صفائی ستھرائی سے ’پاک‘ 100 روزہ صفائی مہم

267

ایم کیو ایم اور بلدیہ کراچی کی 100 روزہ صفائی مہم بھی ناکام ہوگئی۔مگر کامیابی کے دعوؤں نے ایم کیو ایم کی طرز سیاست کی یاد دلادی
100 دن کے دوران شہر بھر میں160صفائی کا سلسلہ دکھائی دیا نہ وہ نظام جسے منتخب بلدیاتی دور کہا جاتا ہے

’کراچی ہماراشہر ہے‘ کا دعویٰ کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کے منتخب میئر کراچی وسیم اخترکی جانب سے شروع کی گئی 100 دن کی صفائی مہم گزشتہ جمعے کو ختم ہوئی مگر ایسی ناکام ہوئی کہ اس کی کامیابی کے دعوے صرف وسیم اختر اور ان رفقا ہی کررہے ہیں۔ زور شور کے ساتھ شروع کی گئی یہ مہم ویسے تو ابتدائی دنوں میں ہی ناکام نظر آرہی تھی۔ لیکن 100 دن گزرنے کے بعد تو عوام کو ایسا لگا کہ ان گزرہے ہوئے ایام میں شہر کا وہ بلدیاتی نظام نظر ہی نہیں آیا جو منتخب نمائندوں خصوصاً عبدالستار افغانی، فاروق ستار،نعمت اللہ خان اورمصطفی کمال کے ادوار میں ہوا کرتا تھا۔ پورے 100 دن کے دوران میئر وسیم اختر اور محض 3 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپویشنزکے چیئرمینز کی پریس ریلیزز اخبارات میں شائع ہوتی رہیں جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ صفائی مہم جاری ہے۔ یہ دعویٰ بالکل اسی طرح کیا جاتا رہا جیسے صفائی کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد میئر وسیم اختر نے اپنے منتخب چیئرمینز اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ جمعے کو پریس کانفرنس میں کیا۔ تاہم انہوں نے اپنی صفائی مہم کی کامیابی کا دعویٰ کرکے پورے شہر کے کروڑوں باسیوں کو حیران کردیا۔ شہری یہ پوچھنے پر مجبور نظر آئے کہ ’ کیسی مہم اور کس کی صفائی ؟‘
پھر لوگوں کو خیال آیا کہ یہ میئر اور ان کے ساتھی تو اْسی ’سیاسی جماعت‘ کے منتخب کردہ نمائندے ہیں ناں جن کے بارے میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ یہ لوگ سچ کی طرح جھوٹ بولا کرتے تھے۔ میئر اور ان کے ساتھیوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں صفائی مہم کی کامیابی کا دعویٰ کرکے دراصل22 اگست 2016ء4 سے پہلے والی اپنی ایم کیو ایم کی طرز سیاست کی سب کو یاد دلادی۔
وسیم اختر نے ایسا کرکے صفائی مہم میں ناکامی کا اعتراف کرنے سے گریز کیا۔ ساتھ ہی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ 100 روزہ مہم کے دوران کراچی کی ’21 یوسیز‘ میں صفائی مہم شروع کی گئی تھی ، وسیم اختر نے کی یہ بات ’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کے مترادف تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے مہم کے لیے ساتھ دینے اور تعاون کا یقین دلایا تھا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہمارا ساتھ نہ دیا بلکہ کنٹونمنٹ کا کچرا بھی ہمارے حصے میں ڈال دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ مہم شروع ہوتے ہی وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صفائی مہم و میئر کو ناکام بنانے کی سازشیں شروع کردی گئیں اور مہم کو ناکام بنانے کے لیے صرف سرخ فیتے کا استعمال کیا گیا۔ میئر وسیم اختر کی جمعے کے روز کی گئی باتوں کو سامنے رکھ کر اس مہم کے آغازیعنی 28نومبر2016ء4 کو کی گئی نیوز کانفرنس پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ میئر وسیم اختر نے کہا تھا کہ (1) محدود وسائل اور اختیارات کے باوجود کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن جمعرات 29 نومبر سے شہر کی صفائی کے لیے 100 روزہ مہم کا آغاز کرے گی۔ (2) اگلے 100 روز میں صفائی کی اس بڑی مہم کے دوران ہم دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے شہر کے بڑے علاقے کی تعمیر نو بھی کریں گے۔ (3) وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سڑکوں کی مرمت اور ان کی استرکاری کا کام ڈسٹرکٹ میونسپل کورپوریشنز کے معمول کے کاموں کے ساتھ کیا جائے گا، جس کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی ٹیم کی مدد کریں گے۔ (4) میئر کراچی کا کہنا تھا کہ 100 روزہ مہم کے دوران کے ایم سی نہ ہونے کے برابر وسائل اور آئینی اتھارٹی کے باوجود تمام ڈی ایم سیز کو مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ (5) انہوں نے کہا تھاکہ کراچی وسطی، شرقی اور کورنگی کی ڈی ایم سیز پہلے ہی اس مہم کی کامیابی کے لیے فعال کردار ادا کر رہی تھیں، جبکہ دیگر ڈی ایم سیز سے اس میں شامل ہونے کے لیے مشاورت کی گئی تھی۔ (6) ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو بھی وسائل دستیاب ہیں ان کے مطابق ہم عوام کے بھروسے پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مثبت نتائج کے حصول کے لیے کراچی میں مختلف جماعتوں کے تمام منتخب نمائندوں کو باہمی مشاورت سے اعتماد میں لیا جائے۔ (7) وسیم اختر نے کہا تھاکہ ان کی ٹیم نے آئندہ 100 روز کے دوران کراچی شرقی، وسطی اور کورنگی کے اضلاع میں سڑکوں کی مرمت اور صفائی ستھرائی کا منصوبہ بنایا ہے، اس کے علاوہ 3 اضلاع کی 15 سے 20 منتخب یونین کونسلز میں اسکول، پارکس، کھیل کے میدان اور اسپتال بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اس 100 روز صفائی مہم کا اعلان کرتے ہوئے میئر کراچی کے ساتھ ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار، ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق اور دیگر ضلعی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے چیئرمین بھی موجود تھے۔
