جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ تحریک انصاف فوجی عدالتوں کے معاملے پر مذہبی طبقے کو ریاست کے مقابلے پر لانے ی کوشش نہ کرے،اسٹیبلشمنٹ کے کسی مذہب و مسلک کے خلا ف ہونے کی رپورٹ نہیں ملی۔
جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےجے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر ہمیں پہلے بھی تحفظات تھے اب بھی ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا موجودہ صورتحال میں نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت بڑھ گئی ہے یا نیشنل ایکشن پلان ناکام ہوچکا ہے کیا فوجی عدالتوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے یا فوجی عدالتیں ناکام ہوچکی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جے یو آئی ف کا واضح موقف ہے کہ سارے قانون کو مذہب اور فرقوں کے ساتھ وابستہ کیا جارہا ہے اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ہم ایسے کسی قانون کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امن چاہئے اگر پوری پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہونی چاہئے تو ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ ناپسندیدگی اور کراہیت کے ساتھ اسے قبول کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مذاہب اور فرقوں کو ریاست کے مقابل لانا ریاست کی نفی اور ملکی مفاد کے منافی ہے ہر مکتبہ فکر کے مدارس آئین‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں تاہم کسی داڑھی والے کو پکڑ کر یا کسی کو چارپائی سے اٹھا کر یہ پیغام کیوں دیا جارہا ہے کہ ریاست ان کے ساتھ نہیں ہے ریاست کو ان کے مقابلے میں لاکھڑا کیا جارہا ہے ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے جس سے لگتا ہے کہ جیسے ریاست کو مذہبی طبقے سے لڑانے کی سازش کی جارہی ہو ہم کسی قیمت پر بھی اس سازش کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں امن کے لئے سب ایک پیج پر ہیں انہیں سب ساتھ مل کر چلیں تاہم قانون میں کسی متنازعہ لفظ کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ متنازعہ لفظ کا استعمال کیا گیا ہو تو مخصوص طبقے کے خلاف امتیازی سلوک کا تاثر جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی تجویز درست ہے۔ فوجی عدالتوں کی دو سالہ کارکردگی کیا ہے اس حوالے سے آج جو سوال پیدا ہورہے ہیں اگر کمیٹی قائم ہوتی تو یہ سوال پیدا نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سے کسی خیر کی توقع نہیں پھر بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر مذہب و فرقوں کو ریاست کے مقابل نہ لائے ریاست کے خلاف لڑنے والے کئی طرح کے لوگ ہیں ایک کو چھوڑ دیں دوسرے کو پکڑ لیں یہ درست نہیں ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گرد سمجھ کر کارروائی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ دو دہشت گردوں کی پاداش میں جن کا یہ بھی نہیں پتا کہ کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہاں سے آئے پوری پختون قوم کو نہ رگڑا جائے۔ پٹھانوں اور پختونوں کے بازار تباہ کردیئے گئے وہ روزگار کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ایسے اقدامات سے برادریوں کے درمیان عدم اعتماد اور چھوٹی قوموں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا قومیت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے میری بات مان کر فوجی عدالتوں سے متعلق کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کرکے اپنا نامئندہ بھیجا ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اسٹیبلشمنٹ کو کسی ایسی چیز سے تو دلچسپی ہوسکتی ہے جس سے دہشت گردوں کے خلاف ان کے ہاتھ کھول دیئے جائیں تاہم ان کے کسی مذہب یا مسلک کے خلاف ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ بات چیت جمہوریت کا حسن ہے تاہم مذہب اور فرقوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تو کسی صورت ایسے قانون کی حمایت نہیں کریں گے۔