(کراچی انٹر بورڈ ہی نشانہ کیوں؟

151

اینٹی کرپشن کے محکمے کا شمار یوں تو ان محکموں میں ہوتا ہے جو عملاً مردہ ہے۔ اس کا کہیں پر نہ تو کوئی عمل دخل رہ گیا ہے اور نہ ہی کہیں پر ذکر و فکر ہے۔ اس وقت سندھ جس بری طرح رشوت ستانی و بدعنوانی کا شکار ہے اتنا تو شاید دور افتادہ افریقی ممالک بھی نہیں ہوں گے۔ سندھ میں کسی بھی محکمے میں سائل داخل ہوتو پتا چلتا ہے کہ ہر کام کی ایک فیس مقرر ہے۔ آپ کا کام کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو اور تمام کاغذات کتنے ہی مکمل کیوں نہ ہوں، اگر رشوت نہ پیش کی گئی تو کام کبھی بھی نہیں مکمل ہوسکتا۔ پورا کراچی بے ہنگم تعمیرات کی زد میں ہے، اس کی واحد وجہ روزانہ کروڑوں روپے رشوت کی وصولی ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ وہ لوگ بھی نہیں جنہوں نے ان اداروں کے سربراہوں کا تقرر کیا ہے اور وہ بھی نہیں جو اس کے انسداد کے ذمے دار ہیں۔ پولیس اور عدالتوں کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ گھوسٹ ملازمین کا کیس سب کے سامنے ہے، اندرون سندھ اسکولوں کو اوطاق میں تبدیل کرکے اساتذہ کی تنخواہیں ہڑپ کرنے والوں کو سب جانتے ہیں، چائنا کٹنگ اب بھی جاری ہے اور اس کے ذمے دار بھی کوئی سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر غائب نہیں ہوگئے ہیں۔ پورا شہر تجاوزات کی زد میں ہے اور انہیں قائم و دائم رکھنے والوں کو بھی سب جانتے ہیں۔ مگر کوئی محکمہ، کوئی ذمے دار کہیں پر بھی نظر نہیں آتا۔ صوبے کی ساری بلدیات صرف اور صرف نوٹ چھاپنے کا کارخانہ بن چکی ہیں۔ عدالت عالیہ ابھی تک لاڑکانہ میں 90 ارب روپوں کا حساب مانگ رہی ہے جو لاڑکانہ کی بلدیہ نے ٹھکانے لگادیے مگر ترقیاتی کام کہیں پر نظر نہیں آئے۔ یہ رقم اب بڑھ کر 99 ارب تک پہنچ گئی ہے۔ مگر اینٹی کرپشن کا محکمہ کہیں پر نظر نہیں آتا۔
یہ محکمہ اگر کہیں پر زندہ نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف کراچی کا انٹر بورڈ ہے۔ گزشتہ ایک سال سے اینٹی کرپشن کا محکمہ انٹر بورڈ پر چڑھائی کیے ہوئے ہے۔ اس ایک برس میں محکمہ اینٹی کرپشن کے سارے بزر جمہر انٹر بورڈ میں ریت کے ایک ایک ذرے کو چھان چکے ہیں۔ چوں کہ گزشتہ امتحانات کی کاپیوں کی جانچ اور نتائج کی تیاری کا سارا کام اسی اینٹی کرپشن کے محکمے کے ماہرین کی زیر نگرانی انجام پایا۔ اس پورے عرصے میں اینٹی کرپشن کا محکمہ دوسرے الزامات کی بھی تحقیقات کرتا رہا مگر ایک لفظ ابھی تک ثابت نہیں کرپایا۔ اس اینٹی کرپشن کے محکمے کا وہی حال ہے جو امریکی حکومت کا ہے۔ امریکی حکومت نے انتہائی سنگین الزامات لگا کر سیکڑوں افراد کو گوانتا نامو بے جیل میں بند کر کے رکھا۔ ان پر انتہائی شدید تشدد بھی کیا جاتا رہا مگر مقدمہ کہیں پر نہیں چلا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان معصوم افراد کے خلاف یہ امریکی حکومت اپنے الزامات کا الف بھی ثابت نہیں کرسکتی تھی۔ پھر کئی لوگوں کو خاموشی سے آزاد بھی کردیا گیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ جو لوگ قید کیے گئے تھے اگر وہ مجرم تھے تو انہیں عدالت سے سزا کیوں نہیں دلائی گئی اور اگر معصوم تھے تو قید کیوں رکھا گیا۔ یہ مت سمجھیے کہ امریکی عدالتی نظام انتہائی شفاف ہے۔ یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایسی عدالتوں کے باوجود بھی امریکی حکومت گوانتا نامو بے کے قیدیوں کا کیس عدالت میں چلانے کی ہمت نہیں کرسکی۔
تازہ ایف آئی آر میں چار افراد نامزد کیے گئے ہیں مگر زور ناظم امتحانات عمران چشتی پر ہی ہے۔ ان کی گرفتاری کے لیے گھر و دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ عدم موجودگی پر خواتین اور بچوں کے ساتھ خالص پولیس اسٹائل میں بدتمیزی کی گئی اور ہراساں کیا گیا۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ عمران چشتی پر الزامات ہیں کیا؟ یہ الزامات ہیں کہ انہوں نے نچلے گریڈ سے تیز رفتار ترقی کی اور اپنے کئی ماتحتوں کو ترقی دے کر نوازا۔ اسے کرپشن کا نام دیا گیا۔ کیا یہ ایسے ہی الزامات ہیں کہ اس کے لیے گھروں پر چھاپے مارے جائیں۔
