اس صدی کے انسان کی بد فصیبی

97

آج کے انسان کی بدنصیبی دیکھیے کہ اتنی بہت ساری معلومات کے باوجود، جو مسلسل تجربات سے پرکھ بھی لی گئی ہیں، حاصل ہونے والے صاف صاف اور واضح نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اس لیے کہ آج کا انسان بہت سارے علوم سے واقف ہونے کے باوجود اپنے ہی قائم کیے ہوئے بلا دلیل مفروضے (Assumption)کا غلام ہے، اس نے ایک یک رنگی عینک پہن رکھی ہے، یہ اس کو ہر چیز کا وہی رنگ دکھاتی ہے جو اِس عینک کا رنگ ہے جو اس نے خود پہن رکھی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ برطانیہ کے ایک سائنس دان ہیں جنہوں نے اپنی کتاب کا نام ہی عظیم منصوبہ (The Grand Design)رکھا ہے، کہتے ہیں کہ ’’یہ کائنات پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے بغیر بننا شروع ہی نہیں ہوسکتی تھی، پھر کچھ طبعی قوانین(Physical Laws) تھے جو Self Triggerd تھے جن کی بنیاد پر یہ کائنات آپ سے آپ اور اتفاقیہ حادثاتی طور پرعظیم دھماکے سے بننا شروع ہوگئی‘‘ ۔ حیرت انگیز! پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’عظیم دھماکے سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، نہ توانائی، نہ مادّہ، نہ ہی کوئی دھماکا کرنے والا‘‘ یعنی کہتے ہیں کہ اس دھماکے کے لیے نہ بارود تھا، نہ دیا سلائی، نہ بارود کو دیا سلائی دکھانے والا۔۔۔ بس دھماکا ہوگیا۔ اور کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے لیے ’’کسی خالق(God)کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘‘، ’’Grand Design تو موجود تھا مگر کوئیGrand Designer نہیں تھا، طبعی قوانین تو تھے مگر اس کا کوئی بنانے اور چلانے والا نہیں تھا، قوانین حرکت میں تھے حرکت دینے والا کوئی نہ تھا‘‘، کیا یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز، غیر علمی، غیر منطقی اور غیر سائنسی بات نہیں ہے؟
غیر سائنسی رویہ:
یہ رویہ غیر علمی و غیر سائنسی ہے کیونکہ بڑے بڑے سائنس دانوں نے انسانی علم ’سائنس‘ کی یہی تعریف کی ہے کہ چاہے مشاہدات ہوں یا تجربات، یا ان کی بنیاد پر بنائے گئے اصول و قوانین۔۔۔ سب قیاس اور مفروضوں کی بنیاد پر انسان کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی بنیاد پرکوئی حتمی و یقینی بات نہیں کی جا سکتی، بڑے بڑے سائنس دانوں کے مطابق، سائنس نہ کسی بات کی تصدیق ہی کرسکتی ہے، نہ تکذیب۔۔۔ انسانی علم (سائنس) صرف ممکنہ ٹھوس حقائق کی بات کرسکتا ہے، مسلّمہ ٹھوس حقائق بتانا اس کے بس میں ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے آپ کسی بھی اِحتمال(Probability)کو سائنسی بنیاد پر نہ مکمل طور پر قبول کرسکتے ہیں نہ رَد۔ اگر آپ حتمی طور پر یہ کہیں کہ ’’یہ کائنات کسی کے بنائے بغیر خودبخود بن گئی ہے‘‘ تو یہ ایک انتہائی غیر سائنسی رویّہ کہلائے گا۔
اَنتھک محنت:
ان کی بدنصیبی اور بدبختی پر توجہ کیجیے کہ یہ لوگ جو بہت محنت کررہے ہیں، بہت وقت بلکہ پوری پوری زندگیاں کھپا رہے ہیں، بڑا مال اور صلاحیتیں صرف کررہے ہیں، اس معاملے میں ان کی تعریف میں بخل نہیں کیا جا سکتا، ان کو داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا، وہ انسان کے بنیادی سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں، ہر قسم کے ’انسانی علم‘ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، زمین کی ایک ایک پرت میں تلاش کررہے ہیں، ہر مادّے میں، ہر جاندار میں، چھوٹی سے چھوٹی چیز میں۔۔۔ اربوں کھربوں گنا بڑی کرکے دکھانے والی خوردبینیں ایجاد کیں، تاکہ جوہر(Atom)کے اندر اور زندہ حیاتیاتی خلیہ (Living Cell) کے اندرتک دیکھ سکیں، دنیا کا چپہ چپہ ہی کیا اس سوال کے جواب کی تلاش میں آسمانوں اور خلاؤں کو نہیں چھوڑا، ایک ایک شہابِ ثاقب کا خورد بینوں سے مطالعہ کررہے ہیں، ایک ایک شہابیے(Asteroids)، دُمدار سیارچے (Comets)، سیارے اور ان کے چاندوں پر تحقیق کررہے ہیں۔۔۔ نہ محنت میں کوئی کسر ہے، نہ سرمایہ خرچ کرنے میں کنجوسی۔۔۔ مصنوعی سیارے تک خلا میں بھیج بھیج کر معلومات جمع کررہے ہیں ۔
