کیا مسلمان شکنجے میں کسے جاچکے ہیں ؟

95

کیا دنیا بھر میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا مشن اپنے ا?خری مراحل میں ہے ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر گفت گو ا?ج کی اہم ترین ضرورت ہے مگر افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اس پر گفت گو تو کیا کوئی غور بھی کرنے پر راضی نہیں۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کون سا اسلامی ملک ہے جو جنگ میں براہ راست ملوث نہیں۔ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ایک دو ملکوں کو چھوڑ کر کون سا اسلامی ملک ہے جو براہ راست جنگ میں شریک نہیں۔ یا تو اسلامی ممالک میں جنگ ہورہی ہے یا پھر وہ جنگ کے لانچنگ پیڈ کے طور پر ہم راہ ہیں۔ عرب ممالک ہوں یا پھر دیگر ایشیائی مسلم ممالک، ان کی اقتصادیات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں اور وہ بال بال قرض میں جکڑے جاچکے ہیں جو کہ غلامی کی پہلی منزل ہے۔ اب رہ گئے وہ ممالک جہاں پر مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ برما جیسے ممالک میں مسلمان سرکاری طور پر نسل کشی کا شکار ہیں جبکہ بھارت جیسے ممالک میں انہیں سرکاری سرپرستی میں پسماندگی کی ا?خری حد تک دھکیل دیا گیا ہے۔ چین سمیت تمام کمیونسٹ ممالک میں مسلم ا?بادی پر جبر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کے بعد امریکا، یورپ اور مغربی خطے میں موجود ممالک بچتے ہیں، جہاں پر مسلم اقلیت اطمینان سے زندگی بسر کررہی تھی۔ مسلم ممالک سے ان مغربی ممالک میں جابسنے والے تارکین وطن اسی لالچ میں نہ چاہتے ہوئے بھی رہ رہے تھے کہ نسلی تعصب اپنی جگہ ، مگر سرکاری طور پر وہ مساویانہ سلوک کے حق دار تھے۔ تاہم اب یہ صورت حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
امریکا میں ٹرمپ نے سرکاری طور پر تارکین وطن کے خلاف جنگ کا اعلانیہ ا?غاز کردیا ہے۔ امریکا وطن کہلاتا ہی تارکین کا ہے۔ تاہم قدیم تارکین نو ا?مدہ تارکین وطن کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ اگر قدیم ہسپانوی ، انگریز اور پرتگالی تارکین وطن کواصل امریکی تصور کرلیا جائے اور غلام بنا کر لائے جانے والے افریقیوں سے بھی صرف نظر کرلیا جائے تو موجودہ تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق مشترکہ سرحد رکھنے والے میکسیکو سے ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا کے تارکین وطن کا نمبر ا?تا ہے۔ ایشیائی تارکین کی بھی بڑی تعداد بھارت ، سری لنکا اور چین سے تعلق رکھنے والے تارکین پر مشتمل ہے۔ مگر سارا نزلہ مسلمانوں پر ہی گررہا ہے۔ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو دہشت گرد کے متبادل کے طور پر پیش کردیا گیا ہے۔ ہر مسلمان مجرم ہے چاہے وہ امریکا میں پیدا ہوا ہے اور ناسا میں اہم عہدے پر کام کرتا ہے۔ باہر سے اپنے وطن امریکا ا?تے ہوئے اسے ائرپورٹ پر روک بھی لیا جائے گا اور اس کا موبائل فون بھی ضبط کرلیا جائے گا۔ اسکارف پہننے والی ہر عورت مشتبہ ہے چاہے وہ مشہور اداکارہ لِنڈسے لوہان ہی کیوں نہ ہو۔
ایسی صورتحال میں مسلمان کس کرب سے گزر رہے ہیں، اس کا بہتر اندازہ یورپ و امریکا میں بسنے والے مسلمان ہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی اچانک سے رونما ہونے والی صورتحال نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی واقعات کے نتیجے میں سب کچھ ہورہا ہے۔ ٹرمپ نے تو جنوری میں اقتدار سنبھالا ہے مگر اس سب کا اسکرپٹ بہت پہلے لکھا گیا تھا اور ٹرمپ سمیت دیگر اداکار اب اپنے اپنے حصے کے اسکرپٹ کے مطابق اداکاری کے جوہر دکھارہے ہیں۔
