(دامن میں جس کے ایک بھی تار وفا نہیں(بنتِ زہرہ

69

(تیسری اور آخری قسط)
’’مگر وہاں جو کمال کی ماں اس کو ورغلاتی رہے گی، کیا کیا دوریاں نہیں پیدا کرے گی دونوں میں!‘‘ امی کا خدشہ بھی غلط نہ تھا، واقعی بہکانے والے نے تو باوا آدم کو بھی خدا کی نافرمانی پر مجبور کردیا تھا۔ بہرحال صوفیہ کا علاج ہونے لگا۔
کمال دو چار دن میں آتا، کبھی روز بھی چکر لگا لیتا۔ وہ یہاں الگ بے قرار تھی۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا خوف تھا۔
ایک ماہ میں وہ بہت حد تک سنبھل گئی تھی۔ ’’اب میرے خیال میں کمال کو آجانا چاہیے۔۔۔ کیوں امی؟‘‘
’’ہاں بیٹا کچھ بہتر ہوگئی ہو، اب دوا علاج سب جاری رکھنا۔ ہفتے میں ایک دن چکر لگا لینا۔ تمہارا مسلسل یہاں رہنا بھی ٹھیک نہیں ہے بچے۔‘‘ وہ اس کو تھپکتے ہوئے بولیں۔
’’آپ کب آئیں گے کمال؟ تین دن سے یہاں بھی نہیں آئے، میرے خیال میں اب مجھ کو وہاں آجانا چاہیے۔‘‘ وہ فون پر اس کو سمجھا رہی تھی۔
’’ہاں سنو، تھوڑی مصروفیت ہے، کچھ چھوٹا موٹا کاروبار سیٹ کررہا ہوں دوست کے ساتھ مل کر، ایک جاب میں گزارا مشکل ہورہا ہے۔ سنو، وہ تمہارا بَری کا جیولری سیٹ میں نے جیولر کو دے دیا تاکہ اس کو بیچ کر کام شروع کردوں، چار چھ ماہ میں وعدہ ہے کہ بنوا دوں گا، کچھ رقم تمہارے علاج پر بھی خرچ ہوجائے گی۔‘‘ اس نے نئی نئی خبریں سنائیں۔
’’اچھا، ابھی تو دو چار دفعہ ہی پہنا تھا۔۔۔ مگر چلیں آپ سے بڑھ کر تو نہیں، میرا اصل زیور تو آپ ہیں۔‘‘ وہ بڑی فراخ دلی سے بولی ’’مگر جلد آیئے گا۔‘‘ وہ کمال کے لیے بے چین تھی یا انجانے خوف سے لرزاں۔
ایک ماہ سے ڈیڑھ ماہ ہوگئے، کمال آتا، کبھی ہفتے بھر فون ہی سے کام چلا لیتا۔ وہ ’’صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے‘‘ کا سبق پڑھتی رہتی، حالانکہ اگلی صبح وہ پھر بھولا ہوا ہوسکتا ہے۔ قلابازی بھی تو ایک فن ہے۔
’’دیکھیں دو ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، ہم کو اکٹھے رہنا چاہیے۔‘‘ وہ بے قراری سے رونے لگی۔
’’ارے تم کوئی روڈ پر تھوڑا ہی بیٹھی ہو، یا کسی ایرے غیرے کے گھر پر پڑی ہو! تمہارے باپ کا گھر ہے۔ آخر پہلے بھی تو تم یہاں رہتی ہی تھیں ناں۔‘‘ وہ بضد ہوکر کہہ رہا تھا۔
’’مگر تب الگ بات تھی، میں آپ کی بیوی ہوں بس۔‘‘ وہ بھی تنگ آچکی تھی۔
’’چلو یہ ہزار روپے رکھو۔‘‘ اس نے سخاوت دکھاتے ہوئے اس کے ہاتھ میں پیسے دیے۔ ’’ارے ہاں وہ مونا کا رشتہ طے ہورہا ہے۔‘‘ وہ آخر میں جاتے جاتے اطلاع دیتا گیا۔ ’’جانے یہ مونا کہاں سے آجاتی ہے؟‘‘ وہ سوچ رہی تھی۔
اگلی صبح وہ چیخ مارکر بھیانک خواب سے جاگی، کوئی ڈاکو رانی اس کے گھر میں گھس رہی تھی۔ چاروں طرف آگ تھی۔ کمال دور کھڑا تھا خون ہی خون میں غلطاں۔۔۔ سب اس کی چیخوں سے گھبرا کر اٹھ گئے۔ امی نے تسلی دی، بہن رابعہ پانی پلانے لگی۔
’’میری بچی، اللہ خیر کرے گا۔‘‘ آیتہ الکرسی پڑھ کر دم کرتے ہوئے ماں نے کہا۔
’’الٹے کروٹ سوگئی، کیا الا بلا دیکھ لیا۔‘‘ ابا جی نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’شکر ہے سب خواب تھا۔‘‘ وہ سنبھل کر خواب سنانے کے بعد کہہ رہی تھی۔
صبح ناشتے سے فراغت کے بعد کمال کے نمبر سے فون آیا۔ وہ جیسے اس کی ہی منتظر تھی اور خطرے سے آگاہ کرنے والی تھی۔ مگر یہ کیا، کمال کا جملہ خواب کی بھیانک سچائی تھا، آگاہی کے عذاب کے ساتھ ’’میں اب نہیں آؤں گا۔۔۔ بچہ تمہاری آرزو ہے اور میری دلچسپی نہیں، مگر تم نے سانچے میں ڈھلنے سے انکار کیا، اب سن لو میں شادی کررہا ہوں۔‘‘ بھیانک خواب حقیقت بننے لگا۔ اس کی سماعتوں پر ہتھوڑے پڑ رہے تھے، دل و دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے۔
