حلب۔ برسرپیکار کون ہیں؟

165

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ عالمی سازش کار شام میں خانہ جنگی سے نتائج کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر یا اس دنیا پر شیطان کے مکمل غلبے کی جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس میں پوری دنیا کو عملاً غلام بنانا شامل ہے۔ یہ صرف خوف اور لالچ ہیں جو انسان کو کسی اور کا غلام با آسانی بنا دیتے ہیں۔ جنگ اور مسلسل جنگ ایک ایسا آزمودہ نسخہ ہے جو کسی بھی قوم یا ملک کو غلام بنانے کے لیے انتہائی کارآمد ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے ہاتھوں زمیں بوس ہوجاتی ہے اور وہ ملک قرض کی ایک ایسی دلدل میں جا پھنستا ہے جس سے پھر کبھی گلو خلاصی ممکن نہیں ہوپاتی۔ شام اور یمن کی جنگیں بھی ایسا ہی جال ہیں۔ اس جال میں ایران، ترکی، مصر اور تمام عرب ممالک بری طرح پھنس چکے ہیں۔
جنگ سے فائدے میں وہ لوگ رہتے ہیں جو جنگ سے باہر ہوتے ہیں اور ان کا شمار اشیاء کی فراہمی سے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلحہ و آلات بیچنے والوں سے نہیں ہے۔ یہ کمپیوٹر فراہم کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں اور برگر بیچنے والے بھی۔ زد میں وہ ملک آتے ہیں جو اس جنگ میں شریک ہوتے ہیں۔ ان ممالک کے افراد بھی تیزی کے ساتھ کم ہوتے ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جہاں ماتم نہ ہو۔ اور وسائل، وہ تو بھاپ بن کر اڑ جاتے ہیں۔ شام کا تو ذکر ہی چھوڑیے۔ اس جنگ میں شریک سعودی عرب کا ایک چھوٹا سا جائزہ ہی بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔ سعودی عرب کو دام میں لانے کے لیے دو دھاری تلوار استعمال کی گئی۔ سب سے پہلے تو تیل کی قیمتیں 148 ڈالر فی بیرل سے کم کرکے 30 سے 40 ڈالر فی بیرل کے درمیان لے آئے۔ یہ درست ہے کہ اس کا نقصان تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کا بھی ہوا۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک اعادہ۔ دنیا بھر میں تیل کی دولت کی مالک سات کمپنیاں ہیں جو سیون سسٹرز کے نام سے معروف ہیں۔ تیل کے یہ کنوئیں چاہے سعودی عرب میں ہوں، ایران میں، پاکستان میں، امریکا میں یا روس میں۔ ان کی مالک یہی کمپنیاں ہیں۔ جن ممالک میں تیل کے کنوئیں واقع ہیں، انہیں تو 13 سے 18 فی صد کے درمیان رائلٹی ملتی ہے اور بس۔ تیل کی قیمت میں گراوٹ کا نقصان ان کمپنیوں کا بھی ہوا مگر چوں کہ ادویات، اسلحہ و دیگر آلات حرب بنانے والی کمپنیوں وغیرہ کے مالکان بھی یہی ہیں، اس لیے انہیں کچھ فائدہ ہی ہوا، نقصان نہیں۔ ایک طرف تو سعودی عرب جیسے ممالک کی آمدنی انتہائی کم ہوگئی تو دوسری جانب اسلحے کی صورت میں سونے سے بھی مہنگا لوہا انہیں ان کی حفاظت کے نام پر پکڑا دیا گیا۔ چوں کہ نقد رقم پہلے ہی یہ ساہوکار کھینچ چکے تھے اس لیے اب قرض کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کا بجٹ خسارہ ایک سو ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ اندیشہ ہے کہ آئندہ مالی سال میں یہ خسارہ 125 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
