گفتگو:(ڈاکثر نثار احمد نثار)

119

جسارت سنڈے میگزین: ڈاکٹر صاحب، کچھ اپنے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیے گا۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : میں 27جولائی 1956ء کو سندھ کے ایک قصے ٹنڈو محمد خان میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب شاعر تھے اور مشاعروں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے مجموعہ کلا م کا نام ’’ لالہ و گل ‘‘ ہے۔ اس تناظر میں شاعری میرے خون میں شامل ہوئی، شاعری وراثتاً منتقل نہیں ہوتی یہ ایک God gifted سلسلہ ہے۔ ہر شخص شاعری نہیں کرسکتا۔ ہمارے گھر میں مشاعرے ہوتے تھے۔ ان میں مثال رضوی، آذر حفیظ، علی اوسط جعفری، پروانہ بھٹی، برگ یوسفی اور دیگر اہم شعرا شامل ہوتے تھے ، ان مشاعروں سے میرے اندر کا شاعر جاگ اٹھا اور جب یوسف جمال، بہ حیثیت اسسٹنٹ کمشنر آف ٹنڈو آدم، تعینات ہوئے تو ٹنڈو آدم میں کُل پاکستان مشاعروں کی ابتدا ہوئی اس زمانے میں سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں سے جو نوجوان شعراء سامنے آئے ان میں سے اجمل کمال، عتیق جیلانی، اکبر معصوم، سعید الدین سعید، صفدر شکیل، اختر سعید شامل ہیں ۔ احمد ضیاء، صابر وسیم، کاظم ضیاء، خالد وہاب اور احسن سلیم مجھ سے سینئر ہیں جہاں تک میری فیملی کا تعلق ہے توہمارا گھرانہ یوپی سہارن پور سے ہجر ت کر کے 1947ء میں حیدر آباد سندھ آیا اور پھر ہم ٹنڈو محمد خان میں آباد ہوگئے۔ اس زمانے میں لسانی اور نسلی تعصبات میں شدت پسندی نہیں تھی ۔ لوگ مل جل کر زندگی گزارتے تھے اور معاشرتی مسائل کو مل جل کر Faceکرتے تھے۔ محبت، پیار، یگانگت تھی ۔ انصارو مہاجرین میں ’’ مواخات‘‘ کا رشتہ قائم تھا۔ میں نے کیڈٹ کالج پٹارو سے 1974ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ 1982ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا۔ میں نے پندرہ سال کی عمر میں کچے پکے شعر کہنے شروع کردیے تھے۔ پہلا مشاعرہ 1975ء میں راغب مراد آبادی کی نظامت میں پڑھا۔ یہ کل سندھ مشاعرہ تھا جو میر پور خاص میں منعقد ہوا تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت مولاناکوثر نیازی نے کی تھی۔ اس مشاعرے میں سحر انصاری، صہبا اختر اور محمود شام بھی شریک تھے۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ شاعری میں کن شعراء سے متاثر ہیں ۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : میر و غالب کی فنی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں ۔ غالب ہر دور کا شاعر ہے آج بھی غالب کوپڑھا جارہا ہے اس پر تحقیقی اور مطالعاتی کام ہو رہا ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں ۔ فیض احمد فیض، ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ان کی جدید لفظیات بہت عمدہ ہیں ، میں نے تمام قدیم اساتذہ کو پڑھا ہے سب اپنی اپنی جگہ قابل صد احترام ہیں لیکن علامہ اقبال کے بغیر اردو شاعری بے مزہ ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانان ہند میں ’’ جذبۂ ایمانی‘‘ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی تمام شاعری زبانِ زدِ عام ہے۔ انہوں نے نظموں کو نئی زندگی دی، نیا اسلوب دیا، نئے نئے مضامین دیے۔ تاہم میں نے سبطِ حسن، علی سرداری جعفری کو بھی پڑھا ہے۔ جو ماسکو نواز تھے۔ لیکن جب اشتراکیت پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں تو کچھ شعرا کرام نے انداز سخن تبدیل کیا۔ میں اختر شیرانی اور ساحر لدھیانی کو بھی پسند کرتا ہوں ۔ میں فراق گورکھپوری سے بھی متاثر ہوں کہ ان کے اسلوب میں جدیدیت نمایاں ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ کے نزدیک علمِ عروض کی کیا حیثیت ہے؟۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : علم عروض کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ عروض اس علم کا نام ہے جس سے اوزان اشعار جانچے جاتے ہیں ۔ اس علم کی ابتداء خلیل بن احمد نے مکہ میں کی تھی ۔ یعنی علم عروض عربی شاعری میں شروع ہوا ، اساتذہ قدیم نے عروض کی پندرہ بحر یں قرار دی تھیں ۔ ابو الحسن اخفش نے ایک بحر، اور تین بحریں متاخرین نے ایجاد کیں ۔ اس طرح کل انیس (19) بحریں علم عروض میں شامل ہوگئیں ۔اس کے علاوہ 9بحریں اور بھی ہیں جو فارسی میں رائج ہیں ۔ اس طرح اردو، عربی اور فارسی شاعر ی میں ہمیں 28بحروں کے اوزان نظر آئیں گے۔ بحروں میں زحافات بھی ہوتے ہیں۔ زحافات کے لغوی معنی گراؤ، کمی کے ہیں بہ الفاظ دگر، تغیر بحر کو ، رحاف کہتے ہیں ۔ بحر کے لغوی معنی دریا کے ہیں جس طرح دریا سے ندیاں نکلتی ہیں ۔ اسی طرح بحر سے مختلف اوزان نکلتے ہیں ۔ علم عروض میں کثیر الاستعمال بحروں کی تعداد 16,15 کے قریب ہے لیکن بعض لوگ اپنی استاذی دکھانے کے لیے مفرد بحر کو توڑ کے ایک نیا وزن ایجاد کرلیتے ہیں اور اس میں کلام کہہ کر دوسروں پر رعب ڈالتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں کچھ شاعر ہیں جو علم عروض کے ماہر ہیں ۔ لیکن شاعری کے لیے علم عروض جاننا ضروری نہیں ہے۔ کیوں کہ شاعر کو شعر ودیعت ہوتے ہیں جس کو ہم ’’ آمد‘‘ کہتے ہیں اور آمد کا ہر مصرع وزن میں ہوتا ہے البتہ علم عروض سیکھ کر ہماری شاعری کی خرابیاں دور ہوسکتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ علم عروض سکھانے کا کوئی ادارہ ہونا چاہیے جہاں شعراء و شاعرات جائیں اور کلاسیں attendکریں اس طرح شاعری میں نکھار آئے گا۔
جسارت سنڈے میگزین: ان دنوں طرحی مشاعروں میں کمی آرہی ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : ایک زمانے میں طرحی مشاعروں کا رواج تھا ایک مصرع دے دیا جاتا تھا اور تمام شعراء، اس مصرعے پر کلام کہہ کر مشاعرے میں شریک ہوتے تھے۔ طرحی مشاعروں سے مشق سخن میں اضافہ ہوتا ہے۔ نئی نئی لفظیات سامنے آتی ہیں ، لفظوں کو برتنے کے مختلف انداز سامنے آتے ہیں ۔ طرحی مشاعروں کی روایت ہندوستان سے پاکستان میں آئی اور یہ بہت توانا روایت تھی اس روایت کے ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب ہم تن آسان ہوگئے ہیں۔ بہت جلدی بڑا شاعر بننا چاہتے ہیں۔کتاب لانا چاہتے ہیں ۔ ہم نہ جانے کیوں طرحی مشاعروں سے گریز کررہے ہیں ۔ طرحی مشاعرے کا منفی پہلو صرف یہ ہے کہ اس میں یکسانیت بہت ہوتی ہے۔ طرحی مشاعروں کا رواج زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں ادبی انجمنوں کو آگے آنا پڑے گا جو تنظیمیں کراچی میں مشاعرے کرارہی ہیں اگر وہ طرحی مشاعرے کرائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ طرحی مشاعرے زندہ ہوسکتے ہیں ۔ مشاعروں میں شعراء و شاعرات اپنا منتخب کلام سناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ داد وصول کرسکیں ۔
جسارت سنڈے میگزین: آج کے تنقیدی روّیوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : میں کراچی میں 27,26 برسوں سے مقیم ہوں میں تسلسل سے کراچی کی ادبی زندگی سے وابستہ ہوں یہاں بہت فعال زندگی ہے۔ یہاں شعری نشستیں ہوتی ہیں ، مشاعرے ہوتے ہیں لیکن میں بڑے رنج کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ 1980ء کے بعد سے یہاں کی زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ جب زندگی بدلی تو، شاعری کا انداز بدلا اور وقت کے ساتھ ساتھ نئے چہرے شاعری میں بھی نمودار ہوئے۔ نئی طرز فکر آئی۔ ایک زمانے میں اصول پسند نقاد ہوتے تھے وہ تنقید کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر بات نہیں کرتے تھے وہ نیوٹرل ایمپائر ہوتے تھے ان کے نزدیک دوستی، دشمنی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی وہ غیر جانب دارانہ انداز میں کسی بھی فن پارے کو جانچتے تھے اور تخلیقی صلاحیتوں پر کسی بھی فن پارے کا فیصلہ کرتے تھے اور اسی بنیاد پر ادیبوں اور شاعروں کے قد و قامت کا تعین کرتے تھے ۔ اب ایسے نقاد نظر نہیں آتے اب کراچی کے بہت سے نقادوں کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ فن پارے کو سطحی نظروں سے دیکھتے ہیں شاعر کے اندر نہیں اترتے۔ یہاں کے ادیب و شعراء اور نقاد، پسند و ناپسند کے دائروں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ جب تعصب آجاتا ہے تو تنقید میں سے حسن و کھرا پن نکل جاتا ہے۔تنقید کا معیار رو بہ زوال ہے۔ وقار عظیم، ڈاکٹر فاروقی ، ہمدانی، سرشار صدیقی جیسے نقاد نظر نہیں آتے۔ آج کل کتابوں پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ ’’ ستائش باہمی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں آپ صرف تعریف کررہے ہیں خامیاں چھپا رہے ہیں اس طرح آپ تنقید کا حق ادا نہیں کررہے اور آپ جب کوئی حق ادا نہیں کریں گے تو آپ سے باز پرس ہوگی۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ کا نظریہ ادب کیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : ادب، زندگی سے جڑا ہوا ہے ۔ ادب ہماری زندگی کا اظہار کرتا ہے۔ نظریہ ادب سے آپ کی مراد، جدیدیت یا ترقی پسندیت ہے تو میں اس قسم کے ادب کا مقلّد نہیں ہوں ۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : میری زندگی کا ایک نظریہ ہے کہ میں مسلمان ہوں میں ایک باعقیدہ انسان ہوں، میں انسانیت پر یقین رکھتا ہوں ۔ خیر و شر کی تفریق جانتا ہوں ، حسن و بدصورتی کا فرق جانتا ہوں ، میرے اندر ایک جمالیاتی حس موجود ہے۔ میں ایک شاعر ہوں ، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ادب کو خیر و بھلائی کی دعوت دینی چاہیے۔ انسانیت کی بات کرنی چاہیے میں ادب کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم نہیں کرسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب کو معاشرتی ناہمواریوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ ترقی پسند تحریک کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے اردو ادب میں انسانی مظالم کے خلاف لکھنے کی تحریک پیدا کی۔ لیکن میری ترقی پسندی روشن خیالی سے عبارت ہے۔ میں اشتراکیت پسندی کے خلاف ہوں ۔ میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف لکھتا ہوں لیکن جدید نظریاتِ زندگی بھی میری شاعری کا حصہ ہیں ۔ ادیب و شاعر، معاشرے کا نباض ہوتا ہے لہٰذا وہ معاشرے کو گہری نظر سے دیکھتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ اپنے الفاظ میں‘ قرطاسِ ادب پر لکھ دیتا ہے۔ اب اہلِ معاشرے کا کام ہے کہ وہ اپنے لیے کون سی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ وہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا شیطانیت کا پرچار! ادیب و شاعر، ہر معاشرے کی ضرورت ہے۔ اربابِ قلم کو نظر انداز کر کے معاشرتی ترقی ممکن نہیں ، ادیب اور شعراء معاشرتی بیداری پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: نثری نظم کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : نثری نظم مکمل طور پر درآمد شدہ صنف ادب ہے۔ پاکستان میں اور ہندوستان میں جو شعری مزاج ہے نثری نظام اس مزاج پر پوری نہیں اترتی۔ ہم نے بہت جلدی میں نثری نظام کو یہاں رائج کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن ہمارے مزاج میں موسیقیت ہے۔ ہمارے مزاج میں غنائیت ہے، نثری نظام میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ البتہ نثری نظام میں سائرہ شگفتہ، ثروت حسین اور دیگر شعرانے کمال کی نظمیں لکھی ہیں لیکن مجموعی طور پر نثری نظام کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے نہیں ہے۔ نثری نظام میں ایک لائن کو دوسری لائن سے کیسے مربوط کیا جاتا ہے یہ ایک کمال ہے اور ہر شخص یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ بہت سے طاقت ور شاعروں نے بہت اچھی نثری نظمیں تخلیق کی ہیں تاہم غزل، پابند نظم اور نظم معریٰ کے مقابلے میں نثری نظم کامیاب نہیں ہوسکی۔ نثری نظم، مغرب سے ہمارے یہاں آئی ہیں نثری نظام، فرانسیسی یا انگریزی ادب سے اخذ شدہ صنف ہے۔ نثری نظام کو ہم کلوز پوئیٹری کہہ سکتے ہیں ۔ مبارک احمد، قمر جمیل نے نثری نظام کو نئی تحریک دی۔ 1970ء ،1980ء کی دہائی میں نثری نظام کا آغاز ہوا۔ انور سن رائے، عباس، افضال سید، ذیشان ساحل اور بہت سے نام نثری نظم کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں ۔ مغربی ارباب سخن یہ کہتے ہیں کہ جب آپ ردیف اور قافیے کی پابندی کرتے ہیں تو آپ کا خیال پیچھے رہ جاتا ہے آپ اپنا اظہار کھو بیٹھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسا خیال ہو، آپ بالکل اس کو اسی انداز میں بیان کرو، ردیف قافیے کی پابندی مت کرو۔
نہایت فکری انداز میں آپ اپنے خیال کو نظم کریں ، اس فلسفے کو بنیاد بنا کر نثری نظام کا آغاز کیا گیا۔ ہمارے ارباب سخن کہتے ہیں جب تک اشعار میں شعری محاسن نہیں ہوں گے، اثر پذیری نہیں آئے گی یہ بحث ایک طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ نثری نظم، مغربی معاشرے کے مزاج سے ہم آہنگ ہے جب کہ ہمارا معاشرہ مشرقی روایات کا آئینہ دار ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:ترقی پسند تحریک نے اردو ادب میں کیا تبدیلیاں پیدا کیں ؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : اردو ادب کی مقبولیت میں ترقی پسند تحریک کا اہم رول ہے۔ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ موضوعات دیے جو ہمارے معاشرے کی ضرورت تھے ۔ جس دور میں یہ تحریک ہندوستان میں آئی اس وقت معاشرہ گھٹن کا شکار تھا اس ماحول میں ترقی پسند تحریک آکسیجن بن کے آئی جب شاعری گل و بلبل کا نغمہ تھی، سراپا نگاری تھی اپنے خیالی محبوب کی لفاظی کی جاتی تھی اس وقت غالب نے اپنی شاعری میں زندگی کے روّیوں کو برتا۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کہ اس تحریک نے براہ راست انسانی جبر، ظلم، تفریق، پریشانیوں، سماجی اور معاشی مسائل پر توجہ دی۔ اس تحریک نے نیا ڈکشن دیا۔ شاعری کو جلا بخشی۔ ترقی پسند تحریک نے مذہبی خیالات پر بھی اثر ڈالا لیکن نعت نگاری اور رثائی اپنی جگہ موجود رہا۔ کربلا، تنقیدی شعور کا ایک بہت بڑا استعارہ ہے۔ کربلا نے رثائی ادب کی تمام پرتیں کھول دیں یہاں سے ادب کو بے شمار علامتیں قدریں ملیں جس سے رثائی ادب مالا مال ہوگیا۔ نعت نگاری ہر زمانے میں ہوئی اور قیامت تک یہ سلسلہ چلے گا کیوں کہ نعت لکھنا، نعت کہنا اور نعت سننا باعث ثواب ہے نعتیہ ادب کے سرمایے میں بروز بہ روز ترقی ہورہی ہے نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں نعت نگاری پر ترقی پسند تحریک نے کوئی اثرات مرتب نہیں کیے۔ ترقی پسند تحریک اب اپنے اثرات کھوبیٹھی ہے تاہم کچھ شعراخود کو ترقی پسند کہتے ہیں ۔ اس تحریک سے موضوعاتی نظموں کو بہت فروغ ہوا۔
