رہے نام اللہ کا(بشریٰ ودود)

119

 ’’اُف، یہ کون بیل پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا ہے۔۔۔ ارے بھئی صبح سے سب کو رخصت کرتے کرتے اب تو جاکر چائے کی پیالی لے کر بیٹھی تھی۔‘‘ ثنا نے کپ میز پر ٹکا کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔
ایک عرصے سے اس کی عادت تھی کہ شوہر کو چائے دے کر بچی ہوئی چائے ایک پیالی میں نکال کر بسکٹ اس میں ڈبو کر کھاتی جاتی اور اخبار کا مطالعہ کرتی جاتی۔ مگر آج یہ بیل۔۔۔
’’آرہی ہوں، کون ہے بھائی۔۔۔ بولو تو سہی۔‘‘
’’باجی کھانا ہے۔۔۔؟‘‘ گیٹ کی ذرا سی دراڑ پر اس نے اپنی ناک چپکاکر اندر دیکھنے کی کوشش کی۔
’’اے بیٹا! صبح صبح کھانا کیسے پک جائے گا۔۔۔! چائے ابھی پی نہیں ہے اسے کھانے کی سوجھ رہی ہے۔۔۔ اچھا ٹھیرو۔۔۔‘‘ اسے یاد آیا رات مریم نے روٹی نہیں کھائی تھی اور سالن تو بچ ہی جاتا ہے۔ اس نے روٹی اور سالن ایک تھیلی میں ڈال کر دے دیا۔
’’باجی پانی بھی دے دیں۔۔۔‘‘
آج تو اسے میری چائے ٹھنڈی ہی کرانی ہے۔۔۔ ’’اچھا بیٹا لاتی ہوں۔‘‘ وہ بچہ اپنے کندھے سے کچرے کی بوری اتارکر ایک طرف رکھ کر بڑی جلدی جلدی کھانا کھا رہا تھا جیسے بہت دنوں سے کچھ میسر نہ آیا ہو۔ اس نے باہر جھانکا، اس کی بوری اس کے قد سے لمبی تھی اسی لیے وہ ذرا جھک کر چلتا تھا تاکہ کمر ذرا لمبی ہوجائے۔ گلی گلی کاغذ جمع کرتا یہ بچہ بچپن کے نازوانداز اور کھیل شرارتوں سے بہت دور تھا۔ یہ بھی کیا زندگی ہے؟ ہمارے معاشرے کا ایک زندہ کردار، جو زندہ رہنے کے لیے دوسروں کی نظرِ التفات کا مرہونِ منت ہے۔ کوئی اسے کھانا دے گا تو وہ کھائے گا، پانی دے گا تو وہ پیے گا، حالانکہ وہ پالنے والا تو اوپر بیٹھا ہے، مگر ہاتھ میں روٹی پکڑ کر دینے والے کا اپنا الگ غرور ہے اور لینے والا۔۔۔ وہ تو بس مجبور ہے۔۔۔ اپنی قسمت کے ہاتھوں مجبور۔۔۔ اور اس کی مجبوری نے اس کے ایمان کو بہت کچھ اس سے دور کردیا ہے۔
خیر، سوچتے سوچتے وہ پھر چائے کے کپ کے پاس آگئی۔ بسکٹ ختم کرکے اپنی پسندیدہ کتاب اٹھائی تھی کہ پھر بیل بج اٹھی۔۔۔ ’’اوہو اب کون ہے؟ کون ہے بھئی۔۔۔؟‘‘
’’باجی، پانی والا۔۔۔‘‘
کیا سلسلۂ زندگی بن گیا ہے۔ پانی بھی کوئی لائے گا تو ہم پئیں گے، ورنہ تو پیاسے بیٹھے رہیں گے۔ دودھ ڈبے کا آئے گا تو چائے بنے گی۔۔۔ نہ جانے یہ دودھ کس طرح تیار کیا جاتا ہے! ہم آپ تو ایک رسّی سے بندھے چلے جارہے ہیں۔ آج ہی صفدر صاحب کہہ رہے تھے ’’ثنا اب مرغی مت منگوانا۔۔۔ نہ جانے کیسی کیسی مرغیاں دے رہے ہیں۔۔۔ کیا کچھ ان کو کھلا رہے ہیں، خوامخوا رسک نہ لو بھئی۔ میں آتے ہوئے چکن لے آؤں گا، تھوڑے پیسے ہی تو زیادہ ہیں ناں۔۔۔‘‘