اصل سوال:
مگر اصل سوال کیا ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ سرگرداں ہیں؟ سوال وہی ہے کہ یہ ساری کائنات اور ہم انسان کب، کہاں اور کیسے وجود میں آئے؟ ہماری ابتدا کیسے ہوئی؟ مگر ایک اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کیوں، کس مقصد اور کس کام کے لیے تخلیق کیے گئے؟ ہمارا اس کائنات میں کیا کردار ہے؟ کیا ہم پہلی اور آخری مرتبہ پیدا ہوئے ہیں؟ کیا ہم مرکر ہمیشہ کے لیے مٹی میں مل جائیں گے؟ یا کیا ہم کو ایک نئی زندگی دوبارہ عطا کی جائے گی؟
افسوس:
مگر افسوس صدافسوس بلکہ انتہائی افسوس کے ساتھ اور ان کی بد نصیبی پر دکھ کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ ان کی ساری محنتیں اور کوششیں اکارت جارہی ہیں، کیوں کہ یہ لوگ اپنی تحقیقات کی بنیاد ہی غلط ڈالتے ہیں، ان کا رویہ ذرا بھی انصاف کے ساتھ غیر جانب دار نہیں ہے، ان کی فکر(Approach) انتہائی غیر علمی، غیر سائنسی، غیر منطقی اور غیر عقلی(Irrational) ہے، اگر کسی بات کا کھوج لگانے والا پہلے ہی یہ طے کرلے کہ مرضی کا نتیجہ آئے تو قبول کرے گا، اس کے خلاف آئے تو رد کردے گا، پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان کو یقین پر ترجیح دے گا تو اس کو اپنی تحقیق میں بھی وہی کچھ نظر آئے گا جو اس کا گمان ہوگا، وہ اپنی محنت سے حاصل کیے ہوئے صحیح نتائج کو بھی رد کردے گا اور اپنے علم کے مُردہ خانے میں جمع کردے گا۔ اگر کوئی شخص ایک رنگ کی عینک لگاکر دنیا کو دیکھے گا تو اس کو ہر چیز کا وہی رنگ نظر آئے گا جو اس عینک کے شیشوں کا رنگ ہوگا،کوئی دوسرا رنگ وہ کیسے دیکھ سکے گا؟
انصاف کا تقاضا:
یہ محنت کرنے والے، پوری دنیا کی جامعات میں ہر مضمون کے ’انسانی علوم‘ میں ڈاکٹریٹ کرنے اور کرانے والوں کی ننانوے اعشاریہ نو (99.9) فی صد اکثریت نے یہ فرض بلکہ یقین کررکھا ہے کہ یہ کائنات، یہ زمین، یہ حیات اور ہم انسان اپنے آپ، ازخود، اتفاقیہ، حادثاتی طور پر وجود میں آگئے ہیں۔ دوسرے کسی امکان و اِحتمال پر غور ہی نہیں کرنا چاہتے، چاہے وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو۔
یہ سب آپ سے آپ، ازخود، اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر بن جانے کا احتمال چاہے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، یہ لوگ اس کے علاوہ دوسری بات پر غورکرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ جن کے امکانات اور احتمالات زیادہ قوی نظرآرہے ہیں ان پر غور و فکر کرنے کو غیر علمی، غیر سائنسی اور غیر عقلی بات سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان ساری موجودات کا اس سے باہر کوئی مافوق الفطرت خالق بھی ہے یا ہوسکتا ہے، جبکہ یہ لوگ علت العلل(first cause)کو مانتے ہیں۔
کوئی ایسا کام ہونا چاہیے جو عقل کے ان اندھوں کی آنکھیں کھلوا سکے، ان کو انصاف پر مبنی غیر جانب دار اور حقیقی و عقلی(Rational) رویّے کی طرف بلائے، ان کو اصل علمی، عقلی اور سائنسی طریقے کی طرف مائل کرے، اور پھر ان کے قلوب میں اپنے اور ان کے خالق کی جگہ بنائے۔
میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ خالق کو مانیں۔ میں تو صرف یہ خواہش رکھتا ہوں کہ یہ لوگ اپنی تحقیقات مکمل غیر جانبداری سے اپنے ہی بڑے بڑے سائنس دانوں کی بتائی ہوئی ’سائنس‘ کی اصل تعریف کے مطابق خالص علمی انداز میں کریں۔ صاف اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ ہر امکان اور اِحتمال (Probability) کو انصاف کے ساتھ حق کے مطابق برابر کی اہمیت دیں اور اپنے نتائج کو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان سے آزادکرکے خود پرکھیں، پھر کوئی نظریہ قائم کریں۔