(کالا پتھر(محمد عمر احمد خان

88

صائم کو چوتھی جماعت ہی سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ وہ سوچتا تھاکہ پھولوں میں خوشبو کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے؟ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ پیلا یا کالا کیوں نہیں؟ پانی بے رنگ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ ہوا چلتی ہے، مگر نظر کیوں نہیں آتی؟ چاند ستارے آسمان پر کس طرح ٹِکے ہوئے ہیں؟ سورج میں کون سی بھٹّی دہک رہی ہے، جس کی وجہ سے دہکتی ہوئی آگ کا الاؤ معلوم ہوتا ہے؟ زمین گول ہے، تو گول محسوس کیوں نہیں ہوتی؟ اور جب یہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے، تو پھر لوگوں کو چکر کیوں نہیں آتے؟ صائم کے سوالات بھی چکرا دینے والے ہوتے تھے۔ اس کے سوالات سن کر اکثر اُستاد صاحبان بھی چکرا جاتے اور جواب دینا بھول جاتے۔
کائنات کی چیزوں پر غور و فکر کرنے کے علاوہ وہ اپنے درمیان بسنے والے لوگوں اور گرد و پیش ہونے والے واقعات پر بھی غور و فکر کرتا رہتا۔ مثلاً، لوگ آپس میں ذرا ذرا سی باتوں پر لڑتے کیوں ہیں؟ جس چیز کو بُرا کہتے ہیں، اُسی پر عمل کیوں کرتے ہیں؟ اُسے اپنے ابو کی نصیحت یاد آجاتی، جوکہتے تھے کہ بیٹا! جھوٹ سے بچو، یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے، جھوٹ بولنے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں۔ پھر صائم یہ بھی دیکھتا کہ جب ابو کے کوئی دوست اُن سے ملنے آتے، تو ابو کہتے: جاؤ بیٹا، جاکر کہہ دو، ابو گھر پر نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتا کہ بجلی بار بار چلی جاتی ہے، نلوں میں پانی کے بجائے ہوا آتی ہے، گٹروں کے مُنہ کھلے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اِن کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر ہاتھ پیر تڑوا بیٹھتے ہیں۔ دودھ والا دودھ میں پانی اور پاؤڈر ملاکر بیچتا ہے اور لوگوں میں کینسر جیسی بیماری پھیلارہا ہے۔ دکان دار کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں اور لوگوں سے جھوٹ بول کر اور خالص بتاکر بیچتے ہیں۔ سیاست داں لوگوں سے خدمت کے بہانے ووٹ لیتے اور ووٹ لینے کے بعد ان پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لاد دیتے ہیں، پھر یہ کہ ان کے مسائل حل بھی نہیں کرتے۔ وہ سوچتا، کیا ہم سب کو ایک دن مرنا نہیں ہے؟ اگر مرنا ہے تو ہم سب اپنے برے کاموں کا اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ ایسے میں صائم کو پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ واقعہ یاد آجاتا، جب ایک مرتبہ آپؐ نے ایک صحابیؓ کو کچھ اونٹ فروخت کرنے کی ذمے داری سونپی تھی۔ اُن صحابیؓ نے سارے اونٹ بیچ دیے۔ آپؐ کو پتا چلا، تو اُن سے دریافت کیا کہ اُن میں سے ایک اونٹ جو لنگڑاکر چلتا تھا، کیا تم نے اُسے بھی فروخت کردیا؟ صحابیؓ نے جواب دیا: جی ہاں یارسولؐ اللہ، میں نے وہ اونٹ بھی فروخت کر ڈالا۔ آپؐ نے پوچھا: جس شخص کو تم نے اونٹ بیچا، کیا اس کو اونٹ کے عیب سے آگاہ کیا تھا؟ صحابیؓ نے شرمندہ ہو کر کہا: نہیں، یا رسولؐ اللہ۔ آپؐ یہ سن کر ناراض ہوئے اور صحابیؓ کو حکم دیا کہ فوراً اُس شخص کو تلاش کرکے عیب والا اونٹ اُس سے لو اور اُس کے پیسے واپس کرو۔ چناں چہ اُن صحابیؓ نے ایسا ہی کیا، اور جب وہ ایسا کرچکے تو انہیں اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطمینان نصیب ہوا۔
