(غذا میں چھلے کی اہمیت(ڈاکٹر سید اسلم

196

یہ 1800ء کا ذکر ہے کہ غذائی ص عت کے کارپردازوں ے ا اج سے بھوسے اور پھوکس کو علیحدہ کر ا شروع کردیا، ور ہ اس سے قبل لوگ ہاتھ کا پسا ہوا آٹا کھاتے تھے جس میں بھوسی اور چھلکے کا وافر جزو موجود ہوتا تھا۔ اس علیحدگی کا تیجہ یہ ہوا کہ آٹے کو مختلف ر گوں میں علیحدہ علیحدہ کرلیا گیا، سفید براق میدہ کی فروخت زیادہ ہو ے لگی، اس کی بہ سبت بادامی ر گ کا آٹا اس قدر مرغوبِ خاطر ہیں رہا، اسی لحاظ سے میدہ کی قیمت بھی گراں ہوگئی۔ ایسے دکا دار پیدا ہوگئے تھے ج کے پاس پا چ مختلف ر گوں کے آٹے تھے ج کے ر گ ا تہائی سفید شہاب میدہ سے لے کر بادامی ر گ کے تھے۔ اہلِ ثروت سفید آٹے کے رسیا تھے اور غریب لوگوں کی قسمت میں ر گ دار آٹا تھا۔ اس ر گ دار آٹے کے ر گ کا دارومدار اُس چھلکے یا بھوسی پر تھا جو اس آٹے میں تھی۔ سفید آٹے میں بھوسی کی مقدار صرف دو فیصد اور بادامی آٹے میں بارہ فیصد ہوتی ہے۔
بھوسی، پھوکس، ریشہ، چھا اور چھا س۔۔۔ اس کو کسی بھی ام سے پکارا جاسکتا ہے۔ یہ شے غذا کا اقابلِ ہضم و جذب حصہ ہے جس پر ہ تیزاب کا اثر ہوتا ہے ہ الکلی کا، اسی سبب سے یہ بآسا ی تحلیل ہیں ہوتا اور ہاضمہ کی پوری الی میں بغیر تبدیل ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہ ترکاریوں، ا اج، پھلوں اور دالوں میں پایا جاتا ہے۔ سفید ر گ کے آٹے میں سے بھوسی کا زیادہ تر حصہ صاف کردیا گیا ہے۔ جس ا اج کو چھلکے سمیت پیسا جاتا ہے اس میں زیادہ بھوسی ہوتی ہے، اس کے برعکس سفید آٹے میں کم۔ یہ بھوسی یا پھوکس گوشت، دودھ اور دودھ سے ب ی ہوئی اشیاء میں بالکل ہیں ہوتا۔ بھوسی یا پھوکس کیمیائی لحاظ سے مشتمل ہے سیلولوز، موم اور چ د معد یات پر۔
ایک قوم جس قدر ترقی یافتہ ہوتی جاتی ہے وہ اسی قدر اپ ی غذا کو اس مفید ع صر یع ی بھوسی سے صاف کرتی جاتی ہے، اس کے برعکس غریب اقوام کے پاس وہ طریقے ہیں ہیں ج کی مدد سے وہ اپ ی غذا کو اس قدر صاف کرسکیں، اور اس لیے وہ ابھی تک خوش قسمتی سے اس مفید جزوِ غذا سے محروم ہیں ہوسکے ہیں۔
متعدد امراض غذا میں بھوسی کی کمی کے سبب ج م لیتے ہیں، مثلاً مرض تاجی قلب (جس میں دل کو م اسب مقدار میں خو ہیں ملتا)، بڑی آ ت کا سرطا ، سوزشِ زائدہ، س گِ صفرا، بواسیر، ٹا گوں کی مایاں یلی رگیں، فربہی، بڑی آ ت میں چھوٹے چھوٹے غبارے (ڈائی ورٹی کلوسس) اور ہائٹس ہر یا (جس میں لیٹتے وقت معدہ کا کچھ حصہ سی ے میں پھسل کر چلا جاتا ہے)۔
