قول وفعل کا تضاد ومعاشرتی بیماری بنتی جارہی ہے (زرقا فرخ)

467

 الحمدلِلہ، ہم مسلمان ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچّے پیروکار اور انؐ کے نقش قدم پر چلنے والے ان کے وہ امتی ہیں، جو ہمیشہ بہتر سے بہترین عمل کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے انفرادی رویّے سے ہی ہمارے اجتماعی عمل کی داغ بیل پڑتی ہے اور بقول اقبالؔ ہم میں سے ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ۔۔۔یہ حقائق بجا سہی، مگر آج ہمیں کچھ معاشرتی رویّوں کی بنا پر یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ’’پیمانۂ صدق و سچائی‘‘ کے کس درجے پر کھڑے ہیں؟ آیا، ہمارے ’’قول و فعل‘‘ میں کوئی نمایاں یا قابل گرفت تضاد تو نہیں پایا جاتا؟ ہم جو کہتے ہیں اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں یا دوسرے معنوں میں اپنے کہے کا کتنا پاس رکھتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: ’’اللہ اس بات سے سخت بے زار ہے کہ ایسی بات کہو ،جو کرو نہیں۔‘‘ (سورۃ الصف۔3)
اسی طرح ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں آپؐ کی زندگی کا بھی کوئی گوشہ، کوئی پہلو اس عمل سے متصل نہیں ملتا بلکہ صاف و شفاف رویّوں کی اعلیٰ مثالیں جابجا ملتی ہیں۔ آپؐ دنیا میں ’’معلم اخلاق‘‘ بنا کر بھیجے گئے، لہٰذا آپؐ شخصیت کے اس وصف سے مزیّن تھے۔ آپؐ کو اسی خوبی کی وجہ سے دوسرے اصلاحِ معاشرہ کرنے والوں پر نمایاں فوقیت حاصل ہے کہ آپؐ کی کی گئی نصیحت کانوں کے ذریعے سے ہی نہیں بلکہ آنکھوں کے راستے بھی دل میں گھر کرگئی۔ آپؐ نے جو کہا، اس پر عمل کرکے دکھایا۔ جس بات کی نصیحت و تلقین فرمائی، آپؐ پہلے سے ہی اس پر عمل پیرا دکھائی دیے۔ ہمیں ایسی احادیثِ مبارکہ بھی ملتی ہیں، جو ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ آپؐ اس وقت تک لوگوں کو کوئی نصیحت نہیں کی یا کوئی کام کرنے کو نہیں کہا، جب تک کہ خود اس پر عمل کرکے نہ دکھایا۔ ایسا معاملہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے احکامات مسلمانوں پر نافذ العمل کرتے وقت پیش آیا۔ آج ہم جو اپنے پیارے نبیؐ کے امتی ہیں اور بجا طور پر اس بات پر فخروانبساط کا تشکر بھرا اظہار بھی کرتے ہیں تو آج ہم مسلمانوں میں سے یہ معاملاتی صفت کیوں ناپید ہوتی جارہی ہے؟ یہ سوالیہ نشان ہر مسلمان کے دل و دماغ سے جواب کا متقاضی ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد کا جائزہ لینے سے پہلے اپنا ذاتی تجزیہ اور احتساب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ’’آپ فصیحت اور کو نصیحت‘‘ آج ہمارے معاشرے پر یہ مثل سو فی صدی صادق ہوتی نظر آرہی ہے، کیوں کہ ہم جو نصیحت دوسروں کو کرتے ہیں اس پر خود شازونادر ہی عمل کرتے ہیں۔ یہ لمحۂ فکر ہے کہ سگنل توڑنے والوں کو بُرا بھلا کہنے اور ان کے لیے ہدایت کی دعا کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو بہت ہی برے القابات و کلمات بھی منہ سے نکالنے سے نہیں چوکتے۔ (اس بات کا اطلاق آپ کی ذاتی اخلاق کے معیار و درجہ پر منحصر ہوتا ہے۔)
دوسروں کو یہ سب کہنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ اس بات کے مکلف ہوتے ہوئے کیا ہمارا نام کبھی سگنل توڑنے والوں میں نہیں لیا جاسکتا؟ یا پھر آج آپ نے بڑے وثوق سے ایسا کہ اور سوئے اتفاق اگلے ہی دن اپنی بات کی نفی کرتے دکھائی دیے؟ ایسی اور اس طرح کی بے شمار مثالوں کا ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی میں مشاہدہ کرسکتے ہیں اور ان امثال کے بہت واضح، کھلے اور دوررس اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے دیکھ سکتے ہیں؟
