جہیز پر پابندی کے قانون سے معاشرے میں تبدیلی آئیگی، راشدہ رفعت
حالات نے ہمیں اپنی روایات سے ہٹا دیا تھا ، جماعت اسلامی کے بل کو معاشرے کے ہر طبقے کی
طرف سے سراہا جارہا ہے، رکن اسمبلی خیبر پختون خوا کا عالمی یوم خواتین کے موقع پر جسارت کو انٹرویو
سوال: آپ نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں جہیز پر پابندی کے حوالے سے جو بل پیش کیا ہے اس کی تفصیلات اور پس منظر کیا ہے؟
جواب: جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان اور وابستہ تمام لوگ ہم سب لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں، لوگوں کو ہم جہیز کی کچھ چیزیں فراہم کرتے ہیں تو کبھی دوائیوں کے لیے اور کبھی کسی اور حوالے سے ان کی مدد کرتے ہیں یعنی مسلسل ایک خدمتی کام ہمارے تنظیمی اور دعوتی کام کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں جو سب سے اہم چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ جہیز کا معاملہ ہے اور لوگ مطالبہ بھی کرتے ہیں، اس میں بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ جہیز دینے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے چوں کہ ہم لوگوں ہی کے درمیان میں ہیں تو ہمیں مسائل کا ادراک ہے تو پھر میں نے سوچا کہ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی جانب سے ایک بل بننا چاہیے جس کا ایک سیاسی قد ہے، سیاسی فورم ہے اور ویلفیئر فورم ہے اور لائرز فورم ہے خواتین لائرز کا، ان سے میں نے کہا تو انہوں نے یہ بل ہمیں بنا کر دیا۔ یہاں پر اس کی نوک پلک اسمبلی کے حوالے سے اس طرح درست ہوئی کہ تمام متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے پاس سے منظور ہو کر آ گیا تو پھر اسی کے لحاظ سے میں نے اسے جمع کرا دیا اور اب کئی مہینوں بعد یہ اب آ گیا ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ لابنگ کی ہے، ملاقاتیں کیں، کافی لوگوں کو ساتھ ملایا کہ کسی طرح بل ایجنڈے پر لے آئیں۔ اب یہ ایجنڈے پر آ گیا ہے اور پیش ہو گیا ہے۔ ان شاء اللہ نئے سیشن میں یہ منظور بھی ہو جائے گا۔
سوال: اس کی وضاحت بھی کیجیے کہ جہیز خیبر پختون خوا میں کتنا حقیقی اور بڑا مسئلہ ہے کہ آپ کو بل لانے کی ضرورت پیش آئی؟
جواب: بہت عرصہ پہلے عمومی طور پر پختون عوام میں یہ رواج نہیں تھا لیکن یہ بھی تھا کہ اگر کسی جائیداد میں لڑکی کا حصہ ہے تو اس کی شادی بڑی مشکل سے ہوتی ہے یا تو خاندان کا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ بیٹھی رہ جاتی ہے، خاندان سے باہر اس کی جائیداد نہیں جانی چاہیے اور اس کا ذہن اسی طرح کا بنا دیا جاتا ہے کہ مجھے شادی ہی نہیں کرنی۔ اس طرح کئی رشتے ٹوٹنے کی بات آئی ہے۔ یہ تو پرانی بات تھی، پہلے بارات کا استقبال بھی نہیں کرتے تھے، بارات بالکل گیٹ کے باہر کھڑی رہتی تھی اور یہ لڑکی کو باہر بلا کر دے دیتے تھے، گھر میں قدم ہی نہیں رکھنے دیتے تھے جو بہت ہی معیوب لگتا تھا۔ لڑکی کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے۔ لڑکے والے اس کا سب کچھ خود بناتے تھے فرنیچر بھی اور اس کی تمام ضروریات کی چیزیں وغیرہ۔ دیکھ دیکھ کے اب تو یہ صورت حال ہے کہ سوات ڈویژن میں تو اتنی عجیب حالت ہو گئی ہے کہ دلہا دولہن کے پورے خاندان کو دو سو، تین سو جوڑے دیتے ہیں، اب تو بہت بڑا جہیز بھی دینا شروع کر دیا ہے۔ ان کی اپنی روایات تو اب قریباً ختم ہی ہو گئی ہیں حالاں کہ وہ بہت اچھی روایات تھیں۔ اب جب بہت سارے لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ شادی ٹوٹ گئی ہے یا منگنی ٹوٹ گئی ہے یا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ مطلب یہ کہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس طرح کے بہت سے مسائل ہمارے سامنے آئے تو ہم نے یہ بل پیش کیا۔ ابھی روزانہ مجھے کوئی نہ کوئی اخبار والے میل یا وہاٹس اپ کر دیتے ہیں کہ فلاں جگہ کی سماجی رہنما نے بڑا سراہا ہے۔ پورے صوبے میں یہ بل بہت سراہا جا رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس بل میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو قابل اعتراض ہیں اور ان پر پابندی لگنی ضروری ہے۔ اس سے پختون معاشرے میں تبدیلی آئے گی۔ اصل پختون روایات کو سامنے لایا جائے کہ اصل میں تو آپ یہ تھے۔ اسی لیے ہم نے یہ بل متعارف کرایا ہے۔