اس وقت ترقی یافتہ د یا میں اور ترقی پذیر د یا کے بڑے شہروں میں سب سے بڑا قاتل مرض تاجی قلب ہے۔ اس مرض کے اسباب و عوامل میں ذیابیطس، فربہی اور خو میں افراطِ کولیسٹرول اہم ہیں۔ اس حقیقت کو اب بالعموم تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ا تی وں عوامل کے پیدا ہو ے میں اس بات کا اہم کردار ہے کہ ا لوگوں کی غذا میں بھوسی اور پھوکس کم ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جسم کو اپ ے معمول کے مطابق کام کر ے کے لیے قدرے کولیسٹرول ضروری ہے۔ کولیسٹرول سے جسم میں بعض ہارمو ساخت ہوتے ہیں، کولیسٹرول سے خلیات اور آ توں کے اردگرد کی جھلی کی صحت برقرار رہتی ہے۔ کولیسٹرول تولیدِ صفرا کرتا ہے، لیک ا سب افعالِ جسم کی تکمیل کے لیے ہمیں صرف 150 ملی گرام کولیسٹرول روزا ہ کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقدار زیادہ ہیں ہے کہ اس قدر مقدار ا ڈے کی صف زردی میں موجود ہے اور ایک گرام روزا ہ ا درو جسم پیدا ہوجاتی ہے۔ زیادہ بھوسی والی غذاؤں سے کولیسٹرول بھی کم ہوجاتا ہے۔جب خو کے دھارے میں زائد از ضرورت کولیسٹرول ہوتا ہے تو وہ چھوٹی بڑی سرخ رگوں کی دیواروں پر جم ے لگتا ہے اور یہ عمل اسی طرح جاری رہتا ہے۔ پھر ا دیواروں پر کیلشیم بھی جم جاتا ہے اور دیواروں کی یہ پپڑیاں سخت اور کھردری ہوجاتی ہیں، جس کا آخری تیجہ یہ ہوتا ہے کہ رگیں ا در سے سخت اور ت گ ہوتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر ب د ہوجاتی ہیں۔ جب دل کی سرخ تاجی رگیں ب د ہوجاتی ہیں تو حملۂ قلب کا سا حہ وقوع پذیر ہوسکتا ہے جو سخت مہلک بھی ہوسکتا ہے۔
جب غذا میں بھوسی زیادہ ہوتی ہے تو یہ کئی طرح سے خو کے کولیسٹرول پر اثرا داز ہوتی ہے۔ اول تو جس غذا میں بھوسی زیادہ ہوتی ہے اس میں قدرتی طور پر کولیسٹرول کم ہوگا، کیو کہ غذا کا زیادہ تر کولیسٹرول صرف گوشت، ا ڈوں، اشیائے شیر خا ہ مثلاً پ یر، دودھ، مکھ اور گھی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ب اسپتی گھی اور دیگر جم ے والی چک ائیوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس غذا میں بھوسی کا جزو زیادہ ہوتا ہے وہ غذا کی الی میں تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے، اور اس تیز رفتاری کے سبب سے یہ غذا بآسا ی جذب و تحلیل ہیں ہوتی اور کولیسٹرول کے ساتھ مل کر فضلہ کے راستے خارج ہوتی ہے۔ اس عمل کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ جسم اور خو میں کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے، تیجتاً سرخ رگوں کی سختی کا عمل مدھم ہوجاتا ہے جو بھوسی والی غذا کا ایک اہم فائدہ ہے۔بھوسی والی غذا کا ایک اہم اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے کھا ے سے فربہی کم ہوتی ہے کہ اس قسم کی غذاؤں میں حرارے کم ہوتے ہیں۔ پتّے کے اکثر امراض کا تعلق س گِ صفرا سے ہے۔ زیادہ تر س گِ صفرا کولیسٹرول سے ب تے ہیں۔ اگر غذا میں بھوسی زیادہ ہوگی تو وہ صفرا کے مکیات سے مل کر یکجا ہوجائے گی، اس طرح صفرا کے مکیات فضلہ میں خارج ہوجاتے ہیں، تیجتاً س گِ صفرا ہیں ب ے پاتے اور پِتّے کے امراض سے تحفظ ملتا ہے۔
ج غذاؤں میں بھوسی کم ہوتی ہے مثلاً شکر اور میدہ سے ب ی ہوئی اشیاء (کیک، پیسٹری، بسکٹ وغیرہ)، ا سے ذیابیطس ہو ے کا امکا بڑھتا ہے۔ ج لوگوں کے خا دا میں ذیابیطس موروثی ہے، وہ بھوسی آمیز غذائیں استعمال کرکے اس آ ے والی ذیابیطس کا سدباب یا کم سے کم ملتوی کرسکتے ہیں، اسی طرح اس قسم کی غذاؤں سے ’’بے قابو ذیابیطس‘‘ بھی بہتر طریقے پر قابو میں آجاتی ہے۔
بعض دیگر امراض مثلاً سوزشِ زائدہ، بڑی آ توں کی رسولیاں، سرطا قولو اور آ توں کے دیگر امراض کا سبب غذا میں بھوسی کی قلت ہے۔ مغربی ممالک میں ایک عام مرض عطفیاتِ قولو یع ی ’’ڈائی ورٹی کولر‘‘ مرض ہے، جس میں دباؤ کے سبب سے آ توں میں سے چھوٹے چھوٹے غبارے کل آتے ہیں۔ ا میں بھی یہ غذا مفید ہے۔ سرطاِ قولو کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ آ توں کے ا درو ی حصوں پر فضلہ کے کیمیائی مواد سے مستقل خراشیں پڑتی رہتی ہیں۔ آ توں کی اقلیم میں جس قدر یہ سفر آہستہ ہوگا اسی قدر زیادہ عرصے تک آ توں کی ا درو ی دیواروں پر خراشیں پڑتی رہیں گی۔ اس کا تدارک بھی بھوسی آمیز غذا سے ہوگا کہ بھوسی والی غذا آ توں میں جلد سفر کرے گی اور کیمیائی مواد کے ضرر سے محفوظ رکھے گی۔
اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غذا کی بھوسی آ توں پر کس طرح حفاظتی اثر ڈالتی ہے (1) بھوسی سے صفرا کے مکیات ب دھ جاتے ہیں، اس طرح تمام جسم کی کل کولیسٹرول میں کمی واقع ہوجاتی ہے، (2) جس غذا میں چھلکا یا بھوسی ہوگی مثلاً ترکاریاں، سبزیاں، پھل، موٹے ا اج وغیرہ، اس قدر یہ غذا بآسا ی جذب ہیں ہوگی اور اس کا سفر بھی آ توں میں عجلت سے ہوگا، اور اس کا ضرر رساں اثر آ توں پر ہیں پڑے گا، (3) اس غذا میں حرارے، شکر، چربی اور کولیسٹرول کم سے کم ہوگی اور فربہی و امراضِ قلب کا امکا گھٹے گا۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ غذا میں ترکاریوں، سبزیوں، پھلوں، بغیر چھ ے آٹے کی روٹیوں، پھلیوں، چھلکے والے بادامی چاولوں، چھلکے سمیت آلوؤں کے بڑھا ے کی ضرورت ہے، اگر باہر سے غذا پر بھوسی (برا ) کو چھڑک لیا جائے تو وہ بھی درست ہے۔ اس کے برعکس شکر، مٹھائیوں، دودھ اور اس سے ب ی ہوئی اشیاء کو کم کر ے کی ضرورت ہے۔ چ ا چہ میدے اور چھ ے ہوئے آٹے کی ب ی ہوئی اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔
پودوں کے جو حصے کھائے جاتے ہیں ا میں ایک حصہ بھوسی بھی ہے۔ بھوسی کو دوراِ ہاضمہ، ہاضم لعاب ہ ہضم کرسکتے ہیں ہ توڑ سکتے ہیں، لیک اس پر وہ جراثیم اثر ڈالتے ہیں جو مستقلاً ہماری آ توں میں مقیم ہیں۔ اب اس بات میں کوئی شک و شبہ ہیں کہ بھوسی غذا کا ایک ا تہائی اہم، ضروری اور مفید حصہ ہے جو پھلوں کے چھلکوں، ترکاریوں اور کامل ا اج سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ریشہ دار پھوکس کی شکل میں ہوتا ہے اور صحت کو برقرار رکھ ے میں ہایت معاو ہوتا ہے۔ ہر شخص ایک دو بڑے چمچے بھوسی کے بآسا ی کھا سکتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، یہ مقدار بآسا ی آ توں میں سے گزر جاتی ہے۔بھوسی کا خلاصہ رفع حاجت سے جو تعلق ہے وہ ہمیشہ سے معلوم ہے، لیک اس سے جو دیگر م افع صحت کو حاصل ہوتے ہیں وہ جدید دریافت ہے اور اس کا سہرا اس مشہور برطا وی ڈاکٹر کے سر ہے جس ے اس ضم میں افریقہ میں ب یادی کام کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ج لوگوں کی غذا میں بھوسی کا ع صر کم ہے ا میں متعدد امراض ج م لیتے ہیں، یع ی بواسیر، ٹا گوں کی یلی مایاں رگیں، سوزشِ زائدہ، بڑی آ ت کی رسولیاں، معدہ کے کچھ حصے کا اوپر سی ے میں چلے جا ا، آ توں میں چھوٹے چھوٹے زائدوں یا غباروں کا کل آ ا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جسم کے مختلف علاقوں میں اس وجہ سے سرطا بھی ہوسکتا ہے۔
بہرحال تحقیق تو جاری رہے گی، لیک یہ بھی ضروری ہے کہ غذا پر ظرثا ی کی جائے، مثلاً پھلوں کے رس اور ترکاریوں کے عرق پی ے کے بجائے کامل پھل اور ترکاریاں کھائیں تاکہ ا سے پھوکس (ریشہ) بھی حاصل ہو، ہر قسم کی ترکاریاں کچی، ابلی ہوئی، پکی ہوئی کھا ی چاہئیں۔ ہ جا ے لوگ کیوں صاف شدہ میدے کی ب ی ہوئی چپاتیاں کھا ے کے شوقی ہیں، کیوں وہ زیادہ تر ایسی غذا کھاتے ہیں جس میں بھوسی اور چھلکا برائے ام ہوتا ہے، کیوں چربی میں تلی ہوئی غذاؤں کو ہایت شوق و رغبت سے کھایا جاتا ہے!