’’اُف، اب کوئی مرغی لائے گا تو پکے گی، ورنہ ہم تو ٹک ٹک دیدم۔۔۔ دم نہ کشیدم بیٹھے رہیں گے۔۔۔ پتا نہیں کس چکر میں پڑ گئے ہیں ہم۔۔۔ ہمارے پاس اپنا کیا ہے؟ کل بھی خالد کہہ رہا تھا کہ امی سب کہہ رہے ہیں کہ پھلوں میں، سبزیوں میں ایسے انجکشن لگا رہے ہیں کہ وہ جلدی سے بڑے ہوجائیں‘ ان میں رنگ آجائے۔۔۔ صحیح بات ہے۔۔۔ آج کل جب میں بھنڈی، مٹر چھیل رہی تھی تو ہاتھ کچھ ہرے ہرے ہورہے تھے۔۔۔ اور تو اور تربوز آدھا تو خوب میٹھا تھا اور آدھا واجبی سا میٹھا۔۔۔ اُف، ایک پھل ہی تو مجھے پسند تھے، ان کا بھی مسئلہ ہوگیا۔۔۔ اس کا دماغ سوچ سوچ کر تھکا جارہا تھا۔
’’ارے چھوڑو، اب ہم کیا کریں۔۔۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر پھر کتاب اٹھالی۔ اب موبائل کی بیل بجنے لگی۔
’’یہ کون ہے۔۔۔؟‘‘ اس کے شوہر صفدر صاحب کا فون تھا ’’اوہو ابھی گھر سے گئے نہیں کہ گھر کی خبر لینے کی فکر۔۔۔ جی فرمایئے۔۔۔‘‘
’’دیکھو شاہد کو اٹھاؤ، ابھی گاڑی بہت گرم ہورہی ہے، بار بار دھواں نکل رہا ہے، اس سے کہو بڑی بوتل میں پانی لا دے، میں کھڑا ہوں سڑک پر۔‘‘
وہ شاہد کی طرف بھاگی۔ ’’بیٹا! ابو۔۔۔‘‘ شکر ہے ابھی بچوں میں محبت باقی ہے، کسی مشکل میں ماں کو دیکھ کر دل مچل جاتا ہے، ورنہ شاید وہ بھی کسی ڈبے میں بند ملے گی۔ (لوگ کہیں گے تمہارے گھر میں محبت نہیں ہے، اصلی محبت تو ڈبے میں ملتی ہے) وہ بے چارا بائیک لے کر بھاگا۔۔۔ تھوڑی دیر کی مشقت نے ریڈی ایٹر کو چین دیا اور اس کے دل کی آگ کو ٹھنڈک پڑی۔ مگر اب جو دیر ہوگئی ہے تو باس کے دل کی آگ کون بجھائے گا؟
اب اسے یونیورسٹی کو دیر ہونے لگی۔۔۔ وہ بے چارا بھوکا پیاسا یونیورسٹی کو بھاگا۔ کپڑے بدل کر یہ جا وہ جا۔۔۔ ایک ہوا کا جھونکا تھا چلا گیا۔ اُف دودھ پینے کا وقت نہیں مگر پرفیوم ضرور لگانا ہے۔ چلو بیٹا خیر سے جاؤ، اب کل تو اتوار ہے کچھ آرام مل جائے گا۔
رات دیر سے سوئے تو صبح شیرمال کھانے کا شوق چرایا۔ صفدر صاحب کا چٹورپن کبھی ختم نہ ہوتا تھا۔ ساتھ ذرا چھولے کا سالن بھی لانا بچے کو بھیج کر۔۔۔ میں ذرا اخبار پڑھنے لگی کہ پھر فون چیخا۔
’’امی میں شاہد بول رہا ہوں۔‘‘
’’ہاں کیا ہوا؟ کیا شیرمال ابھی بننا شروع نہیں ہوئے؟‘‘
’’نہیں، وہ میں ہیلمٹ بھول گیا تھا تو پولیس والے نے ایک نہ سنی، میں تھانے میں ہوں۔‘‘
اُف صفدر صاحب کو تو بتانا بھی مشکل تھا۔ انہوں نے میری شکل پر اڑی ہوائیاں دیکھ کر خود ہی فون چھین لیا۔
