برصگیر میں اسلام کے احا اور اازادی کی تحریکیں(نجیب ایوبی)

172

باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہتے ہیں کہ ’’یہ واقعہ یوں ظہور میں آیا کہ اس منصوبے کو جو برطانیہ کی ہندوستانی سلطنت کو ختم کرنے والا اور ایشیا اور دنیا کے چہرے کو بدل دینے والا تھا، وائسرائے (ماؤنٹ بیٹن) کے ایک کانگریسی ذہنیت والے مشیر ’’وی پی مینن‘‘ نے نہرو اور کرشنا مینن کی مدد سے مرتب کیا۔ قائداعظم پر اعتماد کرنے کی ضرورت (ہی) محسوس نہیں کی گئی۔ ان کو کلیتاً نظرانداز کیا گیا۔‘‘ (جدوجہد پاکستان)
بنگال کے علاقے مرشد آباد اور مالدا کے لوگوں کی اکثریت (70 فیصد) مسلمان تھی اور ان کا یقینی گمان تھا کہ انہیں لازماً پاکستان کے ساتھ شامل کیا جائے گا، اور وہ اس کے شدید خواہش مند بھی تھے۔ کیونکہ وہ 17 اگست تک اپنے علاقوں میں جوش و خروش کے ساتھ پاکستان کے پرچم لہرا رہے تھے۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کے علاقوں کو بھارت کے ساتھ ملا دیا گیا۔
ایسا ہی محیرالعقل معاملہ گورداسپور کے ساتھ ہوا۔
برطانوی ہندوستان میں گورداسپور صوبہ پنجاب کا شمالی ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ، تحصیل گورداسپور، تحصیل بٹالا اور تحصیل پٹھان کوٹ۔ ان چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی ضلع سے جدا تھی، پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع بھارت کے سپرد کردیا گیا۔ حالانکہ گورداسپور کی مسلم آبادی بھی 51 فیصد کے حساب سے اکثریت میں تھی اور اس لحاظ سے گورداسپور کو مکمل حیثیت میں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا، لیکن ایک خاص سازشی ذہن کے ساتھ اس کی تقسیم میں ناانصافی برتی گئی۔
مردم شماری کے مطابق تقسیم کے وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تقسیم کچھ اس طرح تھی:
تحصیل شکر گڑھ میں مسلم آبادی 51 فیصد فیصد تھی ، اسی طرح تحصیل گورداسپور میں بھی مسلم آبادی 51 فیصد تھی، تحصیل بٹالا میں مسلم آبادی کا تناسب قدرے زیادہ یعنی 53 فیصد اور تحصیل پٹھان کوٹ میں مسلم آبادی واضح اکثریت میں یعنی 77 فیصد تھی۔ اس طرح ضلع گورداسپور میں مسلم آبادی 50.6 فیصد قرار پائی، ان حقائق کے باوجود یہ علاقہ بھارت کو دیا گیا جس میں ہندو اقلیت میں تھے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور باؤنڈری کمیشن کے اس تقسیم کو جائز قرار دینے کے لیے جو دلائل رکھے گئے وہ یہ تھے:
* اس تقسیم سے کشمیر کی ریاست بھارت کی رسائی میں رہے گی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کشمیر کی ریاست بآسانی بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردے گی۔
* تحصیل پٹھان کوٹ اور اس سے منسلک علاقے ہوشیارپور میں جو ریلوے اسٹیشن موجود تھا وہ کانگڑا (بھارت) کے علاقے کو باہم ملا رہا تھا۔ ترسیل کا ایک منظم نظام موجود تھا۔
* بٹالا اور گورداسپور کی تحصیلوں میں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لیے ایک سوفٹ حفاظتی زون بن سکتا تھا۔
* دریائے راوی کا کچھ علاقہ مسلمانوں کو دے کر سکھ آبادی کی اکثریت (58 فیصد) کو مشرقی پنجاب میں شامل کردینے سے سکھ آبادی کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔
ریڈکلف ایوارڈ میں ایک اور انتہائی درجے کی بددیانتی یہ دکھائی گئی کہ بنگال میں ضلع مالدہ جو مجموعی طور پر ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا، اسے تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر حصہ بشمول مالدہ شہر بھارت کو دے دیا گیا۔ یہ ضلع 15 اگست 1947ء کے بعد بھی 3۔4 دنوں تک مشرقی پاکستان کی انتظامیہ کے ماتحت رہا۔
ضلع کھلنا اور ضلع مرشدآباد میں تو حد ہی ہوگئی۔ مرشد آباد جو آبادی کے حساب سے 70 فیصد مسلم علاقہ تھا، بھارت کی جھولی میں ڈالا گیا، جبکہ ضلع کھلنا جس میں 52 فیصد ہندو تھے پاکستان کے مشرقی علاقے میں شامل کردیا گیا۔
(مستقبل میں مسلسل انارکی پھیلانے کے سوا اس کا کوئی اور مقصد دکھائی نہیں دیتا)
اسی طرح آسام میں ضلع سلہٹ میں رائے شماری کے نتیجے میں اسے پاکستان سے ملایا گیا، مگر کریم گنج کا بڑا علاقہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، اس علاقے کو سلہٹ سے نکال کر بھارت کو دے دیا گیا۔ تازہ ترین بھارتی مردم شماری (2001ء) کے مطابق اب بھی کریم گنج میں 52.3 فیصد یہ اکثریت برقرار ہے۔
برطانوی اور دیسی دانشور اس تاخیر کی توجیح یہ پیش کرتے ہیں کہ فسادات اور اعلان میں تاخیر سے بچنے کے لیے تقسیم کا اعلان خفیہ رکھا گیا۔ مگر اصل حقیقت جو بعد میں آشکار ہوئی، یہ تھی کہ حتمی مسودہ 9 اگست اور 12 اگست کو تیار ہوچکا تھا لیکن اس کا اعلان آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔ کچھ شواہد اور واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کو رازداری کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہندوستانی اسسٹنٹ سیکرٹری ’’وی پی مینن‘‘ نے 9 اور 10 اگست کی درمیانی شب میں پنجاب کی تقسیم کے بارے میں ہونے والی حتمی حد بندی سے مطلع کردیا تھا۔
سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کو جس میں پاکستانی سرحدوں میں دانستہ بددیانتی کی گئی اور اکثریتی مسلم علاقے کاٹ لیے گئے، قائدِاعظم نے خاموشی سے کیسے برداشت کرلیا اور بھارت کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی؟
اس کے جواب میں کوئی فوجی کارروائی تو ظاہر ہے ممکن ہی نہیں تھی۔ ایک کمزور، مفلوک الحال، اقتصادی بدتری کا شکار اور فوجی سازوسامان سے یکسر محروم پاکستان ملا تھا۔ اُس وقت سوائے زبانی کلامی احتجاج کے اور دوسرا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاسکتا تھا۔ عقل بھی اسے تسلیم کرتی ہے، تاہم ایوارڈ آنے کے بعد قائداعظم نے اس پر احتجاج ضرور کیا تھا۔ اس ضمن میں برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے سابق سیکرٹری اطلاعات قطب الدین عزیز حقیقتِ احوال سے واقف ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نقشوں میں یہ تبدیلی مسز ایڈوِینا ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کی پسِ پردہ سازشوں کے تحت ہوئی تھی (ان معاشقوں کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے)۔ ان دونوں کے خفیہ معاشقے مدت سے جاری تھے۔ (جس کی تائید ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بھی اپنی کتاب میں کی ہے) اسی دوستی کے تحت لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے ایوارڈ میں تبدیلی کے لیے اپنے وائسرائے شوہر پر دباؤ ڈالا تھا۔ قطب الدین عزیز مزید کہتے ہیں کہ پنجاب کا علاقہ فیروزپور، ایک بہت بڑا فوجی ڈپو اور آب پاشی نظام کا ہیڈ ورکس تھا۔ اسی باعث یہ علاقہ بھی پاکستان کے نقشے سے واپس چھین لیا گیا تاکہ پاکستان کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچایا جا سکے۔
قطب الدین عزیز بیان کرتے ہیں کہ ’’محمد علی جناح تک جب یہ فیصلہ پہنچایا گیا تو وہ سن کر اچنبھے میں رہ گئے۔ اس موقع پر راہنمائے قوم نے ردِعمل میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا: ’’ہمیں اپنی ممکنہ حد تک سکیڑ دیا گیا ہے اور باؤنڈری کمیشن نے ہم پر یہ آخری وار کیا ہے۔ اس ایوارڈ کو سراسر غیر منصفانہ، ناقابلِ تصور اور متعصبانہ فیصلہ ہی گردانا جائے گا۔ لیکن چونکہ ہم نے باؤنڈری کمیشن کے قیام کے وقت (بھارت ہی میں) اس پر اپنی تائید و منظوری کا سرکاری اعلان کردیا تھا، اس لیے اب ہمارے پاس اسے تسلیم کرلینے کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ اس آخری جھٹکے کو بھی ہم ان شاء اللہ استقلال، جذبے اور امید کے ساتھ باعزت سہہ لیں گے۔‘‘(قطب الدین عزیز کی کتاب Jinnah and the Battle of Pakistan )
جوناگڑھ کے معاملے میں بھی انتہائی بھیانک کھیل کھلا گیا، روایتی ہندو ذہنیت نے سازشوں کا جال پہلے سے ہی تیار کرلیا تھا۔ حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کے حوالے سے بہت پہلے ہی ماسٹر پلان منظور کرلیاگیا تھا۔
1807ء میں اسے سرکارِ برطانیہ کی زیر حمایت ریاست کا درجہ ملا۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 15 اگست 1947ء کو ریاست کے نواب محمد مہابت خان جی سوم نے اپنے ریاستی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے (15 ستمبر، 1947ء کو) اس کی حتمی منظوری بھی دے دی گئی۔
نواب محمد مہابت خان جی سوم کا کہنا تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ خشکی کے ذریعے پاکستان کی سرحدوں سے نہیں ملتی مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے، کیونکہ اس جوناگڑھ ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست جوناگڑھ کے ماتحت دو ریاستیں تھیں (1) منگرول اور (2) بابری آباد۔ ان دونوں ریاستوں نے نواب کے اس اعلان کے بعد اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا۔ (یہ سب سازشی ہندو ذہنیت کا کمال تھا)
ان حالات میں نواب جونا گڑھ نے باغی ریاستوں کے خلاف عسکری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ باغی ریاستوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہندوستان سے مداخلت اور مدد کی درخواست کی، چنانچہ پہلے سے تیار ہندوستانی فوج 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ آور ہوئی۔ اور پھرمہاتما گاندھی کے جلا وطن بھتیجے سمل داس گاندھی نے عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔
(حوالہ اردو ڈائجسٹ، شمارہ دسمبر2016ء)
(جاری ہے )