بیش تر مبصرین یہ خطرہ ظاہر کر رہے تھے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد، مشرق وسطیٰ بڑے پیمانہ پر زلزلہ سے لرز اٹھے گا جس کا مرکز شام ہوگا۔ لیکن ابھی اس متوقع زلزلے کی ہیت اور نوعیت کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ سعودی عرب اور مصر میں معرکہ آرائی بھڑک اٹھی ہے۔ اس کا بھی آغاز شام سے ہوا ہے، جب کہ شام کے شہر حلب میں تباہ کن صورت حال کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کی طرف سے پیش کردہ قرار داد کی مصر نے حمایت کی تھی۔ روسی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ حلب میں گھرے ہوئے مصائب زدہ لوگوں کی امداد کے لیے تمام فریق اپنی فوجی کارروائی بند کر دیں۔ سعودی عرب کے لیے یہ قراداد قابل قبول نہیں تھی، کیوں کہ وہ بشار الاسد کی حکومت کا فی الفور خاتمہ چاہتا ہے۔ مصر کی طرف سے قرارداد کی حمایت، سعودی عرب کے نزدیک، عرب موقف کی خلاف ورزی تھی۔ مصر کے اس اقدام پر سعودی عرب اس قدر ناراض تھا کہ اس نے کھلم کھلا مصر میں جنرل السیسی کی حکومت کی سر زنش کی اور اسے سزا دینے کے لیے، اس کا وہ تیل بند کر دیا جو سعودی عرب ایک عرصے سے ہر ماہ سستے داموں فراہم کرتا تھا۔
تین سال قبل یہی سعودی عرب تھا جس نے اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے اور اخوان کو دہشت گرد قرار دے کر ممنوع قرار دینے پر، مصر کے فوجی حکمران جنرل السیسی کو انعام کے طور پر 2 ارب ڈالر کا عطیہ دیا تھا تاکہ مصر کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ جنرل السیسی نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ مصر، خلیج کے ملکوں اور سعودی عرب کی مالی امداد کا مرہون منت ہے اور ضرورت پڑی تو مصر خلیج کے ملکوں کے دفاع کے لیے اپنی فوج بھیجے گا۔ لیکن جنرل السیسی، برسر اقتدار آنے کے آٹھ ماہ بعد ہی اپنے وعدہ سے پھر گئے اور اپنے فوجی افسروں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصر کی فوج صرف مصر کے لیے ہے، کسی اور ملک کے لیے نہیں ہے۔
قاہرہ اور ریاض کے درمیان کشیدگی کے آثار اسی وقت نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے جب مصر نے، شام اور یمن میں سعودی عرب کی فوجی مہمات کی حمایت کرنے اور اس میں حصہ لینے سے گریز کرنا شروع کیا تھا۔ سعودی عرب کو توقع تھی کہ مصر، ایران کے خلاف اس کا ساتھ دے گا، لیکن جنرل السیسی نے صرف مصر کے، مفادات کی پالیسی اپنائی اور روس سے قربت اختیار کی۔ امریکا سے اسلحہ خریدنے کے بجائے، روس، فرانس اور جرمنی سے اسلحہ کے حصول کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی کے ساتھ روس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے، شام میں بشار الاسد کی حکومت کے باغیوں کی حمایت ترک کردی اور یمن میں سابق صدر، علی عبداللہ صالح اور ان کے حوثی اتحادیوں کی حمایت شروع کر دی جو سعودی عرب سے بر سرِ پیکار ہیں۔ جنرل السیسی نے گزشتہ ستمبر میں ایران اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ سفارتی روابط استوار کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں مصر کے وزیر خارجہ شوقی نے پہلی بارایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران، نیویارک میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد مصری وزیر خارجہ شوقی نے صاف صاف کہا تھا کہ مصر، شام کے بارے میں سعودی عرب کے موقف سے متفق نہیں ہے۔
اس سال اپریل میں سعودی عرب کے فرماں روا، شاہ سلمان نے مصر کا پانچ روزہ دورہ کیا تھا جس کے دوران سعودی عرب نے مصر کو 25 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا تھا، جس کے عوض مصر نے، خلیج عقبہ میں اپنے دو اہم جزیروں، تیران اور صنافر کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن مصر میں جنرل السیسی کے اس فیصلے کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اسے مصر کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ مخالفت کے اس طوفان کے پیش نظر جنرل السیسی کو ان جزیروں کا معاملہ از سر نو غور کر نے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا پڑا۔ نتیجہ یہ کہ ان جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
اس دوران مصر کی طرف سے شام میں بشار الاسد کی حکومت اور روس کی حکمت عملی کی کھلم کھلا حمایت کی گئی۔ نومبر کے آخر میں جنرل السیسی نے پرتگیزی ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ مصر، شام کی فوج کی حمایت کرے گا۔، دو روز بعد لبنان کے روزنامہ سفیر نے انکشاف کیا کہ مصر کے اٹھارہ ہیلی کاپٹر ہوابازوں کا ایک دستہ اور چار میجر جنرل پچھلے دو مہینوں سے دار الحکومت دمشق میں شام کی فوج کے جنرل اسٹاف کے ہیڈ کوارٹرز میں تعینات ہیں۔ روس کے روزنامہ ازوستیا اور ایران کی خبر رساں ایجنسی، تسنیم نے شام کی سر زمین پر مصری فوج کے دستوں کی موجودگی کی تصدیق کی۔
اب مصر، عملی طور پر سعودی عرب سے بہت دور اور روس، شام اور ایران سے بہت قریب جا پہنچا ہے۔ موجودہ صورت حال میں عرب دنیا اب دو محوروں میں تقسیم ہوتی نظر آتی ہے جس کا نہ صرف عرب مسائل پر بلکہ عرب دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر اور عالم اسلام کے باہمی تعلقات پر گہرا اثر پڑنے کا امکان ہے۔