قول و فعل کے تضاد کا سب سے بڑا اور انتہائی سریع الاثر نقصان اور تکلیف دہ پہلو یہ ے کہ ہم اپنے بچوں اور معمارانِ مستقبل کے ساتھ بھی اس رویّے سے نہیں چوکتے۔ بچے جو تعمیرِ شخصیت و تربیتِ کردار کے انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں، ان پر اس رویّے کا اثر کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ ہم میں سے کتنے ہیں، جو یہ سوچتے ہیں؟ ایسے معاشرتی ماحول و فضا میں پروان چڑھنے والے نونہالوں سے ہم کسی اسلامی یا انسانی شخصیت و کردار کی امید رکھ سکتے ہیں؟ ہمارا کل کا مستقبل ہمیں اس رویّے کا بدل کیا دے گا؟ ہمیں اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے بلکہ بحیثیت مسلمان انتہائی درد مندی اور دل سوزی سے غوروفکر کرنا چاہیے۔ قول و فعل کا یہ تضاد دراصل جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمادیا کہ ’’مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔‘‘
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے دنیا میں ایک اعلیٰ اور عمدہ زندگی گزارنے کا عملی نمونہ پیش کرنے تشریف لائے تھے۔ زندگی کے ہر تاریک گوشے کو اپنے عمل کی روشنی سے تاب ناک بنانے آئے تھے۔ پھر ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قول و فعل کے اس تضاد کو ختم کرنا ناممکن ہے؟ اگر بات آج کے بگڑے ہوئے معاشرے پرکی جائے تو بھی ایک باعمل و باکردار مسلمان کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا۔ خدانخواستہ، کیا ہمارا معاشرہ بعثتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کے اکھڑ و جاہل عرب معاشرے سے بھی گیا گزرا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے، ہم تو الحمدلِلہ علم کی آنکھوں کو خیرہ اور دل و دماغ کو جلا بخشنے والی روشنیوں کے دور کے باسی ہیں۔ ہم یہ کم علمی اور کم ہمتی والی بات کس طرح اور کیوں کر کرسکتے ہیں؟ یہ معاشرتی بیماری، جو روز بروز کچھ اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ اس کے ناسور بننے کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں اور زندگی کا ہر گوشہ اس کی لپیٹ میں آتا جارہا ہے۔ اس تیزی سے بڑھتی بیماری سے چھٹکارا پانا ازبس ضروری و ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہر فرد واحد کا ’’انفرادی عمل‘‘ ہی اس کا زود اثر علاج ہے۔ یہی انفرادی کوشش و تدبیر ان شاء اللہ ایک دن پورے معاشرے کی اجتماعی صحت یابی کا موجب بن جائے گی، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اپنے شب و روز کا جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر اور شعوری کوششوں کے ساتھ اس تضاد کو ختم کرنے کے لیے سرگرداں ہوجائیں اور اس ضمن میں چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی کو بھی ناقابلِ گرفت نہ جانیں بلکہ اسے اپنی کڑی اور خود احتسابی کی بھٹی سے گزار کر اس کا سدِباب کرنے کی کوشش کریں۔
آیئے برادران و دخترانِ ملّت اسلامیہ بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص، آج اپنے آپ سے اس بات کا عہد کریں کہ ہم قرآن کے احکام اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی گئی تعلیمات کے مطابق اپنی اس کمی و کوتاہی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اپنے معاشرے کو اس عفریت سے چھٹکارا دلاکر پاکیزہ اور پُرامن اسلامی معاشرہ بنا کر دم لیں گے۔
آخر میں استدعا ہے کہ خدارا اس ’’قول‘‘ کو فعل کا ’’تضاد‘ کا شکار نہ ہونے دیجیے اور اپنے عمل کے سچا اور کھرا ہونے کا ثبوت پیش کیجیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس معاشرتی بُرائی کے تدارک کے لیے کی گئی کوششوں میں آپ کے ڈالے ہوئے حصے کا آپ کو اجر بھی دے گا اور اس بُرائی کے خاتمے کے بعد ایک بہترین معاشرتی زندگی کا انعام بھی آپ کو دنیا میں ہی مل جائے گا اور آپ اس کے ابتدائی اور مثبت اثرات بہت جلد اپنی انفرادی زندگی میں ہی محسوس کرنے لگیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل بھی ہوگی کہ بارگاہِ الٰہی میں آپ کوشش مقبول ہوئی ہے!!