سوال: آپ کا مطلب یہ ہے کہ پختونوں کی اپنی روایات تھیں، مردان، سوات اور دیر سمیت ایک بہت بڑے حصے میں کہ پاکستان کے تمام حصوں کے برعکس شادی کے تمام اخراجات لڑکا برداشت کرتا تھا۔ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس طرح کی روایات ختم ہو گئی ہیں اور ضرورت تھی کہ اس طرح کا بل پاس کیا جائے؟
جواب: میرے شوہر کے سب سے بڑے بھائی کی شادی بہت پہلے ہوئی تھی، 70ء میں ان کی شادی ہوئی تھی، اس وقت جہاں بارات لے کر گئے تھے وہاں لوگوں نے بالکل بارات کا استقبال نہیں کیا اور ان لوگوں نے بالکل نہیں پوچھا کہ بارات کو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جائے۔ لڑکی یعنی ہماری بھابھی کا جو بہنوئی تھا وہ ہمارے جیٹھ کا دوست تھا، اس نے اپنے دوست کی خاطر اپنی طرف سے بارات کے کھانے اور چائے وغیرہ کا انتظام کیا۔ استقبال تک نہیں کرتے تھے لیکن اس کے برعکس انہوں نے اپنی بیٹی کو بہت سا سونا، فرنیچر، زیور وغیرہ یعنی کہ اس لحاظ سے بہت سا پیسہ دیا، چالیس پینتالیس تولے سونا دیا۔ دوسری بات یہ کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور ان کے پاس جو جائیداد تھی وہ انہوں نے بیٹیوں میں تقسیم کر دی تھی۔ اگر بیٹا ہوتا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے۔
سوال: بل کے چیدہ چیدہ نکات بتائیے کہ اس کے پاس ہونے سے کس طرح تحفظ ملے گا؟
جواب: بل میں ہے کہ لڑکی کی طرف سے کوئی کھانا وغیرہ نہیں ہوگا سوائے مشروب یعنی کولڈ ڈرنک یا چائے وغیرہ پلا دیں، صرف مشروب ہوگا۔ لڑکی کے والدین، رشتے دار، احباب اور دوست وغیرہ تحائف دے سکتے ہیں مگر کسی تحفے کی قیمت 10 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اور لڑکے والے ہی فرنیچر اور ضروریات کی چیزوں کا انتظام کریں گے اور لڑکے والے ولیمہ کریں گے چاہے جتنے افراد کے لیے بھی کریں لیکن کریں ضرور۔ شادی پر 75 ہزار روپے سے زیادہ خرچہ نہیں آنا چاہیے۔ یہ خرچہ شادی ہال کے علاوہ ہے۔ کچھ شادی ہال کے مالکان ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اس طرح تو ہمارا کاروبار ختم ہو جائے گا تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ خرچہ شادی ہال کے علاوہ ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو شادی ہال جاتے ہوں گے ورنہ عموماً لوگ اپنے گھروں کے باہر گلی میں شامیانے لگا کر شادی کر لیتے ہیں اور بعض لوگ تو شامیانوں کے بغیر بھی شادی کرلیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس اتنی بھی رقم نہیں ہوتی۔ ایک ڈش کی اجازت ہو گی، ایک کوئی سالن وغیرہ اور ایک میٹھا۔ انواع اقسام کے کھانوں کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہاں بڑے لوگ بیورو کریٹس یا ارکان پارلیمان عموماً شہروں میں رہتے ہیں اور گاؤں میں ان کے رشتے دار یا نوکر چاکر ہوتے ہیں یہ لوگ کئی کئی ولیمے کرتے ہیں، ایک گاؤں کے لوگوں کے لیے، ایک رشتے داروں کے لیے اور ایک دوستوں کے لیے۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اس میں تین ماہ قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ ہوگا ان ماں باپ پر جو زیادہ کریں گے یا وہ لوگ جو 10 ہزار سے زائد کے تحائف لائیں گے۔
سوال: ہمارے یہاں قوانین تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ غالباً جہیز کے حوالے سے بھی قوانین موجود ہیں اور پابندی پہلے بھی لگی ہے، یہ بل ان سے کتنا مختلف ہے؟
جواب: ہمارے صوبے پہلے سے ایسا کوئی بل موجود نہیں تھا، مرکز میں بھی ایسا نہیں ہے۔ پنجاب میں ون ڈش کا قانون ہے۔ ہم جو بل لے کر آئے ہیں یہ ایک مکمل بل ہے اس سے پہلے اس طرح کا بل نہیں تھا۔ پنجاب میں بھی ون ڈش کی پابندی کچھ عرصہ رہی پھر ختم ہو گئی۔ اگر حکومت کی طرف سے دباؤ رہے تو لوگوں میں خوف رہتا ہے۔