امریکا کا عالمی کتدار اور ہماری ذمہ داریاں(پروفیسر خورشید احمد)

132

مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ امت ، ’امتِ وسط‘ ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت دینا ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس امت میں اگر تشدد کی سیاست دَر آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبّا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اسلام: تشدد، زور زبردستی اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت، بھائی چارے، رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔ جہاد اپنی تمام صورتوں میں___یعنی نفس کے ساتھ جہاد، زبان اور قلم سے جہاد، مال سے جہاد اور جان سے جہاد___ واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے۔ ہرسطح پر اس کے تصور، تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیرمسلم سب فیض یاب ہوسکیں۔ یوں تو جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے، اس وقت جہاد کی تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے۔ اس کا یہ کردار سب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے واضح ہونا چاہیے تاکہ غیرمسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد، آداب اور ضابطۂ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی، تعلیمی، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے، جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی حوالوں سے باہمی تعاون اور احترام کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ ایسی ضرورت ہے، جسے مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفیے کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے، تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی مؤثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی مؤثر ادائی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے۔ ’امتِ وسط‘ کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
پاکستان کا خصوصی کردار
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہلِ پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی چھپی اور کھلی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم، عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کرکے ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے، جس میں پاکستان، اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے درج ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:
1۔ اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اوراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کرکے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے خالق و مالک کا دامنِ رحمت تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
2۔ عوام پر اعتماد کیا جائے اور ان کو اعتمادمیں لیا جائے اور مؤثر طور پر ان کو قومی سلامتی، ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
3۔ ایسی نظریاتی کش مکش اور لاحاصل بحث سے بچا جائے جس میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کردینا چاہتے ہیں۔ ’بنیاد پرستی‘، ’انتہاپرستی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بھی بہت پرانی باتیں ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے، اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے، یعنی: اسلام، جمہوریت اور وفاقی طرزِحکومت انھیں متفق علیہ بنیاد بناکر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرِنو زیربحث لانے کی جسارت نہ کی جائے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا، ہماری تحریکِ آزادی اور ہماری قراردادِ مقاصد، ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
4۔ ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا متحرک و فعال ہونا ضروری ہے۔
5۔ پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایسی معاشرتی ترقی کا حصول جو ملکی پیداوار اور پیداآوری صلاحیت میں ہمہ افزوں اضافے کا باعث ہو، ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، تاکہ ملک کی مارکیٹ وسیع تر ہو۔ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور ترقی جس کا لازمی جزو ہو۔ معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم جس کا مرکزی ہدف ہو اور جس کا مطلوب معاشی ترقی کے ساتھ عدلِ اجتماعی کا قیام اور خود انحصاری کا حصول ہو۔ عسکری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا حصول بھی باعزت زندگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
6۔ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی بہیمانہ سرگرمیوں کی مذمت کرنے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوط و متحرک موقف پر عمل درآمد کی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو کشمیر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل کرکے، دنیا بھر کے سامنے کشمیر کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کرنا چاہیے۔
7۔ افغانستان میں بدامنی کی فضا کو قائم رکھنا امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں ان کی موجودگی کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں چین اور روس کے ساتھ مل کر وہاں امن قائم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں تیز تر کیا جائے اور کابل میں محدود انتظامیہ کو افغانستان کی نمایندہ قوت تصور کرنے کے بجاے وہاں کی اصل قوت کے مراکز کو شریکِ مشورہ کیا جائے۔ دین، تاریخ اور مشترک مفادات کی بنیاد پر امن اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
8۔ فلسطین پر مغربی اقوام کی زیرسرپرستی صہیونی سلطنت کے ناجائز وجود کو ختم کیا جائے اور اعلانِ بالفور کے بعد ایک سو سال سے مسلط کردہ جبری خوں ریزی کا خاتمہ کیا جائے۔
9۔ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کی جائے اور مشترکہ حکمتِ عملی کی ضرورت و اہمیت کو اْجاگر کیا جائے۔
10۔ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترک مفادات میں باہم تعاون کو بڑھایا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک جانب یہ امور حکومتِ پاکستان کے مثبت اور مؤثر کردار کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کے اہلِ دانش اور ماہرین کو بھی حق کی گواہی اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے پکارتے ہیں۔
nn