انسانی دماغ کے اسرار کارل زمر

258

وان ویدن غور سے کمپیوٹر اسکرین کو تک رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں دبا ’’چوہا‘‘ بہ سرعت اِدھر اُدھر ہل رہا تھا۔ میں اس کے قریب ہی کرسی پر براجمان تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوا: ’’تمھارا دماغ تلاش کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘
دراصل ویدن کے کمپیوٹر میں سیکڑوں دماغوں کی تھری ڈی تصاویر محفوظ تھیں۔ یہ بندروں، چوہوں اور بشمول میرے، انسانوں کے دماغ تھے۔ وہ میرے دماغ کی تھری ڈی تصاویر دکھا کرمجھے اس انسانی عضو کے حیرت انگیز اور محیرالعقول اسرار سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ میں بوسٹن (امریکی شہر) کی بندرگاہ کے نزدیک واقع اس مارتینوس سینٹر فار بائیومیڈیکل امیجنگ میں دوسری بار آیا تھا۔ چند ہفتے قبل پہلا دورہ کیا، تو خود کو ویدن اور اس کے ساتھیوں کے سامنے بحیثیت ’’گنی پگ‘‘ پیش کردیا۔ چناں چہ مجھے اسکیننگ روم پہنچایا گیا۔
کمر ے میں ایک نوجوان نے مجھے ہیلمٹ نما آلہ سر پر پہنایا۔ اس پر تقریباً ایک سو ننھے منے اینٹینا نصب تھے۔ ان اینٹینوں کو میرے دماغ سے نکلنے والی ریڈیائی لہریں پکڑنی تھیں۔ جلد ہی مجھے ایک تختے پہ اسکینر کے نیچے لٹا دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسکینر اپنا کام کرنے لگا۔ یہ امیجنگ مشین ویدن نے مع ٹیم اپنی تحقیق کے واسطے خاص طور پر تیار کی تھی۔ اس میں بمشکل اتنی جگہ تھی کہ ایک انسان سما جائے اور میں اس گھٹن زدہ جگہ ایک گھنٹے تک لیٹا رہا۔
تاہم میری سوچوں اور غوروفکر نے اس ایک گھنٹے کو یادگار اور خوشگوار بنا دیا۔ میں مشین میں لیٹا جسم انسانی کے اہم ترین عضو دماغ کے متعلق سوچتا رہا۔ انسان میں تمام جذبات، احساسات اور سوچوں کا مرکز یہی ایک یا سوا کلو وزنی لجلجا سا سفید لوتھڑا ہے جو سخت کھوپڑی کے اندر محفوظ ہوتا ہے۔ اسی دماغ کے اندر بادام کی شکل والی گٹھلی، ایمی گڈالا (Amygdala) واقع ہے۔ انسان میں خوف و دہشت کا جذبہ اسی گٹھلی میں جنم لیتا اور برقی روؤں (Electrical Impulses) کی صورت پورے بدن میں پھیل جاتا ہے۔ جبکہ فرنٹل کورٹیکس (Frontal Cortex) میں یہ خوف دور کرنے والے آرام و سکون کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ مجھے پھر اپنی بیٹی کے ساتھ برف پر چہل قدمی کرنا یاد آیا۔ دماغ میں یادوں کا ’’سوئچ‘‘ ہپوکامپس (Hippocampus) نامی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں نیورون (دماغی خلیے) کسی لشکر کی صورت موجود ہیں۔ انسان کو جب کوئی یاد آئے، تو انہی نیورونز کے متحرک ہونے سے یادوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔کچھ عرصہ قبل میں نے طے کیا تھا کہ دورِ جدید میں انسانی دماغ کے عجوبے پر جتنی تحقیق ہوئی ہے، اسے بشکل مضمون بیان کیا جائے۔ چناں چہ میں امریکا بھر میں پھیلے ان سائنسی اداروں میں جانے لگا جہاں انسانی دماغ پر تحقیق جاری ہے۔ مارتینوس سینٹر پہنچا، تو وان ویدن نے میرے دماغ کی بھی اسکیننگ کرلی۔ انسانی دماغ پر جاری تحقیق کی مختلف جہتیں ہیں۔ بعض ماہرین ایک ایک نیورون کے ڈھانچے یا ساخت پر تحقیق کررہے ہیں۔ کچھ کی توجہ کا مرکز دماغ کی حیاتی کیمیا (Biochemistry) ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اربوں دماغی نیورون کیونکر پیدا ہوتے اور ہزاروں اقسام کے پروٹینی مادوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ وان ویدن مع ٹیم دماغ کی ’’وائرنگ‘‘ پر تحقیق کررہے ہیں۔ یہ وائرنگ عصبی تاروں (Nerve Fibers) پر مشتمل ہے۔ اندازے کے مطابق ان تاروں کی کل لمبائی ’’ایک لاکھ میل‘‘ بنتی ہے۔ انہی عصبی تاروں کی مدد سے ہمارے دماغ کے تمام حصے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہم سوچنے، محسوس کرنے اور جانچ پرکھ کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ عصبی تار ’’سفید مادہ‘‘ (White Matter) بھی کہلاتے ہیں۔ امریکی اور یورپی حکومتیں نامور ماہرین کو کروڑوں روپے دے رہی ہیں تاکہ وہ گہرائی میں جاکر انسانی دماغ کا مطالعہ کرسکیں۔ مقصد یہ ہے کہ دماغی امراض کا علاج دریافت ہوجائے اور جدید تحقیق صحت مند انسانوں اور مریضوں کے دماغوں میں موجود فرق سامنے لا رہی ہے۔ یہ متفرق دماغی بیماریوں مثلاً شیزوفرینیا، آٹزم اور الزائمر کے مریض ہیں۔ ان تمام امراض کا علاج دریافت نہیں ہوسکا۔
آخر ویدن نے میرے دماغ کا پرنٹ تلاش کرلیا۔ اس میں دماغ کے مختلف حصوں کو جوڑتے عصبی تاروں کے لاتعداد بنڈل نظر آرہے تھے۔ یہی تار دماغ کے لاتعداد بنڈل تک پیغامات لے کر جاتے ہیں۔ ویدن کا تیار کردہ خصوصی اسکینر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ مختلف عصبی تاروں کو متفرق رنگوں میں دکھا سکے۔ یوں یہ جاننا آسان ہوجاتا ہے کہ کون سے عصبی تار کس دماغی حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً دماغ کے میرے اسکین میں بولنے کے عمل سے وابستہ عصبی تار سرخ تھے۔ ویدن پھر اسکین کو بڑا (میگنی فائی) کرتا چلا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ کروڑوں اربوں عصبی تار اپنی بے انتہا پیچیدگی کے باوجود زاویہ قائمہ (Right Angle) بناتے پار ہورہے ہیں، جیسے گراف پیپر پر لکیریں (لائنیں) ایک دوسرے کے آرپار ہوتی ہیں۔
ویدن کا کہنا ہے کہ ہمارے دماغ کی بناوٹ گرڈ نما (Grid) ہے۔۔۔ اور یہ ساخت معنی خیز ہے۔ وجہ یہ کہ ویدن نے بعداز تحقیق سبھی جانوروں کے دماغ کی بناوٹ گرڈ نما پائی ہے۔ حتیٰ کہ کروڑوں سال پہلے کے جانور بھی اپنے دماغ میں عصبی تاروں کا گرڈ رکھتے تھے۔ گو وہ نظام کافی سادہ تھا۔ انسانی دماغ کی گرڈ نما ساخت کے متعلق ویدن کا کہنا ہے: ’’یہ عین ممکن ہے کہ عصبی تار سڑکیں اور گلیاں ہوں۔ ہمارے خیالات گاڑیوں کی طرح ان سڑکوں پر سفر کرتے ایک سے دوسرے دماغی حصے تک سفر کرتے ہیں۔ گویا ہماری سوچ کا پورا نظام بہت نظم و ضبط رکھتا ہے۔ مگر ابھی ہم اس نظام کی جزئیات نہیں جان پائے۔‘‘دلچسپ بات یہ کہ انسانی دماغ کے اسرار چند عشروں قبل ہی ہم پر کھلے ہیں۔ ورنہ زمانۂ قدیم میں تو اس عضو سے کئی توہمات وابستہ تھیں۔ مثلاً یونانی حکما کا خیال تھا کہ دماغ بلغم سے تشکیل پاتا ہے۔ فلسفی ارسطو کے نزدیک یہ ریفریجریٹر تھا جو جوشیلے دل کو ٹھنڈا کرنے میں کام آتا۔ جبکہ دماغ میں جنم لینے والے خیالات، جذبات، تصورات، واہمے وغیرہ ’’روحیں‘‘ سمجھی جاتیں۔ آخر سترہویں صدی میں سائنسی دور شروع ہوا، تو دماغ کی اصلیت سامنے آنے لگی۔ برطانوی سائنس دان تھامس ویلیس نے انکشاف کیا کہ ہماری سوچیں اسی عضوِ بدن میں پیدا ہوتی ہیں۔ عصبی خلیے یا نیورون یہ سوچیں جنم دینے کے ذمے دار ہیں۔ہر نیورون کوئی بھی خیال یا حرکت اپنے سرے، ایکسون (Axon) تک پہنچاتا ہے۔ ہر دو نیورونز کے درمیان ڈینڈرائٹ (Dendrite) نامی ننھا سے خالی علاقہ واقع ہے۔ جب ایک خیال کسی نیورون تک پہنچے، تو اس کے ایکسون خالی علاقے میں مخصوص کیمیائی مادہ چھوڑتا ہے۔ خیال اسی مادے کے ذریعے دوسرے نیورون تک پہنچتا ہے۔ یوں نیورونز کی شاہراہ پر اس کا سفر جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ جائے۔خیال یا حرکت کی لہر نیورونز کے مابین بہت تیزی سے سفر کرتی ہے۔ وجہ یہی کہ نیورونز میں لہر بجلی کی مانند دوڑتی پھرتی ہے۔ اس کی رفتار فی سیکنڈ تین تا کئی سو فٹ تک ہوتی ہے۔
سائنس دان اب نیورون کی ساخت و ہیئت سمجھنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ لیکن یہ آسان کام نہیں، کیونکہ انسانی دماغ تقریباً ’’تیس ارب‘‘ نیورون رکھتا ہے اور ہر نیورون ’’دس ہزار‘‘ طریقوں سے ایک خیال یا حرکت دوسرے کو بھجوانے پر قادر ہے۔ سائنس دان نیورونز کے مطالعے سے جاننا چاہتے ہیں کہ ایک نیورون دوسرے سے اٹکل پچو طریقے سے تعلق جوڑتا ہے یا کوئی مربوط و منضبط طریقہ موجود ہے۔ چونکہ انسانی دماغ کے اربوں عصبی خلیوں پر تحقیق ابھی بہت مشکل ہے، لہٰذا فی الوقت چوہے کے دماغ پر ماہرین کی توجہ مرکوز ہے۔ لیکن اس کا مطالعہ کرنے میں بھی سائنس دانوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ وجہ یہی کہ دماغ کے نقطے جتنے علاقے میں بھی ہزاروں لاکھوں نیورون اپنی پیچیدہ سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔
پروفیسر جیف لچمان مشہور زمانہ ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر اعصاب (نیورو سائنٹسٹ) ہیں۔ وہ پچھلے دو برس سے ایک چوہے کے دماغ میں موجود ہر نیورون کی سہ العبادی (تھری ڈائمنشنل) تصاویر بنا رہے ہیں۔ یوں تصویر میں نیورون کی پوری بناوٹ سامنے آجاتی ہے اور موصوف اب تک محض اتنے نیورون کی تصاویر بنا پائے ہیں جو نمک کے ایک ذرے میں سما جائیں۔ لیکن ان تصاویر کا ڈیٹا 100ٹیرابائٹ کی ہارڈ ڈسکس میں سما چکا۔۔۔ یہ ڈیٹا 25ہزار ہائی ڈیفی نیشین فلموں کے برابر ہے۔بہرحال جب بھی چوہے کے ’’سات کروڑ‘‘ نیورونز کی سہ العبادی تصاویر تیار ہوئیں، تب پروفیسر جیف کا اصل کام شروع ہوگا۔ وہ ایسے قوانین و قواعد تلاش کریں گے جن کی بنیاد پر دماغ کا سارا انتہائی پیچیدہ نظام چل رہا ہے۔ یہ کام کتنا دقیق اور محنت طلب ہے، اس کا اندازہ درج ذیل مثال سے لگائیے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے نارائن کستوری، پروفیسر جیف کی راہنمائی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ چوہے کے دماغ کے ایک حصے کا مکمل تجزیہ کیا جائے۔ یہ حصہ نمک کے ایک ذرے کا ایک لاکھواں حصہ تھا۔ مگر یہ انتہائی ننھا حصہ بھی کام کے لحاظ سے بہت مشقت طلب ثابت ہوا۔نارائن نے دریافت کیا کہ اس حصے کے نیورون ایک ہزار ایکسون اور تقریباً ایک سو ڈینڈرائٹ رکھتے ہیں۔ اور ہر ایکسون و ڈینڈرائٹ اس حصے میں موجود دیگر نیورونز سے ’’600‘‘ روابط یا کنکشن رکھتا ہے۔ پروفیسر جیف کا کہنا ہے: ’’یہ تجزیہ دیکھ کر ہم سب ماہرین کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہمیں احساس ہوا کہ دماغ ہماری توقع سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دقیق شے ہے۔‘‘ تاہم اس تحقیق سے ہارورڈ یونیورسٹی کے محققوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ دماغ کی ننھی ترین جگہ پر بھی کام ترتیب و نظم سے انجام پاتا ہے۔ ہر نیورون کے آگے پیچھے، دائیں بائیں نیورون ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کوئی خیال یا حرکت کی لہر آنے پر اسے ایک ہی مخصوص نیورون کی طرف بھجواتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت نے جس نیورون کو جو کام ودیعت کیا، وہ اسی کو عمل میں لاتا ہے۔پروفیسر جیف اور ان کی ٹیم کو چوہے کے سبھی نیورونز کی سہ العبادی تصاویر اتارتے ہوئے تین سال لگ جائیں گے۔ لیکن یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ نیورونز کی محض تصاویر ہوں گی۔ زندہ نیورون پہ تحقیق کرنے سے ماہرین کو جو معلومات ہاتھ آئیں گی، وہ تصاویر پر وقت لگانے سے ظاہر ہے، نہیں مل سکتیں۔ حقیقی نیورون دراصل ڈی این اے، پروٹینی مادے (Proteins) اور دیگر سالموں (مالیکیولز) کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ پھر ان نیورونز کی مختلف اقسام ہیں۔ مثلاً ہماری آنکھوں میں موجود نیورون روشنی کے فوٹون پکڑنے والا پروٹینی مادہ بناتے ہیں۔ اسی طرح وسطی دماغ کے علاقے، Substantia Nigra میں بستے نیورون Dopamine تخلیق کرتے ہیں۔ یہی کیمیائی مادہ ہم میں فرحت و انبساط کے جذبات پیدا کرتا ہے۔سائنسی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ایک نشوونما پاتے بچے کے ’’84‘‘ فیصد جین دماغ کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں، جبکہ دیگر اہم جسمانی اعضا مثلاً دل، جگر اور گردوں کی تشکیل میں کہیں کم جین صرف ہوتے ہیں۔ یہ سچائی آشکار کرتی ہے کہ انسانی دماغ کے اسرار اب تک جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی پہنچ سے کیوں باہر ہیں۔ بہرحال امریکا، برطانیہ، جاپان اور جرمنی میں چوٹی کے سائنس دان انسانی دماغ کی تنگ و تاریک پہنائیوں میں جھانک رہے ہیں۔ انھیں اُمید ہے کہ آنے والے عشروں میں وہ انسانی دماغ کی ہوبہو نقل تخلیق کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ گویا تب دماغ سے وابستہ کئی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج بھی دریافت ہوجائے گا۔ اس ضمن میں پروفیسر جیف لچمان کا کہنا ہے: ’’ابھی ہم صحت مند انسان اور شیزوفرینیا کے مریض کے دماغوں میں فرق نہیں کرسکتے۔ لیکن اب نیوروسائنس نئے دور میں داخل ہوچکی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہم معمے کی بکھری تصویریں موزوں جگہ فٹ کرنے لگے ہیں۔‘‘