حلب۔ ایک تعارف

139

حلب شام کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی اپنی ایک تاریخی و مذہبی اہمیت ہے۔ اس کی مذہبی اہمیت کا تعلق صرف اسلام یا مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی اتنا ہی محترم اور اہم ہے جتنا مسلمانوں کے لیے۔ آج یہ شہر انسانوں کے مقتل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عمارتیں کھنڈر بن گئی ہیں اور جیتا جاگتا شہر کا شہر قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں پر اب اگر کوئی آواز گونجتی ہے تو وہ صرف اور صرف ہتھیاروں کی ہے۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اس ہنستے بستے شہر کو قبرستان میں تبدیل کردیا ہے۔ آخر یہ قاتل کون ہیں؟ سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ان قاتلوں کو ہم نے اپنی پسند و ناپسند کے گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، شیعہ اور سنی گروپوں میں۔ اب یہ نہیں بتایا جاتا کہ حلب کے معصوم افراد کو قتل کردیا گیا۔ بلکہ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اسدی فوج کی بمباری سے اتنے لوگ مارے گئے۔ روسی شامیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ دوسرا گروپ کہتا ہے امریکا کے ایجنٹوں نے اتنے افراد کو ہلاک کردیا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ کیا کچھ کررہے ہیں۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔ حملے کوئی بھی کررہا ہو، شہر کی ناکہ بندی کسی نے بھی کی ہو، سیدھی سی بات یہ ہے کہ حلب کے شہری مارے گئے ہیں۔ حلب میں برسرپیکار یہ جنگجو کون ہیں اور ان کی ڈوریں کہاں سے ہلتی ہیں۔ اس پر گفتگو سے قبل حلب کا ایک مختصر سا تعارف۔
حلب کو مغرب میں الیپو اور ترکی میں حلپ بھی کہتے ہیں۔ موجودہ جنگ شروع ہونے سے قبل اس کی آبادی تقریباً 25 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چار ہزار برس پرانی تختیوں میں حالابو نام کے شہر کا ذکر ہے جو بعد میں تبدیل ہوکر حلب ہوگیا۔ یہ کب آباد ہوا، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے مگر حلب کا شمار دنیا کے ان قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے جو مسلسل آباد چلے آرہے ہیں۔ حلب شام کے شمال مشرق میں واقع ہے جب کہ ترکی کی سرحد سے جنوب میں اس کا فاصلہ پچاس کلومیٹر ہے۔ اس کے مغرب میں ایک سو کلومیٹر کی دوری پر بحیرہ روم موجود ہے تو اس کے ایک پہلو میں دجلہ بہتا ہے تو دوسری جانب فرات۔ شہر میں بازنطینی طرز تعمیر بھی نظر آتا ہے تو ترک طرز تعمیر بھی۔ یہاں پر یہودیوں کی بھی بڑی تعداد بستی ہے۔ یہ تقریباً چھ سو برس سے دنیا کی دستیاب قدیم ترین بائبل جو عبرانی زبان میں ہے جو Aleppo Codex کے نام سے معروف ہے، کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں تو عیسائی بھی یہاں پر موجود ہیں جو پانچویں صدی عیسوی میں دوبارہ سے تعمیر کیے جانے والے سینٹ سائمن کے چرچ پر فخر کرتے ہیں۔ بارہویں صدی عیسوی میں جب صلیبیوں نے یروشلم پر یلغار کی تو یہ حلب کا ہی شہر تھا جس نے ان کی بھرپور مزاحمت کی۔ یہ صلیبی حملہ آور 1124-25 میں اس کا محاصرہ کیے رہے اور بالآخر ناکام ہوکر واپس لوٹ گئے۔ المتنبی اور فارابی کا یہ شہر ثقافتی لحاظ سے بھی دنیا میں آگے تھا۔ ایوبی دور حکومت اس شہر کے لوگوں کے لیے تاریخ کا بہترین دور حکومت تھا۔ اس دور میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ حلب کا شہر تباہی و بربادی کا مرقع نظر آرہا ہے۔ دیگر قدیم شہروں کی طرح اس شہر نے بھی درجنوں بادشاہوں کی ہوس گیری کا سامنا کیا۔ تاہم موجودہ غارت گری کی مثال منگول بادشاہ تیمور لنگ کی لشکر کشی سے ہی ملتی ہے۔ 1348 میں طاعون کی وبا نے اس شہر میں سناٹا کردیا تھا۔ ابھی اس شہر کے باسی اس وبا سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ 1400 میں تیمور نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد اینٹ سے اینٹ بجادی اور شہر کے دروازوں پر کھوپڑیوں کے مینار اس شہر کی بے بسی کی گواہی دے رہے تھے۔ منگولوں کو نکالنے کے بعد ترکوں نے اس شہر کو نئے سرے سے بنایا سنوارا اور اسے پھر سے ترقی کی شاہراہ پر ڈالا۔ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں حلب ترک سلطنت کا تیسرا بڑا شہر تھا۔ اس شہر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یونیسکو نے اس شہر کے پورے قدیم حصے کو ثقافتی ورثہ قرار دیا ہوا ہے۔
اس شہر کی موجودہ بدقسمتی کا آغاز فروری 2012 میں ہوا جب راکٹوں سے ملٹری انٹیلی جنس اور پولیس کے کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 28 افراد مارے گئے۔ اس کے بعد حکومت اور جنگجو کے مابین جھڑپوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ جنگ کی آگ کے پھیلاؤ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً ایک سال کے بعد ہی اپریل 2013 میں گیارہویں صدی کی تعمیر کردہ قدیم جامع مسجد کے مینار زمیں بوس ہوچکے تھے۔
حلب کی کہانی بس اتنی نہیں ہے کہ باغی بشارالاسد کے خلاف مورچہ لگائے ہوئے ہیں اور وہ بشار الاسد کو حکومت سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اگر محض شامی عوام کا معاملہ ہوتا تو اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ شامی عوام کا اپنا معاملہ تھا کہ وہ کسے حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر حلب میں شامی عوام ہی کہیں پر موجود نہیں ہیں۔ اگر کہیں پر موجود ہیں تو وہ متاثرین کے طور پر ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کے لوگ حلب میں موجود ہیں۔ چاہے یہ حکومت کی مدد کے نام پر ہوں یا حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے نام پر۔ دنیا کی کون سی طاقت ہے جو یہاں پر موجود نہیں ہے۔ حیرت انگیز طور پر دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ بھائی آپ لوگوں کا یہاں پر کیا کام ہے۔
یہاں پر کون کون سے گروپ کس کے خلاف برسر پیکار ہیں اور کس کے اتحادی ہیں۔ انہیں کہاں سے فنڈ اور کہاں کہاں سے ہتھیار ملتے ہیں۔ اگر ہم یہ جان لیں تو پھر بہت ساری باتوں کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس موضوع پر تفصیلی گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