جب گزشتہ جمعے کو یہ مہم ختم ہوئی تو جائزہ لینے پر صرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہم کے آغاز اور اختتام پر میئر کی پریس کانفرنس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لیکن ان 100 دنوں کے دوران میئر نے نجی اسپتالوں ا?غا خان ، انڈس اور دیگر کا دورہ کیا۔ خیراتی خدمتی ادارے سیلانی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ کے تحت آر او پلانٹ کا افتتاح کیا۔ شاید وہ شہریوں کو تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ سب کچھ بھی اسی مہم ہی کے سلسلے میں ہورہا ہے۔
میئر کی طرف سے صفائی مہم کی کامیابی کی بات پر شہری حیران ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتائج پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’وینس کی گلیوں کی طرح کراچی کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر بھی پانی بہنے لگا ہے تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سیوریج کا پانی ہے۔ ناروے اور سوئٹزر لینڈ کی طرح سڑکوں اور چوراہوں کے اطراف پہاڑ نظر ا?نے لگے ہیں البتہ یہ پہاڑ کچرے کے ہیں۔ لوگوں نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ میئر نے ’صفائی مہم‘ کسی اور اصطلاح میں کہا تھا۔ اس کا مقصد شہر کی صفائی ستھرائی ، سڑکوں کی مرمت، پارکوں ، کھیل کے میدان اور اسپتالوں کی تعمیرات سے نہیں صرف اس طرح کے ارادوں سے تھا۔ اس مہم کے دوران نہ تو شہر سے تجاوزات ہٹائی جاسکیں اور نہ ہی پارکوں ، میدانوں اور سڑکوں کی تباہ شدہ حالت کو بہتر بنایا جاسکا۔البتہ حکومت سندھ کے 10 ارب کے منصوبے کے تحت بننے والی سڑکوں کے کاموں کے لیے متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو جس تکلیف کا سامنا ہورہا ہے اسے بھی ختم کرنے کے لیے میئر اور ایم کیو ایم کے دیگر نمائندے کوئی قدم نہیں اٹھا سکے۔ یہ نہ صرف کے ایم سی کی ناکام ترین مہم تھی بلکہ ڈی ایم سی اور ایم کیو ایم بھی اس ناکامی میں برابر کی شریک رہیں۔ پوری صفائی مہم ’صفائی او رکسی بھی قسم کی بہتری سے پاک رہی‘۔
صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو جو کراچی ہی نہیں بلکہ صوبے کے مختلف اضلاع میں صفائی ستھرائی سمیت دیگر بلدیاتی مسائل حل کرنے کے اصل ذمے دار ہیں، نے میئر کراچی کی صفائی مہم کو ناکام قراردیتے کہا کہ اس کی وجہ مہم کے لیے وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے دور میں بھرتی کیے گئے 43 ہزار گھوسٹ ملازم ہیں۔ جام خان شورو نے جمعے کے روز سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے تحت چینی کمپنی نے شہر کے ضلع جنوبی میں کام کا ا?غاز کردیا ہے۔ ضلع کے مختلف علاقوں میں 600 سے زائد ڈسٹ بن رکھوا دی گئیں ہیں۔ اب کوئی ہے جو صوبائی وزیر سے پوچھے کہ ڈسٹ بن رکھوانے سے صفائی کیسے ہوگی۔ ایسا تو نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈسٹ بن ہی غائب ہوجائیں؟ بہرحال کراچی میں گندگی، غلاظت اور کچرے کے ڈھیر کی موجودگی اور صفائی مہم کی ناکامی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایک شہری عبدالحمید گاڈیا نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ فنڈز مختص ہونے کے باوجود شہر گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بن چکا ہے۔حالانکہ صوبائی محتسب اسد اشرف ملک نے بھی 9 روز کے اندر کچرا صاف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اس کے باوجود کچرا نہیں اٹھایا گیا۔ عدالت عالیہ نے جمعہ کے روز ہی اس درخواست پر متعلقہ اداروں سے 3 ہفتوں کے اندر فنڈز اور دیگر تفصیلات طلب کی ہیں۔
میئر وسیم اختر کی صفائی مہم کی ناکامی دراصل صرف کے ایم سی یا ایم کیو ایم کی ناکامی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی ہے جو صوبائی حکومت کے کنٹرول میں چل رہا ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ صوبائی حکومت نے خود بھی مختلف مسائل پیدا کرکے خصوصاً صفائی ستھرائی کی ذمے داری بلدیاتی اداروں سے لے کر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کرنے کی انوکھی مثال قائم کی ہے۔ خدشہ ہے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ چائنا کمپنیوں کے ساتھ ناکام ہوجائے گا۔ کراچی میں اسی طرح کوڑے کے پہاڑ بنتے رہیں گے۔ صوبائی حکومت سندھ اور خصوصاً کراچی کے لوگوں سے مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کو سندھ لوکل گورنمنٹ ا?رڈیننس 1979ء4 کے مطابق چلائے۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی نہ صرف شکایات کا ازالہ کیا جائے بلکہ ان سے بھر پور تعاون بھی کیا جائے۔