’’ارے تو کیوں بھول گئے تھے۔۔۔؟ بغیر ہیلمٹ کیسے گئے، کیوں گئے۔۔۔؟ پتا ہے آج کل کتنی سختی ہورہی ہے۔۔۔ اب وہیں بیٹھے رہو۔‘‘
’’اچھا ابو!‘‘
صفدر صاحب نے سوچا، کوئی کام ہو نہ ہو، ڈانٹنے کا کام تو پورا کیا جائے ’’ارے تم کو چاہیے تھا کہ ہیلمٹ دے کر بھیجتیں، اس کو اندر کردیا اب۔۔۔‘‘
’’وہ اصل میں ہیلمٹ منے نے گرا دیا تھا تو وہ ٹوٹ گیا۔‘‘
’’اسے دیا کیوں؟‘‘
’’اسے کون دیتا ہے! وہ تو خود ہی پہن کر پھر رہا تھا، تو پھر۔۔۔‘‘
’’بچوں کو کیا ضرورت ہے کہ ایسی چیزیں وہ اٹھائیں۔ بچوں کو ڈانٹنا چاہیے کہ ہر چیز نہ اٹھائیں۔۔۔‘‘
’’دراصل میں منے کو ڈانٹوں تو اس کی ماں کو برا لگتا ہے، اور پھر داماد کو بھی برا لگتا ہے۔ آج کل بچوں کو منع کرنے یا کسی بات پر ٹوکنے کا فیشن ہی کہاں ہے!‘‘
’’بس اب بیٹی کو منا لو یا بیٹے کو تھانے سے بلا لو۔‘‘
’’توبہ ہے، چلیں اسے لانا بھی تو ہے۔۔۔‘‘
صفدر صاحب مجھے گھورتے ہوئے اٹھے ’’اچھی چھٹی ہے۔‘‘
ذرا دیر میں گاڑی ہم دونوں کو لیے بھاگی جارہی تھی اور دعائیں سینے میں سمٹ سمٹ کر زبان پر آرہی تھیں۔ ہم گھریلو خواتین تو تھانے کا نام سن کر ہی ڈر جاتی ہیں۔۔۔ گاڑی اس زور سے اچھلی کہ میرا سر گاڑی کی چھت سے جا لگا۔ سامنے سڑک پر ایک لڑکا فاتحانہ شان سے ٹہلتا ہوا جارہا تھا۔۔۔ ’’کیا ہوگیا ہے اس کو، ایک دم سامنے آگیا۔‘‘
’’ابھی اڑتا ہوا جاتا اگر تمہارے سر کا خیال کرتا۔۔۔‘‘ صفدر صاحب کو سخت غصہ تھا۔ ’’یہ عجیب ریت بنتی جارہی ہے لڑکوں کی کہ ہر خاتون جیسے انہی کو دیکھ رہی ہے کہ وہ ’’کیٹ واک‘‘ کرتے پھریں، اور میں کون سی دوشیزہ ہوں کہ میرے سامنے زلفیں جھٹک کر چلیں اور مونچھوں کے بجائے پونی کو جھٹک پٹخ کریں۔۔۔ حد ہے بھئی۔۔۔ ویسے ہی ماشاء اللہ کراچی کی سڑکیں۔۔۔ لگتا ہے ساری گاڑیاں خود ہی بناتی ہیں۔ کے ایم سی والے تو رواں سڑک پر صرف ڈامر ڈال دیتے ہیں۔‘‘
’’لو بھئی آگیا تھانہ۔۔۔‘‘
’’اب کیا کرنا ہوگا؟‘‘ میں گڑگڑائی۔
’’اب چلو اپنے بیٹے کو لینے۔‘‘
شاہد بے چارا سر جھکائے کھڑا تھا جیسے اس نے کوئی چوری کی ہو۔۔۔ معصوم بچہ۔ ہمارے میاں نے ضروری کام نمٹائے (یعنی اِس کو، اُس کو فون کیا) اور اسے لے کر چل دیے۔ گاڑی کے قریب آکر وہ آہستہ سے بولا ’’امی ابھی دلاور بھائی کو تو آنے دیں۔‘‘
’’بیٹا! ابھی چلو، ابو ناراض ہوں گے۔‘‘
’’امی میرا بٹوا انہوں نے رکھ لیا تھا، اب وہ خالی کرکے دیا ہے، اس میں صرف شناختی کارڈ اور لائسنس ہے۔۔۔ جب تک بھائی لوگ نہیں آئیں گے یہ لوگ میرے پیسے نہیں دیں گے۔۔۔ امی پلیز۔۔۔‘‘
