کراچی (رپورٹ:قاضی عمران احمد) کراچی سمیت سندھ بھر میں ہیپا ٹائٹس کا مرض بہت تیزی سے وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، گزشتہ10 سال میں اس مرض میں 100 فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب ہیپا ٹائٹس پروگرام کے ذمے داران ملنے والے سالانہ بجٹ کو غیرضروری استعمال میں لا رہے ہیں، سفارشی بھرتیوں نے اس پروگرام کو انتہائی غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی میں10 لاکھ افراد مختلف نوعیت کے ہیپا ٹائٹس کا شکار ہیں جب کہ پاکستان میں یہ تعداد30لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں سے زیادہ یہ مرض دیہی علاقوں میں پھیل رہا ہے، طبی ماہرین اس مرض کی بڑی وجوہ آلودہ پانی کا استعمال، ناقص و غیر متوازن غذا، استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال اور آلودہ ماحول کے کیمیائی اثرات بتاتے ہیں۔ اس وقت سندھ میں کراچی کے علاوہ ساکرو، گھارو، بوہارو، کیٹی بندر اور ٹھٹھہ میں ہیپا ٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے، جب کہ پنجاب کے شہری و دیہی علاقے بھی اس کا شکار ہیں، جن علاقوں میں سیلاب آتا ہے وہاں خاص طور پر اس مرض کا سدباب ہونا ازحد ضروری ہے کیوں کہ یہاں کا پانی کافی حد تک آلودہ ہو چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مرض تشخیص سے لے کر علاج تک اتنا مہنگا ہے کہ غریب تو غریب متوسط طبقہ بھی اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ سندھ کے اکثر علاقوں اور دیہات میں لوگوں کی اکثریت اس سہولت سے بھی محروم ہے کہ اسے قرب و جوار کے اسپتالوں میں ہیپا ٹائٹس کے علاج کی سہولتیں میسر ہوں، کراچی کے سول اسپتال میں پورے سندھ کے غریب و متوسط طبقے کے لوگ اس مرض سے نجات کے لیے آتے ہیں مگر ناکافی سہولتوں اور تمام مریضوں کو بروقت طبی امداد کا نہ ملنا شدید مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سماجی این جی اوز کے مطابق سندھ میں طبی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں مریض لقمہ اجل بن رہے ہیں، اس سلسلے میں فوری طور پر محکمہ صحت اور حکومت سندھ کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں بغیر وقت ضائع کیے ہیپا ٹائٹس کی جملہ سہولتیں فراہم کرنی ہو ں گی تاکہ اس مرض کا سد باب کیا جا سکے، ساتھ ہی سیلاب زدہ علاقوں میں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ وہاں کم ازکم پینے کے لیے صاف ستھرا پانی میسر ہو۔ دوسری جانب کراچی سمیت سندھ بھر میں کاشت کی جانے والی سبزیوں، پھل و دیگر کھانے کی اجناس میں آلودہ پانی کے استعمال کو روک کر متبادل ذریعہ تلاش کرنا ہو گا، سرنجوں کا دوبارہ استعمال جرم قرار دیا جائے جب کہ ماحولیاتی آلودگی روکنے کے لیے بھی جلد ازجلد اقدامات کرنے ہوں گے۔