج گاہ اور امید کی کرن ہے۔
ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (DUHS) نے اس مقصد کے لیے 2004ء میں معذورین کے لیے دوبارہ نارمل زندگی گزارنے میں مدد دینے کے لیے ری ہیبلی ٹیشن سینٹر قائم کیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن (آئی پی ایم آر) کے نام سے قائم اس انسٹی ٹیوٹ میں مختلف شعبوں میں مختلف طرح کی معذوری کے شکار افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔
ایسے معذور افراد کی بھی اس انسٹی ٹیوٹ نے بھرپور مدد کی ہے جو معذوری سے دل شکستہ تھے اور اب ری ہیبلی ٹیشن کے بعد ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں، ان ہی میں سے ایک مرزا ذاکر بیگ ہیں جو اسی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن میں فوٹو اسٹیٹ مشین آپریٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی معذوری اور پھر بحالی کے حوالے سے بتایا کہ میرا دایاں ہاتھ کام کے دوران جنریٹر میں آنے کی وجہ سے ضائع ہو گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد مجھے اس انسٹی ٹیوٹ کا علم ہوا، میں یہاں آیا تو انہوں نے میرے ہاتھ کا سائز لیا، کچھ عرصے بعد انہوں نے فون کر کے بتایا کہ آپ کا مصنوعی ہاتھ تیار ہے اور پھر اس ہاتھ کی تیاری پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے بھی بتایا۔ جس پر میں نے انہیں بتایا کہ میری اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں یہ اخراجات ادا کر سکوں تو ادارے نے مجھے بلوایا اور بغیر کسی اخراجات کے بلا قیمت مصنوعی ہاتھ لگا دیا۔ اس کے بعد ادارے نے مجھے یہیں پر فوٹو اسٹیٹ مشین آپریٹر کے طور پر ملازمت بھی فراہم کردی۔ مصنوعی ہاتھ کی بدولت اب میں اپنے تمام کام بآسانی کر سکتا ہوں۔ یہاں سارے لوگ بہت تعاون کرتے ہیں اور اگر کتاب بھاری ہو تو اٹھانے میں مدد کرتے ہیں۔
ڈاؤ یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن (آئی پی ایم آر) کے نام سے قائم اس انسٹی ٹیوٹ میں ہر سال ساڑھے نو سو سے زیادہ معذورین کی بحالی کے لیے علاج فراہم کیا جاتا ہے اور لوگ معذوری کے باوجود نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک مثال فخر کی بھی ہے جو اب اپنی ہمت اور علاج کے باعث قابل فخر زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے کے لیے مینارہ نور ہیں۔ فخر پانچ سال قبل اس وقت اپنی بائیں ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے جب ایک آئل ٹینکر ان کے پاؤں پر چڑھ گیا تھا۔ انہوں نے آئی پی ایم آر سے رابطہ کیا تو انہیں بھی مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی اور کسی بھی قسم کے چارجز نہیں لیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میرا حادثہ ہوا تو سب سے بری بات یہ ہوئی کہ کچھ لوگوں نے ہمت بڑھانے کے بجائے ترس کھانا شروع کردیا، پتہ نہیں لوگ یہ بات کب سمجھیں گے کہ معذور پر صرف ترس کھایا گیا تو وہ کبھی نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے گا اور معاشرے پر ایک بوجھ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا۔ اس ادارے میں مجھے جب مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی تو میں ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوگیا جب کہ انسٹی ٹیوٹ میں ہی مجھے ایڈمن اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی گئی۔ میں موٹر سائیکل پر آفس آتا ہوں، معمول کے مطابق نماز بھی ادا کرتا ہوں اور پارٹ ٹائم کے طور پر رکشہ بھی چلاتا ہوں لیکن کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ قدرتی عضو کا متبادل تو نہیں ہوسکتا لیکن اللہ نے حوصلہ دیا اور میں نے ہمت کر لی۔ اسی لیے آج معمول کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ معذوری ایک ایسا لفظ ہے جس سے نہ صرف معذورین کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ وہ دہری اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ کے نگراں ڈاکٹر عمران سے جب ’’جسارت‘‘ نے بات چیت کی اور ادارے کے حوالے سے جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ کا اہم ترین حصہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کا شعبہ ہے جو مصنوعی اعضاء تیار کرتا ہے یہاں تیار ہونے والے مصنوعی اعضاء عالمی معیار کے مطابق ہوتے ہیں، یہاں تیار ہونے والے اعضاء نہ صرف حادثے کی صورت میں ہاتھ اور پاؤں سے محروم ہوجانے والے افراد کو لگائے جاتے ہیں بلکہ پولیو کے باعث پاؤں کے ٹیڑھے پن کے شکار افراد بھی مصنوعی ٹانگوں کے ذریعے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر کسی نجی ادارے سے یہ اعضاء لگوائے جائیں تو اخراجات چالیس ہزار تک ہوتے ہیں تاہم آئی پی ایم آر میں مصنوعی اعضا بلا قیمت لگائے جاتے ہیں، ان اعضاء پر اخراجات ڈاؤ یونی ورسٹی اپنے وسائل اور زکوٰۃ سے حاصل شدہ رقم کے ذریعے پورے کرتی ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے قابل توجہ ہے جو مالی وسائل کی عدم دست یابی اور بے خبری کے باعث معذوری کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس ادارے میں ساڑھے نو سو سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔
ڈاکٹر عمران نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معذورین کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنے کے بجائے انہیں مصنوعی اعضاء فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بھی ایک مرتبہ معاشرے کے کار آمد فرد بن سکیں اور اپنے روزمرہ کے کاموں کو نہ صرف بخوبی انجام دے سکیں بلکہ باعزت روزگار حاصل کر کے احساس کم تری سے نجات حاصل کر سکیں۔ جہاں حکومتی اور نجی سطح پر معذورین کو مفت مصنوعی اعضاء فراہم کرنے والے ادارروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے وہیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے قائم اداروں کی حوصلہ افزائی اور مالی مدد بھی ضروری ہے تاکہ پاکستان ایک باحوصلہ قوم کی حیثیت سے ابھر سکے اور معذور افراد معاشرے میں مکمل اعتماد سے زندگی گزار سکیں۔
ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ ڈاؤ یونی ورسٹی کے ادارے آئی پی ایم آر مصنوعی اعضاء اور کم زور پٹھوں کے لیے جسمانی سہارے کا مرکز قائم کیا گیا ہے۔ جہاں پر مصنوعی اعضاء اور آلات ماہرین کی نگرانی میں ان مریضوں کو جو جسمانی طور پر معذور اور کم زور ہیں اور غریب اور نادار ہیں، ان کو بلامعاوضہ فراہم کیے جاتے ہیں۔
آئی پی ایم آر کے نگران ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ اس کم وقت میں اس ادارے نے قریباً 7 ہزار مصنوعی اعضاء و مدد گار آلات معذور مریضوں کو فراہم کر دیے ہیں۔ 2010 ء سے 2011ء تک لاڑکانہ میں اس ادارے نے کام یابی سے مقامی خدمت کے منصوبے میں مختلف معذور مریضوں کو بہترین خدمات فراہم کی ہیں۔ اس منصوبے میں تشخیص، تعمیر، فٹنگ اور مقامی برادری کی بحالی کے لیے کثیر شعبہ جاتی اور نقطہ نظری بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ 2008ء میں ڈاؤ یونی ورسٹی کی خدمات سے پاکستان میں دوسرا مصنوعی اعضاء اور جسمانی بحالی کا اسکول تعمیر کیا گیا۔ یہ اسکول چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کروا رہا ہے۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد طلبہ کام یابی سے بی ایس پی ٹی او کی ڈگری کی مدد سے مختلف ہسپتالوں میں بحالی کے مراکز، ملک کے اندر غیر سرکاری تنظیموں، بین الاقوامی کمپنیوں اور پاکستان اور بیرون ممالک میں خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس ادارے کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند ماہرین مصنوعی اعضاء آلات کی مدد سے معذور افراد کو جسمانی بحالی کی خدمات فراہم کر رہے ہیں اور ان افراد کو آزاد معاشرے کا کار آمد شہری بنا رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمران کے مطابق آئی سی آر سی اور ڈاؤ یونی ورسٹی نے اس اسکول کی ترقی کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے اور اسکول کی بہترین کارکردگی پیش کی۔ دسمبر 2014ء میں ایچ ایس سی کی جانب سے ڈاؤ یونی ورسٹی کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر میں ٹریننگ میں حصہ لیا۔ اس ادارے نے جناح میڈیکل سینٹر کے ہڈی جوڑ وارڈ میں 300 سے زائد ٹیڑھے پاؤں کے افراد اور بچوں کو آلات فراہم کیے۔ ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں حصہ لیا۔ مئی 2011ء میں چل فاؤ نڈیشن کے ساتھ مل کر ٹھٹھہ میں ہو نے والی معذور افراد کی خدمت میں 44 سے زائد مصنوعی اعضاء فراہم کیے۔اس ادارے کا مقصد صرف اور صرف معذور افراد کی خدمت کر نا ہے۔
اسپیچ لینگویج تھراپی:
ڈاکٹر عمران کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسپیچ لینگویج تھراپی یہ وہ شعبہ ہے جو ان افراد کی مدد کرتا ہے جنہیں بولنے، زبان کو سمجھنے، کھانے پینے یا ذہنی کاموں میں دقت پیش آتی ہے۔ اسپیچ لینگویج تھراپسٹ ہر عمر اور ہر قسم کے بچوں اور بڑوں کی مدد کرتی ہے جنہیں مندرجہ بالا مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو۔ ان میں وہ بچے اور بڑے بھی شامل ہیں جنہیں خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے معاشرے میں انہیں کند ذہن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