یہ اُ لوگوں کا وتیرہ ہے جو اپ ے آپ سے غذا اور غذائیت کے متعلق اساسی سوال ہیں پوچھتے اور ا کے صحیح جواب ہیں چاہتے۔ دراصل یہ جا ا اور معلوم کر ا چاہیے کہ اچھی غذا کیا ہے، جسم کو کس غذا کی ضرورت ہے، جسم اپ ا فعل کس طرح ا جام دیتا ہے اور آپ خود اس ضم میں کیا کررہے ہیں؟ ا سوالات کے صحیح جوابات ضروری ہیں اور ا مسائل کو سرسری ا داز پر ہیں ٹال ا چاہیے۔ اس غرض سے غذا کا ا تخاب چار بڑے گروہوں میں سے کر ا چاہیے یع ی (1) پھل اور ترکاریاں، (2) اج اس و ا اج، (3) لحمیات (پروٹی ) بشمول دال، ا ڈے وغیرہ، (4) دودھ اور دودھ سے ب ی ہوئی اشیاء مثلاً دہی وغیرہ۔
اس فہرست کے ہر گروہ میں سے غذا لی جائے۔ ا پھلوں، سبزیوں، ترکاریوں، ا اج و اج اس اور دالوں میں جو بھوسی، چھلکے اور پھوکس کا ع صر ہے اس کو پھی ک ا ہیں چاہیے۔ گھی، چربی، تیل اور سفید شکر سے کم سے کم استفادہ کیا جائے، کھا وں کے درمیا پیاس سے زیادہ پا ی پیا جائے۔ اس طرح آ توں کی صحت کو برقرار رکھا جائے گا تو اس کے م افع بے شمار ہیں اور اس کے مفید اثرات مجموعی طور پر تمام صحت پر مرتب ہوں گے۔اس بات کو کہ ے کی ضرورت ہیں کہ اپ ی اجابت کا حجم اور مقدار بڑھا ا آسا ہے اور اس عمل سے صحت پر ہایت اچھا اثر پڑے گا، اور ظاہر ہے کہ یہ طریقہ ارزاں اور آسا ہے بہ سبت بڑے بڑے ہسپتال ب اکر اپ ی صحت بحال کر ے کے۔13
ساک ا شہر قائد کا سلور جوبی مشاعہ زاہد عباس
اچھی شاعری س ا میری طبیعت میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کہیں بھی کوئی مشاعرہ ہو تو میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں مشاعرہ س ے جاؤں۔ کراچی ماضی میں ایسی ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے حالات کی خرابی کے باعث گلی محلوں میں ہو ے والے مشاعرے اب ہ ہو ے کے برابر ہیں۔ میری طبیعت شاعرا ہ ہے اس لیے مشاعرے کی خبر میرے لیے خوشی کی علامت ہوتی ہے اس لیے میں کبھی کبھار اپ ی دوستوں میں شعر کہہ لیتا ہوں۔
ہر شخص میں خدا کی طرف سے کوئی ہ کوئی صلاحیت ہوا کرتی ہے ادب سے محبت میرے یے خدا کی طرف سے دی گئی وہ ع ایت ہے جس کی ب یاد پر مجھے شاعری سے بہت زیادہ لگاؤ ہے۔ کہیں مشاعرہ ہو اور میں ہ جاسکوں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔
22 مارچ کو م عقد ہو ے والے 25 ویں سلور جوبلی مشاعرہ بیاد اظہر عباس ہاشمی کی خبر ملی تو میں خوشی سے ہال ہوگیا۔ بی الاقوامی شاعر ہوں‘ بڑا مشاعرہ ہو تو بھلا یہ کس طرح ممک ہے کہ میں ہ جاؤں۔ کراچی میں ما د پڑتی ادبی سرگرمیوں کو ز دہ کر ے کے لیے میرے زدیک ادب وہ چراغ ہے جس کی روش ی چار سو پھیلے گی۔ مشاعرے کی خبر س ے کے بعد میں ے 22مارچ کے اپ ے تمام پروگرام کی سل کیے اور ایکسپو سی ٹر کی راہ لی۔ میرے ساتھ میری فیملی کے وجوا بھی تھے جو میری طرح مشاعرے ے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں کاروبار ز دگی رات گئے تک چلتا رہتا تھا اس شہر میں لوگوں کا حالات کے باعث گھروں میں محصور ہوجا ا ادبی محفلوں سے دوری کا سبب ب ا۔ ا حالات میں کراچی میں سلور جوبلی مشاعرہ ہو ا ادبی حلقوں اور ادب دوستوں کے لیے وید سحر سے کم ہ تھا۔