صائم اخبارات میں پڑھتا کہ جن لوگوں نے چوری یا کوئی اور برا کام کیا، وہ بڑے لوگوں کی سفارش پر چھوڑ دیے گئے۔ ایسی خبریں پڑھ کر اُسے اپنی کتاب میں لکھا ہوا حضورؐ کا وہ واقعہ یاد آجاتا، جب آپؐ کی خدمت میں ایک معزز قبیلے کی فاطمہ نامی عورت لائی گئی، جس پر چوری کا الزام ثابت ہوچکا تھا۔ قبیلے کے معززین چاہتے تھے کہ اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اس عورت کو سزا سے بچالیا جائے۔ حضورؐ کی خدمت میں اُس عورت کی سفارش پیش کی گئی۔ پیارے نبیؐ اس سفارش سے سخت خفا ہوئے اور فرمایا ’’خدا کی قسم، اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی، تو اُس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا‘‘۔
صائم پیارے نبیؐ کے انصاف پر مبنی فیصلے کو یاد کرکے سوچتا، اگر حکومت بھی اقربا پروری چھوڑ دے، مجرموں کو فی الفور سزائیں دے اور انصاف کرے تو ملک میں کوئی بھی بدامنی اور انتشار نہ رہ پائے گا۔
اس کے گھر میں سب لوگ نماز پڑھتے، زکوٰۃ ادا کرتے، رمضان میں پورے روزے رکھتے اور اسلامی احکامات پر عمل بھی کرتے۔ صائم کے دادا حج کرکے آئے تھے اور اپنے نام کے ساتھ ’’حاجی‘‘ لگانا پسند کرتے، لیکن وہ ٹی وی کے آگے جمے رہتے اور کبھی کبھی جان بوجھ کر نماز بھی قضا کردیتے، جب کہ صائم چاہتا کہ دادا جان کچّے نہیں بلکہ پکّے حاجی بنیں۔ وہ خود بھی پکّا اور سچّا مسلمان بننے کی کوشش میں لگا رہتا، پانچوں وقت کی نماز پڑھتا، روزانہ پابندی سے قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرتا، تاکہ جو کچھ اللہ نے اس میں بیان کیا ہے، سیکھ سکے۔ وہ نبی کریمؐ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتا، اچھی اچھی اسلامی اور اخلاقی واقعات والی کتابیں پڑھتا اور اُن سے سبق حاصل کرتا۔ اُس کی دوستی بھی اچھے ساتھیوں سے تھی، جو نماز پڑھتے، مسجد جاتے، جھوٹ نہ بولتے، کبھی کسی کی غیبت یا چُغلی نہ کرتے، بڑوں کا ادب کرتے، چھوٹوں سے شفقت برتتے، استادوں اور بزرگوں کا احترام کرتے، پڑوسیوں کا خیال رکھتے اور معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنے اور اچھائیوں اور نیکیوں کو پھیلانے کا جذبہ نہ صرف دل میں رکھتے، بلکہ اس کے لیے عملی کام بھی کرتے۔
صائم اور اس کے اچھے ساتھی چاہتے تھے کہ ملک کے سب لوگ اچھے بن جائیں، مل جُل کر پیار و محبت سے رہیں، دُکھ درد میں ایک دوسرے کے کام آئیں، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور ذرا ذرا سی باتوں پر آپس میں نہ لڑیں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اُن بری باتوں سے بچیں، جن سے اسلام منع کرتا ہے، مثلاً: جھوٹ نہ بولو، کسی کی چغلی یا غیبت نہ کرو، کسی کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، کسی کے ساتھ دھوکا نہ کرو، خالص چیزوں میں ملاوٹ نہ کرو، دورُخی زبان نہ اپناؤ، ظلم نہ کرو، ظالم کا ساتھ نہ دو، ناانصافی نہ کرو، تفرقہ نہ ڈالو، چوری، ڈاکا، قتل نہ کرو اور اللہ کی زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔
اچھی باتوں پر عمل کرنے اور صرف اللہ پر بھروسا رکھنے کی وجہ سے صائم میں ایسی طاقت آگئی تھی کہ اللہ کے سوا وہ کسی چیز سے نہ ڈرتا۔ وہ جس راستے سے اسکول جاتا، وہ راستہ غیرآباد اور غیر ہموار سا تھا۔ راستے کے درمیان ایک قبرستان بھی پڑتا تھا، جہاں بے شمار ٹوٹی پھوٹی قبریں دائیں بائیں بے ترتیب پھیلی ہوئی تھیں۔ قبرستان کے آخر میں کچے راستے کے درمیان ایک بڑا سا برگد کا درخت لگا تھا، جو بہت بوڑھا ہوچکا تھا۔ اُس درخت نے زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھے تھے، مگر تیز آندھیوں اور طوفانوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا تھا۔ اُس کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ جب تیز ہوا چلتی، تو اس کی گھنی شاخیں زور زور سے ہلنے لگتیں۔ ان کے ہلنے سے یوں محسوس ہوتا، جیسے درخت کو جلال آگیا ہو۔ صائم جب بھی اسکول جاتا، تو بوڑھے برگد کی زمین پر پھیلی ہوئی جڑوں کے قریب اسے کالے رنگ کا ایک بدصورت سا پتھر دکھائی دیتا۔ یہ کالا پتھر قریباً ایک برس سے وہیں پڑا تھا۔ صائم جب بھی اس پتھر کو دیکھتا، تو سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے خوامخواہ اِس پتھر کو دنیا میں بھیجا ہے، نہ تو یہ کسی کام کا ہے اور نہ ہی خوب صورت ہے۔