امریکا کے حالات تو سب ہی جانتے ہیں، مگر یورپ کے حالات سے لوگ کم ہی واقف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا پر اس بارے میں مکمل بلیک ا?و?ٹ ہے۔ گزشتہ کئی برس سے فرانس میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک پروان چڑھائی گئی ہے تاہم اسے عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے شارلی ہیبڈو جیسے واقعات کروائے گئے۔ اس سے قبل بھی فرانس میں حملے کروائے گئے جس کا ذمے دار مسلمانوں کو ٹھیرایا گیا تاہم شارلی ہیبڈو کے بعد مسلمانوں کے خلاف مہم میں نئی جان پڑ گئی۔ پہلے مسلمانوں کے خلاف مہم کے لیے دھماکے اور حملے کروائے گئے اور دوسرے مرحلے میں ردعمل کے نام پر دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کو میڈیا کے محاذ پر مقبولیت دلوادی گئی۔ گزشتہ جون کے بعد فرانس ایک مرتبہ پھر سے فسادات کی زد میں ہے۔ وہی عمل اور ردعمل والا کھیل ہے۔ پہلے پولیس کی زیادتی، اس پر مظاہرہ، اس مظاہرے میں پولیس کے 4 اہلکاروں کی جانب سے ایک 22 سالہ نوجوان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا اور پھر مظاہروں کا ختم نہ ہونے والا ایک نیا سلسلہ، ہر روز پولیس کی جانب سے مزید درندگی اور دائیں بازو کے لیڈروں کی جانب سے ان واقعات پر پٹرول کا کام کرنے والے احمقانہ بیانات۔ اس سب کے نتائج حسب منشا حاصل ہورہے ہیں یعنی معاشرہ قطبین میں تقسیم ہورہا ہے۔ ایک طرف مسلمان ہیں تو دوسری جانب مسلم مخالف۔ چونکہ مسلم مخالف گروہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اس لیے وہ جو کچھ بھی کریں گے، قانونی ہوگا۔
عوام میں اس کے کیا نتائج رونما ہورہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیرس کے ایک گن کلب کے ارکان کی تعداد صرف 2 ماہ میں 4 گنا ہوگئی ہے۔ پہلے اس کے ارکان کی تعداد 200 تھی جو اب 800 ہوچکی ہے اور اس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ ہورہا ہے۔ امریکا میں ہر شخص ہتھیار رکھنے کا اہل ہے اورا س کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے جبکہ برطانیہ میں کسی کو بھی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہے چاہے وہ کسی گن کلب کا رکن ہی کیوں نہ ہو۔ فرانس میں گن کلب کے ارکان اپنے ذاتی ہتھیار رکھنے کے اہل ہیں۔ گن کلب کے منتظم کے مطابق پرانے ارکان گن اسپورٹس کے رسیا تھے جبکہ نئے اراکین صرف اور صرف اپنے پاس ہتھیار رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں موثر طور پر استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ گن کلب کے نئے ارکان کلاشنکوف تک چلانا سیکھ رہے ہیں۔ جنوبی فرانس کے ایک علاقے کا منتخب ہونے والا میئر جوناتھن ملر مشہور ٹی وی چینل سی این بی سی کی ویب سائٹ کے لیے اپنے 18 جولائی 2016ء4 میں لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون میں کہتا ہے کہ خود میرے گاو?ں کے ا?دھے سے زیادہ رائے دہندگان نے دائیں بازوہ کی پارٹی کو ووٹ دیا۔ وہ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ سب لوگ نئے فاشسٹ ہیں۔ پھر لکھتا ہے کہ نہیں بلکہ یہ سب لوگ خوفزدہ ہیں۔ یہ خوف ا?خر پیدا کس نے کیا ہے ؟ یہ سب میڈیا کا کمال ہے۔ کبھی میڈیا گرما گرم خبر دیتا ہے کہ مسلم تارکین وطن نے ایک فرانسیسی دوشیزہ کی اجتماعی عصمت دری کی اور کبھی خبر دیتا ہے کہ مسلم انتہا پسندوں نے دھماکے کرکے کتنے معصوم فرانسیسی ماردیے۔ اس کے نتیجے میں فرانسیسی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ فرانس میں تازہ صورتحال یہ ہے کہ دشمن کے خلاف جنگ شروع کردی گئی ہے مگر اسے ابھی تک کوئی رسمی نام نہیں دیا گیا ہے۔ اسی طرح فرانسیسی ریاست کے خلاف بھی ایک سول وار شروع کردی گئی اور اسے بھی کوئی نام نہیں دیا گیاہے۔
فرانس میں انٹیلی جینس ایجنسی جنرل ڈائریکٹریٹ فار انٹرنل سیکورٹی، برطانوی ایجنسی ایم ا?ئی فائیو کا ہم پلہ ادارہ ہے جو ملک کے اندر دہشت گردی کی روک تھام کا ذمے دار ہے۔ اس ایجنسی کے سربراہ پیٹرک کالوار کا کہنا ہے کہ اس وقت فرانس سول وار کے دہانے پر ہے۔ اس نے کہا کہ گزشتہ برس نومبر تک دہشت گردوں کے ہاتھوں 147 افراد مارے گئے اور تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذمے دار فرانسیسی پاسپورٹ کے حامل شمالی افریقا سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ اس کے نتیجے میں دائیں بازو کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے لیے دباو? بڑھتا جارہا ہے۔