خیر میں رات گیارہ بجے ایکسپو سی ٹر پہ چ گیا جہاں د یا ہی رالی تھی۔ مشاعرے کے لیے پ ڈال کو بڑی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا‘ بڑے اسٹیج کے سام ے فرشی شست پر لوگوں کے بیٹھ ے کے لیے چھ ہزار افراد کی گ جائش تھیء جب کہ چار ہزار کرسیاں اس کے علاوہ لگائی گئی تھیں اس طرح سامعی کے لیے دس ہزار شستوں کا اہتمام کیا گیا۔ اسٹیج کے دائیں جا ب قائداعظم محمد علی ج اح جب کہ بائیں جا ب اظہر عباس ہاشمی صاحب کی قدر آور تصاویر لگائی گئی تھیں۔ میرے وہاں پہ چ ے سے پہلے عوام کی بہت بڑی تعداد پ ڈال میں موجود تھی۔
پ ڈال کے چاروں طرف ر گ بر گی لڑیاں لگائی گئی تھیں جس سے مشاعرہ گاہ میں ر گ و ور کی برسات ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں ایکسپو سی ٹر میں داخل ہو رہے تھے۔ آ ے والوں کی ایک ہی م زل تھی‘ لوگوں کا جوش و خروش اور مشاعرے میں آ ے والوں کا م فی سوچ رکھ ے والوں کو ایک جواب تھا جس کی مثال ہیں ملتی۔ ا تظامیہ اور م تظمی مشاعرہ پوری توا ائیوں کے ساتھ پ ڈال میں موجود تھے ہر آ ے والے شخص کو اسٹیج سے خوش آمدید کہا جاتا لوگ اپ ی فیملیوں کے ساتھ مشاعرے میں شریک ہوئے جب کہ سیاسی قائدی ‘ صحافیوں‘ ادیبوں اور سماجی کارک وں کی بڑی تعداد سلور جوبلی مشاعرے میں شریک تھا۔ ظامت کے فرائض ج اب سلما صدیقی‘ شکیل خا ‘ فراست رضوی اور ع بری حبیب امبر ے ادا کیے۔ مشاعرے کی صدارت صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر رسا چغتائی ے کی۔ عوام کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے شعرا کرام ے کلام پیش کیے۔ بھارت سے آئے ہوئے شعرا ے پاکستا کی محبت میں غزلیں بھی س ائیں جس کو پ ڈال میں موجود لوگوں ے سراہا۔ بھارت سے آئی شاعرہ شبی ہ ادیب ے کہا کہ وہ پاکستا سے بہت محبت کرتی ہیں ہ دوستا جاتی ہیں تو ا ہیں پاکستا کی بہت یاد تی ہے۔ ا کا کہ ا تھا کہ دوریاں ختم ہو ی چاہئیں تاکہ ادبی لوگ ایک دوسرے سے آسا ی کے ساتھ ملتے رہیں۔ بھارت سے آئے شعراتاج الدی تاج‘ جوہر کا پوری اور حس کاظمی ے بھی اپ ے کلام سے شرکاء محفل سے خوب داد سمیٹی۔
دورا مشاعرہ مہما وں کی آمد کا سلسلہ بھی چلتا رہا اس دورا گور ر س دھ محمد زبیر خا کے ساتھ میئر کراچی وسیم اختر بھی پ ڈال میں آچکے تھے۔ عوام ے کھڑے ہو کر معزز مہما وں کو خوش آمدید کہا۔ دو وں مہما ا گرامی اسٹیج پر اپ ی اپ ی شستوں پر براجما ہوئے۔ گور ر س دھ اور میئر کراچی کی آمد پر مشاعرے کا ردھم متاثر ہوا جسے بعدازاں وہیں سے شروع کیا گیا جہاں سے روکا گیا تھا۔ کراچی سے تعلق رکھ ے والے عالمی شہرت یافتہ شاعر ج اب اجمل سراج کو خاص طور پر ا مہما وں کے سام ے غزلیں س ا ے کی دعوت دی گئی تاکہ پ ڈال میں موجود شرکا کے جوش میں اضافہ کیا جاسکے۔ اجمل سراج ے اپ ی غزلیں اور ظم س ا کر عوام سے ہ صرف داد سمیٹی بلکہ مشاعرے میں ئی روح پھو ک دی۔ اسی دورا آرٹس کو سل کے صدر احمد شاہ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ مشاعرے میں امریکا‘ برطا یہ اور ملک کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھ ے والے شعرا کرام ے کلام س ائے۔
گو ر س دھ محمد زبیر خا ے حاضری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرے روایت بہت قدیم ہے‘ مہذب معاشرے میں مشاعرے ادب اور ذوق کی پہچا ہوتے ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر ے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مل کر شہر کی رو قیں لوٹا ی ہیں۔ ا ہوں ے کہا آج مشاعرے کی 25 ویں سالگرہ ب ائی جارہی ے چو کہ مشاعرہ بیاد اظہر عباس ہاشمی مرحوم ہے تو میں اعلا کرتا ہوں کہ کراچی کی کسی اچھی اور بڑی شاہراہ کا ام اظہر عباس ہاشمی کے ام سے موسوم کیا جائے گا۔ میئر کراچی کے اس اعلا پر شرکائے محفل مسکرا ے لگے۔ میرے پوچھ ے پر ایک شخص ے بتایا کہ ہم تو سمجھیں تھے کہ ادب کے حوالے سے کوئی بڑا اعلا کیا جائے گا‘ سڑک کا ام موسوم کر ا اپ ی جگہ میئر کو شعرا کی فلاح و بہبود کے کسی م صوبے کا اعلا ضرور کر ا چاہیے تھا یا پھر ادب کے حوالے سے کسی ایسے پروگرام کا اعلا ضروری تھا جس سے کراچی میں ما د پڑتی ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوسکتی یہ تو کوئی کار امہ ہیں جس کا اعلا ات ے بڑے مجمع کے سام ے کیا جاتا یہ کام تو صرف ایک وٹس کال دی ے سے بھی ہوجاتا ہے۔ مشاعرے میں موجود لوگوں ے میئر کراچی کے اس اقدام کو ام اسب قرار دیا۔
دورا مشاعرہ احمد شاہ صاحب بہت زیادہ سرگرم دکھائی دیے۔ وہ کبھی اسٹیج پر ظر آتے تو کبھی عوام کے درمیا موجود ہوتے ا کو دیکھ کر مجھے بھارتی فلم ’’میں ہوں ا‘‘ یاد آگئی کیوں کہ شاہ صاحب کی ہر جگہ موجودگی سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ج اب ’’میں ہوں اں‘‘ یع ی ہر جگہ ہوں۔ استقبالیہ پڑھتے ہوئے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ے کہا کہ شہر قائد کا عالمی مشاعرہ بڑا بارو ق اور بامع ی ہے س دھ دھرتی محبت کر ے والوں کی دھرتی ہے‘ پاکستا سے محبت کر ے والوں اور اچھی سوچ رکھ ے والوں ے زبا اور ادب کے فروغ کے لیے عالمی مشاعرہ کا 25 سال قبل آغاز کیا تھا جو اب اس شہر کی پہچا ب چکا ہے۔ ا ہوں ے گور ر س دھ اور میئر کراچی کے ساتھ ساتھ آرٹس کو سل کے صدر احمد شاہ کا بھی شکریہ ادا کیا ج کے تعاو و سرپرستی کی وجہ سے مشاعرے کا ا عقاد ممک ہوا۔ ا ہوں ے مزید کہا کہ گور ر س دھ بڑے پرجوش آدمی ہیں جس پر مشاعرہ کمیٹی گور ر س دھ اور میئر کراچی کے تعاو کی مشکور ہے۔ مشاعرہ کمیٹی کی جا ب سے میئر کراچی اور گور ر س دھ کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی مشاعرے کے درمیا اس چھوٹی سی تقریب کے بعد شعرا ے اپ ے کلام س ا ے شروع کیے۔ حاضری محفل اچھے شعروں پر دل کھول کر داد دیتے جب کہ ہلکے پھلکے کلام پر آوازیں کستے۔ کچھ خواتی ے وصی شاہ کو کہا کہ ’’شعر س ائیں چیتے ہیں‘‘ بعض لوگ پ ڈال سے یہ کہتے ہوئے کلے ’’اچھا کلام س اؤ ور ہ ہم چلیں۔‘‘
جوں جوں رات گہری ہوتی جارہی تھی عوام کی دل چسپی میں کمی آتی جارہی تھی اسٹیج پر موجود بڑے شعرا کا کلام س ے کو حاضری آوازیں لگاتے رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کرسیاں خالی ہوتی جارہی تھیں اور ایک لمحے تقریباً ساری کرسیاں خالی ہوچکی تھیں فرشی شستوں پر براجما لوگوں کے درمیا بھی خلا بڑھتا جارہا تھا کچھ دیر پہلے جو پ ڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا وہ اب تصویر کا دوسرا رخ پیش کررہا تھا۔ ات ے بڑے مشاعرے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت کے بعد ا کا مشاعرے کے درمیا سے اٹھ جا ا م تظمی مشاعرہ کے لیے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مشاعرے کے ا عقاد پر م تظمی دو حصوں میں تقسیم ہوچکے تھے ایک گروپ ے واضح طور پر اس عالمی مشاعرے سے لاتعلقی کرلی جس کی وجہ سے مشاعرے کی تمام تر ذمے داری احمد شاہ صاحب کے کا دھوں پر آ پڑی اب جس قدر ممک تھا لوگوں تک اس مشاعرے کی تشہیر کی گئی سب کچھ بہتر ہو ے کے بعد اس طرح کی صورت حال کا ہوجا ا مع ی خیز ہے۔ خیر جو بھی ہو شہر کراچی میں سلور جوبلی مشاعرہ آ ے والے وقتوں میں ایسا چراغ ہوگا جس کی روش ی سے ادبی حلقوں میں ئے دیپ جلیں گے۔ فجر کی اذا کے ساتھ ہی اس عالمی مشاعرے کا اختتام ہوا مشاعرے میں ا ور مسعود‘ امجد اسلام امجد ے بھی اپ ا کلام پڑھ کر س ایا۔ اختتامی تقریب پر احمد شاہ ے عوام کو بتایا کہ 13 اگست کو یوم آزادی پاکستا کی م اسبت سے بڑے پیما ے پر مشاعرے کا اہتمام کیا جائے گا۔
یوں صبح کی روش ی پھیل ے کے بعد میں گھر آگیا کراچی میں ہو ے والا یہ عالمی مشاعرہ میرے ذہ می اچھی یادوں کے ساتھ ساتھ ا تلخ یادوں کو بھی چھوڑ گیا جو میرے زدیک ا تظامیہ کی جا ب سے عدم تعاو کی وجہ سے ہوئیں یا پھر ا تظامیہ کے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ہوئیں یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ م تظمی کو اس بات کا احساس ہی ہ تھا کہ رات بہت زیادہ ہو چکی ہے اور لوگ اپ ی فیملیوں کے ساتھ موجود ہیں ا کی دلچسپی صرف اس صورت برقرار رکھی جاسکتی تھی کہ امور شعرا کو جلد کلام کی دعوت دے دی جائے۔
جو بھی ہوا مجھے امید ہے کہ آ ے والے ادبی پروگراموں میں ا باتوں کا ضرور خیال رکھا جائے گا بڑی سمجھ کے سات فیصلے کر ے سے کراچی کے ساتھ ساتھ ملک میں ادب کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
nn