اس ٹی وی کے سائے تلے(افسانہ مہر)

119

 ’’ناظرین اس مسئلے پر گفتگو جاری ہے۔۔۔ کہیں مت جائیے گا۔‘‘
12 سالہ زبیر پوری قوت سے چیخ کر بولا۔۔۔ اور اس کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے 10 سالہ عمیر اور 9 سالہ وقار، ایک دوسرے کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اپنی اپنی سنانے کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے زیادہ زور سے بولے جا رہے تھے۔ کمرہ غل غپاڑے کا عملی نمونہ پیش کررہا تھا۔ سیما جو صبح سے کام میں مشغول ہونے کے باعث تھک چکی تھی، ابھی آدھا گھنٹہ قبل ہی برابر والے کمرے میں آکر لیٹی تھی، اس شور کی وجہ سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
’’یہ کیسا شور ہورہا ہے؟‘‘ سیما غصہ میں چلّائی۔ سب بچے ایک دم خاموش ہوگئے۔
’’امی ہم ٹاک شو کھیل رہے ہیں۔‘‘ زبیر نے ہمت کرکے جواب دیا۔
’’تو آہستہ بول لو ذرا۔۔۔‘‘ سیما نے بدستور ناگواری سے کہا۔
’’آپ کو نہیں پتا امی۔۔۔ ٹاک شو میں ایسے ہی بولتے ہیں۔‘‘ اس مرتبہ وقار نے جواب دیا۔
’’میرے سر میں درد کردیا تمہارے شور شرابے نے۔۔۔ بند کرو اسے۔۔۔ کچھ اور کھیل لو۔‘‘ سیما نے عاجز ہوکر کہا، تو سب بچے ٹی وی روم میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔ جہاں سیما کے سسر پہلے سے ہی ٹاک شو لگائے بیٹھے تھے۔
یہ ایک گھر کی کہانی نہیں، ہر گھر میں نظر آنے والے وہ رویّے ہیں جو ٹی وی پروگراموں کے طفیل معاشرے میں سرایت کررہے ہیں۔ معاشرتی سطح پر زبان اور لب و لہجہ انسان کے اخلاق و کردار کا آئینہ ہوا کرتا ہے، اور وہ افراد جو کسی خاص منصب پر ہوں، اپنے، اپنے ادارے اور اپنی قوم کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔ آج کے الیکٹرانک میڈیا دور میں ٹی وی صرف قاصد کا فرض ہی پورا نہیں کرتا بلکہ دنیا کے سامنے پوری قوم و ملت کا نمائندہ ہے۔۔۔ لیکن کیا کہیے ہمارے ان نمائندگان کو۔۔۔آپ دن کے کسی حصے یا رات کی کسی گھڑی میں ٹی وی کھول لیں، آپ کو ایک چیختا چلّاتا وجود بنام ’’اینکر‘‘ یا پھر نیوز کاسٹر نظر آجائے گا۔ کسی ماڈل گرل کی عدالت میں پیشی کا معاملہ ہو، یا کسی سیاسی فرد کا عقدِ نکاح، کسی جلسے میں لڑکیوں کا لہرانا ہو، یا کسی کرکٹر کا معاشقہ۔۔۔ جس طرح سے بار بار چلّا چلّا کر سنایا جاتا ہے، اسے دیکھ کر ہمیں ماضی کی ’’بی جمالو‘‘ یاد آجاتی ہیں۔
بی جمالو کا کردار ہوسکتا ہے کہ آج کے زمانے میں بہت سے لوگوں کے لیے اجنبی ہوچکا ہو، لیکن یہ ماضی کا ایک مشہور کردار تھا۔۔۔ لکھنوی کرتا پاجامہ پہنے، ہاتھ میں پان کی پٹاری اور منہ میں گلوری دبائے، محلے کے ہر گھر میں روز وارد ہوجانے والی ادھیڑ عمر خاتون۔۔۔ جن کا کام اِدھر کی خبر اُدھر اور اُدھر کی خبر جمع کرکے اِدھر سنانا ہوا کرتا تھا۔ اور جب تک وہ خبروں میں مرچ مسالہ لگاکر متعلقہ افراد میں اشتعال و اضطراب پیدا نہ کرلیتی تھیں، اُنہیں مزا ہی نہ آتا تھا۔ اب زمانہ ترقی کرگیا ہے۔۔۔ اس کردار کا کام اب نیوز کاسٹرز اور اینکر پرسنز نے سنبھال لیا ہے۔۔۔ یقین نہ آئے تو ابھی ٹی وی کھول کر دیکھ لیں۔
پہلے لوگ ذمہ دار تھے۔ ہر علاقے سے منسلک اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز لوگ، اپنے علاقوں کے لوگوں کی پسند اور ناپسند کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔ ریڈیو، ٹی وی سب اپنے لوگوں، اپنی تہذیب کے نمائندہ ہونے کا پورا لحاظ رکھتے تھے۔ لیکن اب تو میڈیا اخلاق باختہ اقدار کا داعی بنا بیٹھا ہے۔ ’’آج میڈیا نے ہماری نسلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘‘ یہ تجزیہ صرف ہمارا نہیں۔۔۔ معاشرے میں بکھرے ہزاروں واقعات اس کے گواہ ہیں۔ گھر، محلے، معاشرے اور قوموں کی ترتیب و تعمیر میں خواتین کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے، اور میڈیا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بھی خواتین کا ہی ہے۔ وہ مائیں جو اپنی بیٹیوں میں اپنی خاندانی وفا، سلیقہ شعاری، اور عزت کی پاسداری کے خواص منتقل کیا کرتی تھیں اب خود ’’ماڈل گرل‘‘ کی مانند بننے کی جدوجہد میں صبح و شام مصروف ہیں، اور اُن کی بیٹیاں عشقیہ ڈراموں کے خیالی شہزادوں کی آرزو لیے فیس بک پر سرگرداں۔۔۔!!! صرف یہی نہیں، وہ اُمتِ وسط جس کو خدا نے ’’امین‘‘ کے منصب پر فائز کیا تھا، اس کے جوان اس وطن عزیز کے پارکوں اور ریسٹورنٹس میں عشق کے گیت سناتے نظر آتے ہیں۔ ہم بدگمانی نہیں کررہے، یہ تمام مناظر میڈیا ہی کے توسط سے ہمیں دکھائے جاتے ہیں، کبھی تہوار کے نام پر، تو کبھی تہذیب کے نام پر ڈھول بجا بجا کر۔ اخلاقی انحطاط کی داستان یہیں تک محدود نہیں، ٹی وی پر لیڈر حضرات کے عقب میں نظر آنے والی دھکم پیل، اسمبلیوں میں اوئے اور ابے کی آوازیں قومی اور ادبی اخلاقی جنازے کی زندہ تصویر ہیں جو میڈیا پر روز چلتی ہے۔
یوں لگتا ہے ادب کا زمانہ ماضی میں کہیں کھوچکا ہے۔ یہ ترقی کے آثار ہرگز نہیں۔ عورت کا احترام، بڑوں کی عزت اور بچوں سے شفقت ہماری مشرقی و اخلاقی تہذیب کی بنیادیں ہیں اور جن سے مغرب محروم ہے۔۔۔ اور ان کی اندھی تقلید ہمیں بھی اُسی دلدل میں دھنسا رہی ہے۔
nn