’’مگر بیٹا۔۔۔‘‘
’’اب کیا ہوگیا اس کو۔۔۔؟‘‘ صفدر صاحب کا غصہ بڑھ رہا تھا۔ ’’وہ آپ کے لیے ٹھنڈی بوتل لا رہا ہے۔۔۔ بیٹا بوتل ٹھنڈی لانا۔۔۔‘‘
’’اچھا امی۔۔۔‘‘
’’چلو چھٹی تو برابر کردی تمہارے بیٹے نے۔۔۔ اب گھر چل کر ناشتا بناؤ۔‘‘
صفدر صاحب نے چشمے سے مجھے گھورا اور کھا جانے والے لہجے میں کہا ’’کھا لیے شیرمال، دو دو ٹکے کے لوگوں کو منہ لگانا پڑتا ہے تمہارے بچوں کی وجہ سے۔‘‘
’’ارے تو یہ بچے کون سا میں اپنے ساتھ لائی تھی اپنے میکے سے۔۔۔ حد ہوگئی ہے بھئی، آپ کے بچے نہیں ہیں کیا؟‘‘
’’اچھا چلو۔۔۔‘‘ دس منٹ بعد شاہد خوش خوش آگیا اور ہم دونوں ٹھنڈی بوتل سے ٹھنڈے ہوگئے۔ آج لڑائی کا دورانیہ دس منٹ طے ہوا تھا، مگر لڑائی کہاں یہ تو یکطرفہ فائرنگ تھی۔ ہر گولی نشانے پر ٹھیک ٹھیک لگ رہی تھی۔ بوتل پی کر حسبِ عادت انہوں نے کیسٹ آن کیا اور فوراً غصے میں بند کردیا۔۔۔ کیا کرتے، کیسٹ آن ہوتے ہی چیخا ’’اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر۔۔۔‘‘ پتا نہیں کتنا پرانا گانا آج کام دے گیا۔
میں سوچنے لگی کہ شرافت کے تقاضے کیا ہوئے۔۔۔ اب ایسا ماحول ہوگیا ہے کہ اپنا حق لینے کے لیے بھی بدمعاش کی بدمعاشی ضروری ہے۔۔۔ آپ اگر شریف ہوں تب بھی غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو غنڈوں کا سہارا لینا پڑے گا، ورنہ کیا آپ خود ہی بھائی لوگ بن جائیں گے؟
خیر کسی طرح گھر واپس پہنچ گئے۔ ابھی کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ٹھک سے بجلی چلی گئی۔۔۔ بھئی یہ کون سا لوڈشیڈنگ کا ٹائم ہے؟ ہم سب آپس میں ہی سوال و جواب کرتے، پسینہ پونچھتے رہے۔ اب عابد شیر علی صاحب تو وہاں تھے نہیں کہ اُن سے کوئی سوال کرتا کہ میاں عابد شیر علی صاحب بجلی کب آئے گی؟ آپ نے تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ خیر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ بہرکیف جنریٹر بھی کچھ خفا ہوگیا۔ اب کیا کریں اس کا روٹھنا بڑا کھلتا ہے۔ بچے کہتے ہیں ابو خفا ہوجائیں پر جنریٹر خفا نہ ہو۔۔۔ لیجیے کرلیجیے رشتوں ناتوں کا حساب۔۔۔ کس کا پلڑا بھاری ہے۔
چپ چاپ ہم نے ناشتا بنانے کے لیے کچن کی راہ لی اور باقی ساروں نے بجلی کا غم منانے کی راہ لی۔ یہ تو دکھ ہی اور ہیں اور دکھ بھی نرالے ہیں۔۔۔ اب لوگ بچی کی شادی کی دعا کے ساتھ یہ دعا بھی مانگتے ہیں کہ خدایا تقریب میں بجلی نہ جائے۔۔۔ خیر سے سب کام نمٹ جائیں۔۔۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
nn