ایک روز صبح، جب کہ موسم بے حد ابر آلود ہورہا تھا، آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، صائم بستہ کاندھے پر لٹکائے اسکول جانے کے لیے نکلا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلا جارہا تھا۔ جب وہ برگد کے درخت کے قریب پہنچا، تو موٹی موٹی بوندیں پڑنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تیز موسلا دھار بارش کی شکل میں تبدیل ہوگئیں۔ صائم تیز بارش سے بچنے کے لیے بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے جاکھڑا ہوا۔
اسے بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ معلوم نہیں کہاں سے ایک خوف ناک شکل کا آدمی نمودار ہوا۔ اُس نے اپنی قمیص کی جیب سے برفی نکالی اور صائم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’برفی کھاؤ، بہت مزے کی ہے‘‘۔
صائم نے اپنے امی ابو سے سن رکھا تھا کہ باہر اگر کوئی شخص کھانے پینے کی چیز دے، تو کبھی نہ کھانا، کیوں کہ ایسے لوگ بچوں کو پکڑنے والے ہوتے ہیں۔
’’شکریہ جناب، میں میٹھا نہیں کھاتا‘‘۔
’’تمہیں کھانی پڑے گی‘‘۔ وہ شخص صائم کی طرف بڑھنے لگا۔ صائم نے دیکھا، اس کے ایک ہاتھ میں چمکتا ہوا خنجر تھا۔ صائم کو اپنے اللہ پر پورا یقین تھا کہ وہی مشکلوں سے نکالنے والا ہے، چناں چہ اس نے اپنے اوسان بحال رکھے اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔ پیچھے ہٹتے ہٹتے اچانک اسے ٹھوکر لگی۔ وہ لڑکھڑایا اور درخت کی جڑوں کے قریب گرپڑا۔ نیچے گرتے ہوئے بجلی چمکی، جس کی روشنی میں صائم نے کالے رنگ کا وہی بدصورت پتھر دیکھا، جو ایک برس سے درخت کی جڑوں کے قریب بے مصرف پڑا تھا۔ صائم نے جلدی سے وہ پتھر اٹھایا اور پوری طاقت سے اس شخص کے سر پر دے مارا، جو اُس کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ پتھر اُس شخص کے عین سر پر لگا۔ اُس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی، وہ دھڑام سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔
صائم کیچڑ، پانی کو پھلانگتا گھر آیا۔ اُس کے ابو گھر ہی پر تھے۔ اس نے سارا واقعہ ابو کو کہہ سنایا۔ اس کے ابو نے جلدی سے پولیس کو فون کیا، ایک انسپکٹر کی سربراہی میں چار پولیس کے سپاہی فوراً ہی گھر پہنچ گئے۔ صائم انہیں لے کر برگد کے درخت والی جگہ پر پہنچا تو وہ شخص ابھی تک بے ہوشی کی حالت میں زمین پر پڑا تھا۔ سپاہیوں نے انسپکٹر کے حکم پر اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں اور اُسے اسپتال لے گئے، جہاں پہلے تو اُس کی زخمی پیشانی کی مرہم پٹی کی گئی، پھر علاج کے بعد اسے جیل منتقل کردیا گیا۔پوچھ گچھ کے دوران اُس شخص نے بتایا کہ وہ بچّوں کو پکڑ کر انہیں ایک غیر آباد پہاڑی علاقے میں لے جاتا، جہاں ان سے پہاڑوں کے پتھر تڑوا کر بیگار لی جاتی۔ اُس شخص کی نشان دہی پر پولیس نے چھاپہ مار کر بہت سے اغوا کیے ہوئے بچّے برآمد کرلیے۔ اس اڈے سے اس کے بہت سے خطرناک ملک دشمن ساتھی بھی پکڑے گئے۔ حکومت نے صائم کے کارنامے پر خوش ہوکر 25 ہزار روپے اور بہادری کی سند انعام میں دی۔
اِس واقعے سے صائم کو پتا چل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار نہیں بنائی ہے۔ وہ کالا پتھر آج بھی صائم کی الماری میں محفوظ ہے!!
nn