جسارت سنڈے میگزین: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ادب روبہ زوال ہے؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب، کراچی میں رو بہ زوال ہے یا ہندوستان میں یا پھر پورے پاکستان میں روبہ زوال ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر 20,30برس کے بعد، ادب کا انداز بدل رہا ہے۔ نئے نئے استعارے، نئی نئی لفظیات اور نئی نئی علامتیں سامنے آرہی ہیں ۔ زندگی میں خوشی و غم کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ ادب میں کبھی گیت ختم ہوگا نہ نظم ختم ہوگی اور نہ ہی غزل مٹ سکے گی ہاں ہر زمانے میں شاعری کا انداز بدلتا رہتا ہے۔ ہر زمانے کے تخلیق کار الگ الگ ہوتے ہیں ان کی تخلیقی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں کسی زمانے کے تخلیق کار بہت پاور فل ہوتے ہیں ان کی فکری سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ لہٰذا معیاری ادب تخلیق ہوتا ہے۔ آج کل راتوں رات شہرت پانے کی خواہش کی وجہ سے غیر معیاری ادب تخلیق ہو رہا ہے اب بے کیف تحریریں سامنے آرہی ہیں جس سے جزر کی فضا بن رہی ہے ۔ لیکن ادب رو بہ زوال نہیں ہے۔ کراچی میں شاعری تو بہت ہو رہی ہے لیکن تادیر اثر کرنے والا ادب تخلیق نہیں ہو رہا۔ کراچی میں اس وقت کچھ نوجوان شعرا سامنے آئے ہیں دیکھیے آگے چل کر وہ کیا مقام پاتے ہیں ادب رو بہ زوال ہے یا نہیں یہ ایک ڈیبیٹ ایبل موضوع ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: آج کل بہت سے لوگ نظریہ ضرورت کے تحت چندہ لے کر غیر مستحق افراد کو، مشاعروں میں مہمان خصوصی یا صدر بنا رہے ہیں ، آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : یہ کام تو بہت عرصے سے ہو رہا ہے ہندوستان میں مختلف ریاستوں کے حکمران اپنی پسند کے شعراء کو پروموٹ کرتے تھے اب یہ کام ہماری ادبی تنظیمیں کررہی ہیں ۔ اس کام میں دنیا داری کا پہلو آگیا ہے یہ بالکل ٹھیک ہے ان دنوں کچھ لوگ جن کا ادب سے کوئی لینا دینا ہے وہ پیسے دے کر کسی تقریب کے صدر بن جاتے ہیں یا مہمان خصوصی اور جینوین قلم کار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کتابوں کی تقریب اجرا میں یہ وبا عام ہوگئی ہے کہ کسی صنعت کار کو بلا یا جائے اور اس سے پیسے پکڑ کر صدر یا مہمان خصوصی بنا دیا ۔ بہت سی ادبی انجمنیں اس کام میں بہت نمایاں ہیں بلکہ بعض انجمنیں تو صاحب کتاب سے ٹھیکا لے لیتی ہیں کہ آپ ہمیں اتنے پیسے دے دیجیے ہم سارا کام خود کرلیں گے۔ صدر بھی وہی منتخب کریں گے مہمان خصوصی بھی اپنی مرضی کا لائیں گے ان لوگوں کو اسٹیج پر بٹھایا جائے گا جو صاحب کتاب کی شان میں قصیدے پڑھیں گے۔ اس طرز عمل سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے۔دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں اور وقت بہت خاموشی سے اس کا تعین بھی کررہاہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کسی شاعرہ یا شاعر کی سنیارٹی کن بنیادوں پر فکس کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : اس سلسلے میں عمر کوئی چیز نہیں ہوتی یا کتابوں کی تعداد سے کوئی آدمی سنیئر نہیں بن جاتا۔ مشاعرہ ایک الگ ادارہ ہے وہ پرفارمنس کا ادارہ ہے۔ وہاں نظامت کار کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سے شاعر کا کلام مشاعرے کو جگا دے گا لہٰذا وہ مشاعرے اور سامعین کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے شعراء کو مائک پر بلاتا ہے۔ سنیارٹی فکس کرنے کا کوئی کلیہ نہیں ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون کب سے شعر کہہ رہا ہے اس کو سنیئر مانتے ہیں اس کی شاعری کیا ہے اس سے کوئی غرض نہیں اس وقت کراچی میں رسا چغتائی سب سے سینئر شاعر ہیں اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کس کا نمبر آتا ہے مگر میں یہ دیکھتا ہوں کہ کبھی کبھار مشاعرے میں اس بات پر مشاعرے کی فضا خراب ہو جاتی ہے کہ فلاں کو میرے بعد پڑھوایا گیا جب کہ میں اس سے سینئر ہوں ۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ کے نزدیک اس وقت کراچی میں مستند نظامت کار کون کون سے ہیں ؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : نظامت کاری ایک بڑی ذمہ داری ہے نظامت کار مشاعرے کو برباد بھی کرسکتا ہے اور مشاعرے کو کامیاب بھی بنا سکتا ہے۔ اس دنوں دستیاب ناظمین مشاعرہ میں سلمان صدیقی، عنبرین حسیب عنبر، رخسانہ صبا، راشد نور کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ۔ اس وقت ہر تنظیم کا اپنا نظامت کار ہے اس سلسلے میں بھی بہت سے نام موجود ہیں جو کہ نظامت کے اصول و قواعد سے نابلد ہیں ۔ نظامت کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ شاعر کی اہمیت، مشاعرے کے مزاج کو سمجھتا ہو اور خوب صورت الفاظ بولنا جانتا ہو۔ اس کی آواز کانوں کو اچھی لگے۔ ایک اچھا ناظم کبھی بھی منتظمین کی ترتیب دی ہوئی فہرست کے مطابق نہیں پڑھوائے گا۔ لیکن کمزور ناظم یہ کام کرتا ہے۔ ہر ناظم کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مشاعرہ چلائے۔
جسارت سنڈے میگزین: آج کل یہ ہورہا ہے کہ ناظم مشاعرہ اپنی انجمن کے لوگوں کو جب پڑھنے کے لیے جب بلاتا ہے تو ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔اور جب دوسرے شاعر کو بلاتا ہے تو صرف نام لے کر کہتا ہے کہ فلاں صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اشعارسنائیں آپ اس رویے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : جو نظامت کار ، اس قسم کی نظامت کررہے ہیں وہ متعصب ہیں ، بیساکھیاں لگانے سے قد و قامت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ میں ان رویوں کی مذمت کرتا ہوں یا تو سب کے بارے میں تعریفی کلمات کہے جائیں یا صرف نام لے کر بلایا جائے بلا جواز تعریف و توصیف سے گریز کیا جائے یہ بات مشاعرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناظم مشاعرہ کو اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے الگ ہو کر نظامت کرنی چاہیے۔ وہ ناظم مشاعرہ کامیاب ہوتا ہے جو غیر جانب دار ہوگا۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ اس قدر معروف آدمی ہیں آپ شاعری کے لیے کس طرح وقت نکالتے ہیں نیز آپ جس ادارے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر تھے، آپ نے وہاں ادب کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : میں نے 1990ء میں چیسٹ اور ٹی بی میں پوسٹ گریجویشن کی اور اوجھا سینی ٹوریم سے وابستہ ہوگیا۔ یہاں سے میں 2016ء میں ریٹائرڈ ہوا ہوں ۔ میں نے اپنی نگرانی میں خلش مظفر، امام علی نازش، احسن سلیم، ذکی عثمانی، رفعت القاسمی، رضی اختر شوق، زبیر عباسی، آذر نایاب بدایونی کا علاج کیا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے ادارے کے توسط سے بہت سے قلم کاروں کو علاج معالجے کی خصوصی سہولتیں فراہم کیں ۔ میرے نزدیک یہ بات رہی کہ یہ ادیب و شاعر جلد از جلد صحت یاب ہو جائیں تاکہ یہ تخلیقی کاموں میں معروف ہو جائیں ہم نے اس ادارے میں کئی کل پاکستان مشاعرے منعقد کرائے ہیں ہم نے اس ادارے میں یوسفی صاحب کی کتابوں کی پذیرائی کی تقریبات کرائی ہیں ۔