بات یہیں تک محدود نہیں رہی ہے کہ فرانسیسی حکومت مسلمانوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے بلکہ بات اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ فرانسیسی حکومت نے اسرائیلی حکومت سے مدد طلب کرلی ہے۔ اسرائیلی امداد کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بدترین تشدد کا استعمال۔ اس کی ایک جھلک ہمیں 2 فروری کو ہونے والے مظاہرے میں نظر ا?ئی جب فرانسیسی پولیس کے 4 اہلکاروں نے ایک مسلم نوجوان کو جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی مدد سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے ا?پریشن کو ا?پریشن رونسس Operation Ronces کا نام دیا گیا ہے۔
فرانس میں جاری اس مہم کے اثرات ہم اس کے پڑوسی ملک جرمنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں جہاں سے روز جہاز بھر بھر کر تارکین وطن کو ملک سے باہر نکالا جارہا ہے۔ یہ ہنگامے صرف فرانس میں ہی نہیں ہورہے بلکہ سوئیڈن جیسا پرامن ملک بھی اس کی لپیٹ میں ا?چکا ہے۔ فروری میں ہی سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم اور اس کے نواحی علاقے فسادات کا شکار رہے اور یہاں پر بھی تارکین وطن کو بے دخل کرنے کی مہم زور پکڑ چکی ہے۔ چونکہ سوئیڈن اسکینڈے نیوین ممالک میں شامل ہے اس لیے اسٹاک ہوم میں ہونے والے ہنگاموں کے اثرات ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ تک بھی پہنچ چکے ہیں۔
فرانس کے معاملات سے ہم بہ ا?سانی دنیا کو سمجھ سکتے ہیں۔ اب دوبارہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ مسلم ممالک یا تو براہ راست جنگ کا شکار ہیں یا پھر ان کی سرزمین اس جنگ کے لیے استعمال ہورہی ہے اور نتیجے میں پاکستان ، سعودی عرب و ترکی کی طرح وہ بھی دہشت گردی کو بھگت رہے ہیں۔ برما، کشمیر اور فلسطین کی طرح دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے۔ یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے خلاف سرکاری سرپرستی میں سول وار شروع کردی گئی۔ حکومت مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاو?ن کررہی ہے جبکہ دائیں بازو کے انتہا پسند مسلمانوں کا شکار کھیل رہے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، بازاروں اور سڑکوں پر مسلم خواتین کے سروں سے اسکارف کھینچ لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ موجود مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ماسک پہنے ہوئے نوجوان مسلم کاروبار پر حملے کرتے ہیں اور مسلم نظر ا?نے والے افراد پر چاقو زنی کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔
اس طویل پس منظر کو جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ سب ا?خر کیوں ہورہا ہے۔ کیوں ا?خر پوری دنیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے پر متفق ہوگئی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایک جگہ ایسی نہیں بچی ہے جہاں پر مسلمان عزت و ا?برو کے ساتھ رہ سکیں۔ کینیڈا جیسا ایک ا?دھ جزیرہ اگر بچا بھی ہے تو جلد ہی وہاں پر بھی یہی صورتحال پیش ا?نے کے خدشات ہیں۔ یعنی مسلمانوں کے نام سے دھماکے ، فائرنگ اور پھر اس کے نتیجے میں میڈیا مہم اور مسلم نفرت میں اضافہ۔
اس سوال کا جواب انتہائی سیدھا ہے۔ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بنائی ہی اس لیے گئی ہیں کہ مسلم دشمنی کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ ٹرمپ جیسے لیڈروں کو پیدا کرکے انہیں اسی لیے اقتدار تھمایا گیا ہے کہ ردعمل کے نام پر دنیا کو فساد میں مبتلا کر دیا جائے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر دنیا قطبین میں تقسیم نہیں ہوگی اور امن و امان کے مسائل نہیں پیدا ہوں گے تو دنیا کو غلام کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ جدید دنیا میں انسان سے جتنی بھی ا?زادی سلب کی گئی ہے وہ اس کی اپنی سیکورٹی کے نام پر کی گئی ہے۔ اب یورپ و امریکا کے باسیوں کو غلام بنانے کی باری ہے۔ اس کے لیے پہلے انہیں بے مقصد جنگوں میں پھنسایا گیا اور اس کے نتیجے میں قرض کی دلدل میں غرق کردیا گیا۔ پھر دھماکے اور فائرنگ کرکے سول وار میں مبتلا کردیا گیا ہے اور اب لوگ اپنے ہمسائے سے بھی خوفزدہ ہیں اور ایک دوسرے کا شکار کھیل رہے ہیں۔ یہی راستہ نیو ورلڈ ا?رڈر کی طرف لے کر جاتا ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے ا?س پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