آلودہ ماحول دنیا بھر میں ہر سال 17 لاکھ بچوں کی اموات کا باعث ہے۔ عالمی ادارہ صحت

160

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ آلودہ ماحول دنیا بھر میں ہر سال 17 لاکھ بچوں کی اموات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ ہوش ربا اعداد و شمار دنیا بھر میں مختلف وجوہ سے ہونے والی اموات کا ایک تہائی حصہ بنتے ہیں۔ عالمی ادارے کے مطابق بچوں کی اتنے بڑے پیمانے پر اموات میں غیر صحت مند اور آلودہ ماحول بشمول گندا پانی اور ہوا، سگریٹ نوشی اور حفظان صحت کی ناکافی سہولتیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بے تحاشا گندا اور آلودہ ماحول بچوں کو جان لیوا امراض اسہال، ملیریا اور نمونیے میں مبتلا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچے ہر سال مر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی میں بھی بلدیاتی اداروں کی غفلت اور نا اہلی کی وجہ سے جگہ جگہ لگے کچروں کے ڈھیر اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نا اہلی کے سبب ابلتے گٹر وبائی امراض میں کئی گنا اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

ما ہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کاربن کے اخراج کے لحاظ سے تنزلی پا کر دنیا میں دوسرے نمبر سے آٹھویں نمبر پر ضرور آگیا ہے مگر کراچی گلوبل وارمنگ کے اثرات سے قطعاً محفوظ نہیں، بے ہنگم ٹریفک، بلند وبالا عمارتیں، کچرے کا جمع ہونا اور جلنا، درختوں کی کٹائی اور کاشت کا شہر کی ضروریات کے مطابق نہ ہونا اور صنعتی گیسوں کا فضائی آلودگی میں اضافہ کرنا کراچی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے، بارشوں کا نہ ہونا یا کم ہونا پہلے ہی کراچی کی صورت حال کو تبدیل کر رہا ہے جس کی وجہ سے نت نئی بیماریاں اور جراثیم شہر میں پیدا ہو کر شہریوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

کر اچی میں یومیہ جمع ہونے والے 12 ہزارمیٹرک ٹن کچرے میں سے محض 5 ہزار میٹرک ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، بلدیاتی اداروں کی اس مجرمانہ غفلت نے لاکھوں شہریوں کو مختلف اقسام کے امراض میں مبتلا کر رکھا ہے، 15 لاکھ سے زائد شہری بلدیاتی اداروں کی اس غفلت، بے پروائی اور مجرمانہ بے حسی کے باعث متعدی امراض میں مبتلا ہوکر سرکاری، غیر سرکاری اسپتالوں اور دوا خانوں سے رجوع کرتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہوتی ہے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں، مرکزی شاہراہوں، گلیوں، چوکوں، فٹ پاتھوں اور بازاروں میں لگے ان کچرے کے ڈھیروں میں افزائش پانے والے جراثیم، حشرات الارض، مکھیوں، مچھروں اور ان سے اٹھنے والے تعفن نے شہریوں کو سانس، پیٹ، جگر، پھیپھڑوں سمیت دیگر مہلک اور خطرناک امراض کا آسان شکار بنا دیا ہے۔

کچرے کے ان ڈھیروں کو سیوریج کا گندا پانی گیلا کر دیتا ہے، گیلا کچرا مستقل پڑا رہے تو چند دنوں میں سوکھ کر اپنا آدھا وزن ختم کر دیتا ہے جو شہر کے مختلف مقامات پر جلا دیا جاتا ہے، یہ جلایا جانے والا کچرا سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس سے آس پاس کی آبادی میں طبی ماہرین کے مطابق آنکھوں میں انفیکشن، دمہ، گلے کی مختلف بیماریاں، ناک میں سوزش اور گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بہت سا کچرا ملیر و لیاری سمیت دیگر ندی نما جگہوں پر آلائشوں کو دفنانے کی طرز پر بنائی جانے والی خندقیں کھود کھود کر زمین برد کیا جاتا ہے جو زیر زمین اپنے مضر اثرات جمع کرتا رہتا ہے۔