وہاں ہم نے مشاعرے کرائے ہیں ۔ بیت بازی کے مقابلے کرائے ہیں ۔ میرے وائس چانسلر نے میری صلاحیتوں پر اعتبار کیا جس کے باعث ہم نے وہاں بے شمار ادبی تقریبات کرائیں وہاں کراچی اورپاکستان کے بڑے بڑے ادیبوں اور شعراء کے لیکچرز کا انعقاد بھی کیا گیاالبتہ میں نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے شاعری کو پورا وقت نہیں دیا۔ میری پیشہ ورانہ ذمے داریاں بہت ہیں جس کی وجہ سے میرے لیے شاعری ثانوی حیثیت رکھتی ہے شاعری میرا ذریعہ معاش نہیں ہے۔ ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہ نہ تو شاعروں کوپالتی ہے نہ ادیبوں کو، لہٰذا قلم کاروں کو اپنا گھر چلانے کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش تلاش کرنا ہوتا ہے آج کل کون سا شاعر و ادیب ہے جو کوئی کام نہیں کررہا اور صرف شاعری سے اس کا گھر چل رہا ہو۔ شاعری اب پارٹ ٹائم جاب بن گئی ہے میں اپنے کلینک کے اوقات میں کسی مشاعرے میں نہیں جاتا۔
جسارت سنڈے میگزین: حکومت نے جن اداروں کے ذمے ، ادب کی ترقی کا کام سونپا تھا کیا وہ ادارے اپنا حق ادا کررہے یں ؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : عبید اللہ علیم کا ایک شعر ہے کہ
کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے، دوسرا دہائی دے
ہمارے ملک میں شاعروں اور ادیبوں کے مسائل کی بہتات ہے۔ دوسری طرف ادبی سرکاری اداروں کا حال وہی ہے جو کہ ہر سرکاری ادارے کا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہے اگر کسی سرکاری ادارے کا کوئی سربراہ اچھا آجائے تو کچھ لوگوں کے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ترقی یافتہ معاشرے میں ادیبوں کے مسائل حل کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کچھ نہیں ہور ہا، ان اداروں میں بھی تعلقات ، سفارش چل رہی ہے پسند و نا پسند کے معیارات قایم کیے ہوئے ہیں ۔ ادیبوں اور شاعروں کی حق تلفی رہی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کیا الیکٹرونک میڈیا، کتب بینی کا نعم البدل ہے؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : دیکھیے الیکٹرونک میڈیا نے جتنی ترقی یورپ میں کی ہے ۔ اتنی ترقی ہمارے ملک میں نہیں کی ہے۔ مغرب میں کتاب ابھی تک مقبول ہے۔ کتاب بہت چھپتی ہے اور بہت پڑھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کا تعلیمی نظام برباد ہوگیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ ہم معاشی طور پر بہت الجھے ہوئے ہیں ۔ کتاب ہماری ترجیحات میں بہت نیچے چلی گئی ہے۔ ہماری مصروفیات بڑھ گئی ہیں اب ہمارے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ہے لہٰذا ہم انٹرنیٹ پر چلے گئے تاکہ کم وقت میں زیادہ معلومات حاصل کرلیں ۔ نشریاتی اداروں نے ہماری زندگیوں پر گہرا اثر قایم کیا ہے اب 3سال کا بچہ بھی وڈیو گیم کھیل رہا ہے اور خود ہی آئی پیڈ چلا رہا ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک نے ہمارا وقت ہم سے چھین لیا ہے ہمیں کتابوں سے دور کردیا ہے ۔
جسارت سنڈے میگزین: مشاعرے کی شاعری اور کتابی شاعری میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ : اصل فیصلہ کاغذ پر ہوتا ہے۔ مشاعرے میں تو بعض اوقات مہمل شعر پر بھی ادائیگی کی بنیاد پر داد مل جاتی ہے۔ ترنم پر بھی داد مل جاتی ہے۔
مشاعروں میں پرفارمنس کی بڑی اہمیت ہے، مشاعرے کی داد کو سرمایۂ حیات مت جانیے کسی بھی فن پارے کا فیصلہ کاغذ پر ہوتا ہے جب نقادان سخن اس فن پارے کے بارے میں کوئی فیصلہ دیتے ہیں۔ مشاعروں کی شاعری الگ ہے اور کتابی شاعری الگ ہے۔ مشاعرے ہماری ادبی روایات کا حصہ ہیں مشاعرہ ایک سماجی ادارہ ہے جہاں لوگوں سے میل ملاقات ہوجاتی ہے لوگوں کے مسائل سننے کو ملتے ہیں۔ مشاعرہ ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جو معاشرے کو تہذیب و تمدن سکھانے میں اہم حصہ دار ہے۔