پولیس میں شولڈر پروموشن کو سب جانتے ہیں۔ کئی بار ان افسران کی تنزلی کی گئی مگر انہیں ترقی دینے والے کسی افسر کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں اور کوئی گرفتاری نہیں۔ سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی پر سپریم کورٹ میں ثابت ہوگیا کہ انہوں نے سیکڑوں افراد کو قواعد کے برخلاف بھرتی کیا اور ترقیاں دیں۔ صرف ایک مثال سے غلام حیدر جمالی کے کیس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک شخص سیف اللہ پھلپوٹو 1995 میں سندھ پولیس میں بطور سب انسپکٹر بھرتی ہوا۔ 2002 میں اسے گریڈ 16 میں ترقی دے کر انسپکٹر بنادیا گیا اور ڈپوٹیشن پر اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ میں تعیناتی دے دی گئی۔ بعد میں اسے گریڈ 17 اور پھر گریڈ 18 میں ترقی دے کر ڈپٹی ڈائریکٹر بنادیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کی تمام تر برہمی کے باوجود غلام حیدر جمالی کے خلاف نہ تو کوئی ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی گرفتاری کی کوئی کوشش کی گئی۔ عدالت روز پرویز مشرف کی گرفتاری کی ہدایت دیتی تھی مگر پولیس بتاتی تھی کہ پرویز مشرف کا اتا پتا معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کے سارے ہی لیڈروں کے روز ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوتے ہیں۔ یہ سب سرکاری تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں اور جلسے جلوس کی قیادت بھی کرتے ہیں مگر پولیس کو ان کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ ابھی ایک ہفتے قبل ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں 62 بلڈنگ انسپکٹروں کی گریڈ 18سے 16 میں تنزلی کی گئی ہے۔ جس نے بھی ان کو خلاف قانون ترقی دی تھی، کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں، کوئی گرفتاری نہیں۔
اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر عمران چشتی نے تیز رفتار ترقی کی تو اس نے خود تو یہ ترقی نہیں کرلی۔ جس جس نے عمران جشتی کی ترقی کی دستاویز پر دستخط کیے، انہیں بھی تو کورٹ میں بلایا جائے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ غلام حیدر جمالی کیس میں جمالی سے کورٹ نے پوچھا تھا کہ کس طرح پھلپوٹو کو ترقی دی گئی اور یہ ڈپوٹیشن پر کیوں ہے مگر نہ تو پھلپوٹو کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی گرفتار کیا گیا۔ بات یہ ہے کہ اگر سرکار کو عمران چشتی کی شکل اچھی نہیں لگتی یا انہیں انٹر بورڈ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی طرح سونے کی چڑیا لگتا ہے تو عمران چشتی کو ہٹائیں اور انہیں جو پسند ہے اسے لگادیں۔ دیگر محکمے بھی تباہ ہوگئے تو کسی نے کیا کرلیا، انٹر بورڈ بھی تباہ ہوگیا تو کوئی کیا کرلے گا؟ مگر اس طرح کراچی کے تعلیمی بورڈز کو نشانہ تو نہ بنائیں۔ اس طرح کی پولیس گردی کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان سے باہر تو دور کی بات ہے، اب پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی انٹر بورڈ کے سرٹیفکٹ کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اب ہر طالب علم کی اسناد کو اسی طرح مشکوک سمجھا جاتا ہے جس طرح پاکستان سے باہر ہر پاکستانی کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو محکمہ اینٹی کرپشن کے معاملات کو سدھارنے کی ضرورت ہے کہ ایک سال میں یہ محکمہ بورڈ میں کوئی تیر نہیں مارپایا تو اب نئی ایف آئی آر کا اندراج کیوں۔ محکمہ اینٹی کرپشن میں تعینات سیف اللہ پھلپوٹو جیسے افراد جو خود مشکوک ترقی سے ڈپٹی ڈائریکٹر جیسے عہدوں پر بیٹھے ہیں، وہ کیا منصفانہ تحقیقات کرسکتے ہیں۔