جب یہ ساہوکار قرض پکڑاتے ہیں تو اس سے کئی گنا زائد مالیت کی جائداد بھی گروی رکھتے ہیں۔ ممالک کو قرض دینے کی صورت میں یہ ٹیکس کا اختیار اپنے پاس رکھتے ہیں۔ چوں کہ سعودی عرب کے پاس تیل کے بعد آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ معتمرین اور حجاج ہیں، اس لیے آئی ایم ایف نے اسی کو ہدف بنایا اور کہا گیا کہ فی کس دو ہزار ریال ٹیکس لے کر آئی ایم ایف کے خزانے میں جمع کروایا جائے۔ اب یہ ٹیکس عائد ہے۔ جو لوگ پہلی مرتبہ یا تین سال کے وقفے کے بعد حج و عمرے کے لیے آتے ہیں، ان کا ٹیکس شاہی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے جب کہ بقیہ افراد سے وصول کر لیا جاتا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں کٹوتی کردی گئی ہے، بونس پر مکمل پابندی، کوئی الاؤنس نہیں اور تن خواہوں میں اضافے کی بات اب کوئی نہ کرے۔ تن خواہوں کی ادائیگی کے لیے قمری سال ختم، اب یہ شمسی سال کے حساب سے ادا کی جائیں گی۔ یہ بھی آئی ایم ایف کے فراہم کردہ مشیروں کا کمال ہے کہ کفایت کی تلوار کی زد میں صرف مقامی آئے اور پہلی مرتبہ غیر مقامی اس سے محفوظ رہے۔
ان اقدامات کے دور رس نتائج کا ذرا سوچیے۔ مقامی افراد میں مفلوک الحالی بڑھ رہی ہے، جنگجو پہلے ہی اندر داخل ہیں اور اب اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مزید بے چینی پیدا کی جائے جس کے نتیجے میں سعودی حکومت کی مقبولیت کہیں سے کہیں جا گرے گی۔ اس کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو سعودی حکومت کے خلاف کسی بغاوت کی صورت میں عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ چاہے اس کے بعد ان کا حال وہی ہو جو قذافی کے بعد لیبیا کا اور صدام کے بعد عراق کا ہوا ہے مگر فوری طور پر سعودی حکومت کو عوامی حمایت دستیاب نہیں ہوگی۔ چوں کہ عمرہ اور حج پر ٹیکس سعودی حکومت کے نام پر لگایا گیا ہے اس لیے دیگر مسلمانوں کے اندر بھی سعودی شاہی خاندان سے وہ تعلق باقی نہیں رہے گا۔
آپ نے دیکھا کہ جنگ شام میں ہورہی ہے، خانہ جنگی کا شکار یمن ہے مگر اس کے اثرات دور بیٹھے سعودی عرب پر کیا پڑ رہے ہیں۔ کچھ ایسے ہی اثرات دیگر ممالک ترکی، ایران، قطر و دیگر عرب ممالک پر بھی ہیں۔ شمالی کوریا، چین، روس جیسے ممالک چوں کہ رسد فراہم کرنے والوں میں سے ہیں، اس لیے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ امریکا کا معاملہ ذرا سا مختلف ہے۔ امریکی حکومت کو جنگوں میں پھنسا کر وہی حال کیا گیا ہے جو دیگر جنگ زدہ ممالک کا ہے۔ امریکی حکومت اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے روز چار ارب ڈالر کا قرض ان ساہوکاروں سے لینے پر مجبور ہے۔ یہ قرض امریکی حکومت کو اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ وہ املا کرائے گئے احکامات پر عمل کرے۔ مزے ان امریکی کمپنیوں کے ہیں جو پنٹاگون سے روز ایک نیا ٹھیکا لیتی ہیں اور راتوں رات اربوں ڈالر پیٹ لیتی ہیں۔
اب ہم ان جنگوں کا مطلب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ نہ تو اسلام اور صلیب کی جنگ ہے اور نہ ہی عرب و غیر عرب کی۔ یہ جنگ شیعہ و سنی کی بھی نہیں ہے۔ یہ جنگ ہے انسان کو غلام بنانے کی اور دنیا پر شیطان کا غلبہ مکمل کرنے کی۔ اس میں انسان بہیمانہ طریقے سے مارے جارہے ہیں جو شیطان کے لیے باعث مسرت ہے۔ اس میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور بے سرو سامانی کے عالم میں ان کی بچیاں اور بچے اغوا کرکے قحبہ گھروں کی زینت بنادیے گئے ہیں، یہ امر بھی شیطان کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ تکلیف کے عالم میں اللہ کے بندے اللہ سے شاکی ہورہے ہیں، یہ بھی شیطان کے لیے اطمینان کا مقام ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