(آئیے ڈپریشن پر بات کریں‘‘ عالمی یوم صحت پر جسارت فورم کا انعقاد رپورٹ:(قاضی عمران احمد

237

پروفیسر ڈاکٹر عبدالواسع شاکر (معروف نیورو فزیشن اور جسارت کے منتظم اعلیٰ):
میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ایک واقعہ سناؤں کہ ہم لاڑکانہ کے ایک علاقے میں گئے۔ یہ وزیر اعظموں کا شہر ہے۔ وہاں ایک بچے کو دیکھنے گئے اس کا نام پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم بچوں کا نام نہیں رکھتے۔ پوچھا کیوں؟ تو کہا کہ ہمارے یہاں بچے ایک ماہ میں ہی مر جاتے ہیں اگر بچے کی عمر ایک ماہ سے زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر ہم اس کا نام رکھتے ہیں۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ بچہ اگر گم نام مر جائے تو اس کا دکھ کم ہوتا ہے اور بچے کا نام ہو تو دکھ زیادہ ہوتا ہے۔ تو میں سوچنے لگا کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں کہ جس میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر مرنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ماں جو اپنے بچے کو جنم دیتی ہے وہ بھی سمجھتی ہے کہ بچے کو تو ایک آدھ ہفتے کے اندر مر جانا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس ملک کے اندر کبھی صحت صحیح ہو سکتی ہے۔ اس کا سرا پکڑنا ضروری ہے۔ جب بھی ہم صحت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسپتال زیادہ ہونے چاہئیں، دوائیاں دست یاب ہونی چاہئیں، ڈاکٹر زیادہ ہونے چاہئیں مگر ڈبلیو ایچ او کہتی ہے کہ نہیں، سب پہلے صحت کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ اگر نہیں ہوگی تو آپ ملک میں ہر بندے کے لیے ایک اسپتال بنادیں تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کہتی ہے کہ اگر آپ کو صحت کا مسئلہ حل کرنا ہے تو سب سے پہلے پینے کا صاف پانی مہیا کرنا ہوگا۔ سرا یہاں سے پکڑا جائے گا یعنی پینے کا صاف پانی۔ ہماری حکومت نے پچھلے دس برسوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے 20 ارب روپے خرچ کیے جب کہ اس پاکستان میں جو منرل واٹر انڈسٹری ہے وہ 20 ارب روپے سے زیادہ کی انڈسٹری ہے جو ایک فی صد لوگ ہیں وہ 20 ارب روپے کا پانی خریدتے ہیں لیکن ہماری حکومت نے صاف پانی مہیا کرنے کے لیے دس برسوں میں بھی دس ارب روپے خرچ نہیں کیے۔ پاکستان میں 70 فی صد آبادی ایسی ہے جو پانی کو بالکل اسی طرح ہی پیتی ہے جیسا ان کو مل جائے وہ ابالتے تک نہیں ہیں۔ سب سے پہلے صاف پانی مہیا کرنا ہوگا اور پانی کی قدروقیمت سمجھانی ہوگی۔ ہمارے ملک میں پانی کم نہیں ہے لیکن ضائع ہوتا ہے۔ اس پانی کو کس طرح محفوظ کرنا ہے اپنے بچوں کو اس کا شعور دینا ہوگا۔ صحت کے لیے دوسری چیز صفائی ہے اگر صفائی نہیں ہوگی تو آپ بیماری سے نہیں بچ سکتے، دوائیوں سے نہیں بچتا، ویکسین سے نہیں بچتا۔ وہ بچ سکتا ہے بہ شرط یہ کہ صفائی موجود ہو۔ اگر شہر کے اندر کچرا موجود ہے اور وہ کچرا نہیں اٹھایا جا رہا تو بیماریاں پھیلیں گی اور کمیونیکیبل بھی پھیلیں گی اور نان کمیونیکیبل بھی پھیلیں گی، ذہنی صحت بھی اسی سے ہوتی ہے، ڈپریشن بھی اسی سے ہوتا ہے۔ ساری بیماریاں اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ دوسری چیز کہتی ہے کہ اگر آپ کو صحت کا نظام بہتر کرنا ہے تو سینی
ٹیشن کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں ہائی جین سکھائی تھی آپ کے ہائی جین جتنے اچھے ہوں گے آپ کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑے گی، علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تیسری چیز غذائیت ہے کہ زیادہ تر بیماریوں کی وجہ غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 45 فی صد عورتوں میں خون کی کمی ہے، ان کو اتنی غذائیت نہیں ملتی کہ ان کے جسم میں خون بنے، جسم میں خون بنانے کی فیکٹری تو لگی ہوئی ہے اور وہ چوبیس گھنٹے خون بناتی رہتی ہے اور جو حاملہ خواتین ہیں وہ 52 فی صد ہیں ظاہر جو ان کے بچے پیدا ہوں گے وہ بھی جسمانی اور ذہنی طور پر کم زور ہوں گے اور جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی اینیمیا ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 44 فی صد میں خون کی کمی پائی جاتی ہے۔ جس بچے میں کون کی کمی ہوگی اس بچے کی جسمانی و دماغی نشوونما اور صلاحیت متاثر ہوں گی تو یہ غذائیت کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں موٹاپا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت جنک فوڈ کی جو انڈسٹری ہے وہ دوسو ارب روپے کی انڈسٹری ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں 16 فی صد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں ایک طرف وہ ہیں جن کے پاس غذا نہیں ہے۔ پھر ڈبلیو ایچ او کہتی ہے کہ صحت کے لیے جو اگلی اہم ترین چیز ہے وہ تمباکو ہے اس وقت دنیا میں سب سے بڑا اور نمبر ون قاتل تمباکو ہے اور ہمارے ملک میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ بچے آٹھویں کلاس سے اسکولوں میں سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں اور ہمارے ملک میں جو گٹکے کا استعمال ہے، پاکستان میں گٹکے کی انڈسٹری سو ارب روپے کی ہے کوئی اس کا ریکارڈ نہیں ہے، کوئی رجسٹریشن نہیں ہے، کوئی ٹیکسیشن نہیں ہے، ٹوبیکو انڈسٹری پاکستان میں اتنی مضبوط ہے کہ حکومت کو سو ارب روپے دیتے ہیں، سو ارب روپے کا ٹیکس سگریٹ کمپنیوں سے پاکستان کی حکومت وصول کرتی ہے اور وفاقی حکومت ہیلتھ پر صرف 22 ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ پوری دنیا میں تو اب یہ قانون بن گیا ہے کہ سگریٹ کمپنیوں سے جتنا پیسہ وصول کیا جائے گا وہ پورا کا پورا صحت پر خرچ کیا جائے گا۔ ہمارے یہاں سگریٹ کمپنیوں سے جتنا پیسہ ریونیو کی مد میں آتا ہے وہ بھی صحت پر خرچ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوبیکو انڈسٹری بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کہتی ہے کہ اگر آپ لوگوں کو مرنے سے بچانا چاہتے ہیں تو سگریٹ نوشی کم کردیں، دس فی صد اگر دنیا میں سگریٹ نوشی کم ہو جائے تو اموات کی شرح میں 30 فی صد کمی آ سکتی ہے۔ 18 کروڑ کی آبادی میں 40 فی صد لوگ نشے کے عادی ہیں اور یہ سب نوجوان ہیں اور یہ پڑھے لکھے گھرانوں کے فرد ہیں۔ اسلام آباد کے ایک اسکول کی رپورٹ آئی تھی کہ اسکول کے 29 فی صد بچے نشے کے عادی ہیں، ایک باقاعدہ منظم طریقے سے بچوں میں نشہ پھیلایا جا رہا ہے، اس کے لیے پورے پورے نیٹ ورک کام کر رہے ہیں جس میں انتظامیہ، اساتذہ، پولیس، سرکاری اہل کار سب شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک (معروف نیورو فزیشن اور پیما کے مرکزی رہنما):
پاکستان میں ایک ہزار میں سے 57 بچوں کی اموات ہو جاتی ہیں۔ اگر پڑوسی ممالک کا موازنہ کریں بھارت اور بنگلہ دیش میں جو ہمارے ساتھ رہے وہاں یہ کم ہے، بھارت میں 25 ہے، سری لنکا میں اس سے بھی کم 9 ہے اور جاپان میں تو بہت ہی کم دو ہے، ایک طرف ہماری آبادی میں جوان اور تازہ خون زیادہ شامل ہے اور اس کے حوالے سے جب صحت کے اشاریے کی طرف بات کریں تو ہمارے پاس اموات کی شرح بہت زیادہ نظر آتی ہے جب کہ دوران زچگی ایک لاکھ میں سے 260 خواتین مر جاتی ہیں یہ ایک خطرناک اعداد و شمار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں دو قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ایک نان کمیونیکیبل ڈیزیز اور ایک ہوتی ہے کمیونیکیبل۔ ہمارے یہاں جو ای پی آئی کا نظام ہے اس کے تحت کمیونیکیبل ڈیزیز کی روک تھام کی جاتی ہے لیکن پاکستان کے اندر ایک شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو نان کمیونیکیبل ڈیزیز کا ہے جس کے اندر بلڈ پریشر، کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماریاں، ذہنی بیماریاں اور تمباکو نوشی سے ہونے والی مختلف بیماریاں شامل ہیں۔ پاکستان کی آبادی اس وقت 18 کروڑ سے زیادہ ہے اور اس وقت پاکستان میں جو سب زیادہ بوجھ ہے وہ بلڈ پریشر کی بیماری کا ہے، ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اس بیماری میں مبتلا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 70 فی صد اموات نان کمیونیکیبل ڈیزیز کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ یہ بہت بڑی شرح ہے جس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں آگہی کی اور ان پر توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ قریباً قریباً 5 فی صد آبادی ایسی ہے جو 8 ملین کے قریب بنتی ہے جو ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے یہ اندازہ ہے صحیح اعداد و شمار کے مطابق 60 فی صد آبادی جو جوانوں کی ہوگی آنے والے 20 سے 25 برسوں میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوگی اگر اس کے حوالے سے صحت مندانہ ماحول، صحت مندانہ زندگی کی آگہی اور اقدامات نہیں کیے گئے تو بہت بڑی تعداد ذیابیطس کے مرض کی ہو گی، نہیں تو بلڈ پریشر کے مریضوں کی ہو گی۔ یہ وہ بڑے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم جوان معاشرے سے نان کمیونکیبل ڈیزیز معاشرے کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ 16 فی صد آبادی ایسی ہے جو ان بیماریوں کی وجہ سے ہے شوگر، بلڈ پریشر، تمباکو نوشی کا شکار ہے، اس کے علاوہ قریباً 14 سے 18 فی صد لوگ سگریٹ پیتے ہیں، نان چیونگ ٹوبیکو کے علاوہ پاکستان میں بہت زیادہ چیونگ ٹوبیکو یعنی پان، مین پوری، گٹکا اور اتنی زیادہ چیزیں ہیں کہ نام بھی صحیح سے نہیں معلوم 20 ملین سے زیادہ لوگ ہیں جو اس میں مبتلا ہیں، ٹراما میں ہمارے یہاں روڈ سیفٹی اور دیگر حوالوں سے بہت زیادہ سخت اقدامات نہیں ہیں، ایک ملین سے زیادہ افراد ٹراما انجریز یا دیگر حادثات کے نتیجے میں بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایک لاکھ میں 250 افراد ایسے ہیں جن پر فالج کا حملہ ہوتا ہے، محتاط اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 400 افراد فالج کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے بنیادی عوامل وہی ہیں جو ایک شوگر کی بیماری، بلڈ پریشر، موٹاپا، تمباکو کا استعمال یہ فالج اور دیگر بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں 5 ہزار سے 7 ہزار افراد سالانہ خودکشی کی طرف جاتے ہیں۔ ایک فی صد لوگ مرگی کا شکار ہیں۔ 17 فی صد سے زیادہ لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں یعنی ایک ہزار میں سے 22 لوگ۔ چار ملین لوگ ایسے ہیں جو مختلف نشہ آور ادویہ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ دیگر نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ملیریا پر دیگر ممالک میں قابو پالیا گیا ہے مگر ہمارے یہاں حکومتی سطح پر لاکھوں روپے اس پر خرچ کیے جانے کے باوجود یہ متعدی مرض کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے فنڈ کہیں نہ کہیں تو لگ جاتے ہوں گے مگر کنٹرول نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہماری حکومت پورے سال میں ایک فرد پر صرف 800 روپے خرچ کرتی ہے جب کہ ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کے مطابق 4000 روپے خرچ ہونے چاہئیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی (صدر پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی):
اگر ہم مسائل کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حل بھی بتائیں تو اس میں ہماری بڑی کام یابی ہے۔ 17 سال پہلے آج ہی کے دن نفسیاتی بیماریوں کو فوکس کیا گیا۔ 2001ء میں اس کا سلوگن تھا ’’نفسیاتی لوگوں کو اپنے سے الگ نہ سمجھو‘‘ ان کو دھارے میں لاؤ تاکہ وہ گھر کے ہی ایک رکن ہیں۔ جسمانی صحت کے بغیر ذہنی صحت ادھوری ہے۔ ذہنی صحت ایک سماجی اثاثہ ہے، جسمانی، ذہنی آسودگی کا نام ہے۔ اگر طرز زندگی کو تبدیل کر لیا جائے تو یہ صحت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ رویوں کو تبدیل کر کے بھی ذہنی صحت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 34 فی صد افراد مختلف قسم کے ذہنی امراض کا شکار ہیں یعنی سات کروڑ افراد کو کسی نہ کسی ذہنی بیماری لاحق ہے۔
ڈاکٹر جبار خٹک (چیف ایڈیٹر روزنامہ عوامی آواز):
پہلے ہم سمجھا کرتے تھے کہ ڈپریشن کسی انسانی کیفیت کا نام ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ جسم میں کیمیائی تبدیلیوں کے باعث یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہ بیماری ہے۔ صحت انسان کا بنیادی حق ہے اور پاکستان کے آئین بھی یہ بنیادی انسانی حق کے طور پر واضح موجود ہے، بنیادی صحت کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے مگر بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت اس ذمے داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکی۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ صحت کے معاملے بھی واضح طبقاتی فرق موجود ہے۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ علاج معالجے کی سہولت یا پیسے نہ ہونے کی صورت میں لوگ تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں تو دوسری طرف معمولی بیماری کے لیے بھی بہترین اسپتال ہونا چاہیے۔ ہمیں اجتماعی طور پر اس ریاستی بے حسی کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔ اور ہمیں ڈپریشن کا شکار لوگوں کو اپنے سے الگ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان لوگوں کی صحت کے لیے کماحقہ کوششیں کرنی چاہئیں۔