(کیا دنیا کا جغرافیہ تبدیل ہونے جارہا ہے؟ (حصہ اول

125

کیا دنیا میں جغرافیہ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے جارہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو بار بار ذہن پر دستک دے رہا ہے۔ اس سوال کے اٹھنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عالمی صورت حال اچانک تبدیل ہوگئی ہے بلکہ اس کی وجہ ملکی صورت حال میں تبدیلی ہے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کے ساتھ ہی ایک نیا آپریشن پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کے ساتھ بھی یہ روایت برقرار رہی۔ گزشتہ آرمی چیف کے دور میں جو آپریشن ضرب عضب کے نام سے جاری و ساری تھا، نئے آرمی چیف کے آتے ہی اس کا نام آپریشن رد الفساد ہوگیا۔ اس نئے آپریشن کے ساتھ پاکستان میں جو بنیادی تبدیلی آئی، اس کے بعد سے بار بار یہ سوال تنگ کررہا ہے کہ کیا دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی جغرافیہ تبدیل ہونے جارہا ہے؟
بات ذرا وضاحت سے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ جیسے ہی امریکا کا افغان پالیسی میں یو ٹرن آیا اور مجاہدین کا لفظ دہشت گردوں سے بدل گیا، پاکستان کی پالیسی بھی تبدیل ہوگئی۔ پہلے پاکستانی حکومت عرب مجاہدین کی میزبان ہوا کرتی تھی یا دیگر الفاظ میں سہولت کار تھی اور انہیں پاک سرزمین پر اترنے کے بعد سے لے کر افغان سرزمین تک جانے کی ہر سہولت مہیا کیا کرتی تھی۔ پالیسی میں 180 درجے کی تبدیلی کے بعد یہی پاکستانی حکومت ان کے خلاف آپریشن کررہی تھی۔ یہی نواز شریف تھے جنہوں نے ان عرب مجاہدین کے خلاف پشاور میں آپریشن کیا تھا اور انہیں گرفتار کرکے ملک بدر کرنا شروع کردیا تھا۔ ان عرب مجاہدین میں سے بیش تر کا تعلق ایسے عرب ممالک سے بھی تھا جہاں پر اس وقت سوویت نواز حکومتیں برسر اقتدار تھیں اور ملک بدری کا واضح مطلب ان مجاہدین کو ان کے اپنے ملک میں موت کی سزا تھا۔ اس کے باوجود بھی نواز شریف یہ کام کرتے رہے۔
یہ ملک کے اندر آپریشنوں کا نقظہ آغاز تھا جس کا اختتام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ان تمام آپریشنوں میں ایک نقطہ قدرے مشترک تھا اور وہ یہ کہ یہ سارے کے سارے آپریشن سابقہ صوبہ سرحد میں اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں ہی میں ہوتے رہے۔ ان آپریشنوں میں امریکی حکومت کبھی براہ راست شریک رہی اور کبھی دور سے ڈوریاں ہلاتی رہی۔ حالاں کہ پاک افغان سرحد محض صوبہ خیبر پختون خوا تک محیط نہیں ہے بلکہ یہ صوبہ بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ پاک افغان سرحد میں جتنا طورخم اہم ہے اتنا ہی چمن بھی۔ جلال آباد جانے والے طورخم کو ترجیح دیتے ہیں تو قندھار جانے والے چمن کو۔ طالبان کا اثر و نفوذ چمن سے ہی زیادہ تھا۔ تاہم یہ بات حیرت انگیز تھی کہ طالبان کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد سارے کا سارا آپریشن خیبر پختون خوا سے ملحق قبائلی علاقوں میں تو کیا گیا مگر بلوچستان اس سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔
گزشتہ آپریشن ضرب عضب اپنی نوعیت کا بالکل جداگانہ نوعیت کا تھا۔ ایسا پوری دنیا میں کہیں پر نہیں ہوا کہ پوری کی پوری آبادی کو ان کے گھروں سے نکال باہر کردیا جائے۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہوجائیں، مرد اپنے روزگار سے محروم ہوجائیں۔ ان کے مال مویشی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب بھوک سے ہی مرجائیں، کھڑی فصلیں سوکھ جائیں اور یہ سارے لوگ خیموں میں کئی برس گزار دیں۔ دھوپ، بارش، برف باری سب سر سے گزر جائے اور پتا ہی نہ چلے کہ اپنے گھر کب جائیں گے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھروں کو کھنڈر بنادیا جائے، کھیت کھلیانوں کو بارود کا ڈھیر بنادیا جائے اور جب گھروں کو جانے کی مشروط اجازت ملے تو دن بھر قطار میں کھڑے رہیں کہ کب باری آتی ہے۔
یہ طویل تمہید میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی باندھی ہے کہ قارئین اندازہ لگالیں کہ اس کے کیا نتائج قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے نکلے ہوں گے۔ کبھی امریکی ڈرون حملے اور کبھی اپنوں کے آپریشن۔ گزشتہ 17 برسوں سے یہ سب سہتے سہتے، ان کے ذہن کس قدر زہر آلود ہوگئے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس تمام صورت حال سے تنگ آکر ان علاقوں میں بسنے والوں نے فیصلہ کیا کہ صوبہ سرحد ہی کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ اس کے بعد جس کا جہاں موقع لگا، وہاں چل نکلا۔ کچھ پنجاب میں آباد ہوگئے تو کچھ نے سندھ کا رخ کیا۔ خیبر پختون خوا کی سرزمین تو ان کے لیے پہلے ہی تنگ ہوچکی تھی اور بلوچستان میں روزگار کے کچھ اتنے زیادہ مواقع نہیں تھے اس لیے لے دے کر پنجاب اور سندھ ہی بچتے تھے۔ سندھ میں بھی کراچی ان کے لیے شجر ممنوعہ بن چکا تھا۔ کسی اور کی ڈگڈگی پر ناچتے ہوئے الطاف حسین نے کراچی میں پٹھانوں کا قتل عام شروع کیا جس سے یہ سندھ کے دیہی علاقوں میں آباد ہونے لگے البتہ پنجاب کی سرزمین ان کے لیے بہتر ثابت ہوئی۔ اس سے ان کی کچھ اشک شوئی ہوئی اور زندگی دوبارہ کسی ڈھب پر آگئی۔
معاملات یہاں تک بھی ٹھیک تھے کہ آپریشن رد الفساد شروع ہوگیا اور دیگر آپریشنوں کے برعکس اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔ اس آپریشن کے تحت حکومت پنجاب اور حکومت سندھ نے جو کارروائیاں شروع کیں، اس کے بعد شکوک کے ناگ ذہن میں پھنکارنے لگے ہیں۔ حکومت پنجاب کے ایماء پر تمام مارکیٹ ایسوسی ایشنوں کو ہدایت کی گئی کہ ان کی مارکیٹ میں جو بھی پشتو بولنے والے دکاندار ہیں، ان کی فہرست متعلقہ تھانے کو فراہم کی جائے۔ اس کے بعد تو پولیس والوں کی چاندی ہوگئی۔ اب بسوں سے پٹھانوں کو اتار اتار کر گرفتار کیا جانے لگا اور چھوڑنے کے عوض بھاری نذرانے طلب کیے جانے لگے۔ کچھ ایسی ہی لوٹ سندھ کی پولیس نے بھی مچادی اور یہاں پر بھی ہائی وے پر جگہ جگہ ناکے لگنے شروع ہوگئے اور روز گرفتاریاں شروع ہوگئیں اور ان کو چھوڑنے کے عوض پولیس کی موجیں ہوگئیں۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان خربوزے ہی کا ہوتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں پشتو بولنے والے یہ پاکستانی گرفتار ہوں یا بھاری نذرانے کے عوض چھوڑ دیے جائیں، نتیجہ ایک ہی نکلنا ہے اور وہ ہے پنجاب اور سندھ کے خلاف نفرت۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف نفرت اور سب سے بڑھ کر آپریشن کرنے والی پاک فوج کے خلاف کدورت۔
یہ میلہ آخر سجایا کیوں گیا؟ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