’’مگر کیوں؟ کون ہے وہ؟‘‘ اس کے منہ بے ساختہ نکلا، اپنے گھر کو جلتے دیکھ کر، اپنے سہاگ کا خون ہوتے دیکھ کر وہ پوری قوت سے چیخنا چاہتی تھی۔۔۔ ’’تو تم نے بے نام رشتہ نبھا لیا کمال۔‘‘
’’کچھ رشتے کتابوں میں نہیں ہوتے، نہ خونیں، نہ قانونی، مگر یہ رشتے نبھانے پڑتے ہیں۔‘‘ اس کی بودی دلیل سے لتھڑا یہ آلودہ جملہ دماغ میں پھٹنے کی سی کیفیت پیدا کررہا تھا، پاؤں تلے زمین سرک رہی تھی یا آسمان سر پر نہ رہا تھا۔
’’تو تم اس کاروبار میں مصروف تھے۔۔۔ کیا تم مجھ سے اتنی نفرت کرتے تھے؟ اتنی حد پار کرسکتے تھے؟‘‘ وہ گھٹ گھٹ کر رو رہی تھی، پھر غشی کے عالم میں اس کی ماں نے اس کو سنبھالا۔
’’امی جی، کمال کمینگی کی اس انتہا پر جا چکا ہے، مگر اس کو کہہ دیں کہ مجھ کو مت چھوڑے، مرد کا نام بھی کافی ہوتا ہے۔۔۔ میں کیسے جیوں گی۔۔۔! امی وہ دوسری کیا تیسری بھی کرلے مگر میرا گھر تباہ نہ کرے۔‘‘ پھر اس نے ماں کو ساری بات بتا دی۔ جو خواب صبح سے پہلے دیکھا تھا، صبح کے بعد سچا ہوگیا تھا۔ ماں کمال کو بددعائیں دے رہی تھی۔ ’’تم نے پوچھا وہ کون ہے؟‘‘
’’وہی جس سے میں نے شادی کی سالگرہ پر ہاتھوں میں مہندی لگوائی تھی، یعنی مونا۔۔۔ مونا۔‘‘
وہ جیسے اس کو جلا کر مارنا چاہ رہا تھا۔ آگاہی کا SMS تھا یا عذاب، چونکا گیا کہ بھالے مار گیا۔
تو مونا کا رشتہ تم سے طے تھا، وہ بانجھ ہے اور تم کو بچہ نہیں چاہیے تھا، اور چارجز اتنے بھی ہوتے ہیں حنا بندی کے، خون پینے سے لیے جائیں۔ ساری کڑیاں ایک دوسرے سے مل رہی تھیں۔
مگر مونا سوکن کیسے برداشت کرتی! وہ تو لذتوں کی رنگین دنیا کی باسی تھی۔ جس کلچر میں وفا کا رنگ نہیں ہوتا، پیمانِ وفا کو یک طرفہ رنگِ وفا کے ساتھ کیا بچتا۔ یہ دو طرفہ ہوتا ہے جسے حقوق و فرائض کا نظام کہا جاتا ہے۔ لذتوں کی رنگین اشتہاری دنیا کے سیاہ گھنیرے اندھیرے گھروں کی مدھر چاندنی کو نگل رہے ہیں۔ صوفیہ بھی اس کی زد میں آگئی۔
درشوار آنسوؤں کے ساتھ اس کی اشک شوئی کرتے ہوئے اس پر بیتے سانحے کو سن رہی تھی۔ گھروں کے تباہ شدہ ملبے پر سوگ مناتی، آہیں بھرتی اور فریاد کرتی ستی ساوتری عورتیں وفا کرکے، سب تیاگ کر نقصان میں ہیں کہ احمق ہیں یہ سب۔ اتنا بھی کیا اطاعت کرنا، نچھاور ہونا! لذت کے اسیر ان پر ہنس رہے ہیں، کھلواڑ کررہے ہیں۔۔۔ مگر جیون کھیل نہیں جاناں۔
’’صوفیہ رنگِ حنا کے چارجز اتنے بھی بھاری ہوتے ہیں، حساب تو کروڑوں میں گیا۔ یک طرفہ محبت تو خود عذاب ہے، مگر تمہاری سچی وفا کا صلہ تم کو خدا دے گا۔‘‘ وہ اسے تسلی دینے کی کوشش کررہی تھی۔
’’میں اس کے بغیر کیسے جی رہی ہوں! جینے کی کوشش کروں تو سماج نہیں جینے دیتا۔ میرا کیا قصور تھا؟ درشہوار ایسی بھیانک سزا کیوں دی گئی؟‘‘ صوفیہ بے چین ہوکر سوال کررہی تھی۔
’’نادان لڑکی تم اپنے بغیر کیسے جی رہی تھیں! اب اپنے لیے جیو، اپنے خدا کے لیے۔ پہلے کے مرد (اکثر) لذتوں کے اسیر نہیں تھے، وفا کے قدردان تھے، سخت ہوکر بھی ذمے دار اور غیرت مند تھے۔ مگر برا ہو ان اشتہاری رنگینیوں کا کہ رنگِ وفا اُڑ گیا، وفا شعاری حماقت ٹھیری۔ تم نے خدا کے لیے وفا کی، وہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘ اس نے تسلی دی۔ مگر صوفیہ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھی وفا کی جدائی کا سبب جان گئی تھی۔ غضِ بصر، ایک حکم آسمانی۔۔۔ زمین کے کتنے گھروں کی چاندنی ہے، سکون ہے، ملن ہے۔