ایمانداری کا بہترین پھل(فری ناز خان)

614

بہت پرانی بات ہے کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ جنگل کے قریب سے گزر رہا تھا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور پیاس بھی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔ قریب ہی ایک جھونپڑی نظر آئی۔ اس میں ایک بوڑھا کسان اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ بادشاہ اس بوڑھے آدمی کے پاس گیا، اس سے پانی مانگ کر پیا اور چلا گیا۔ شام کے وقت جب بوڑھے آدمی کا بیٹا کھیتوں سے واپس آرہا تھا تو اسے کھیت کے قریب ایک تھیلی پڑی ہوئی نظر آئی، اس نے وہ اٹھا لی۔ اس میں سونے کی بہت ساری اشرفیاں موجود تھیں۔ لڑکے نے اپنے والد کے پاس آکر ساری بات بتائی۔ اس بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی اور اپنے گھر کے صحن میں دفن کردی اور کہا کہ جس کی بھی ہوگی، وہ جب ڈھونڈتا ہوا آئے گا تو ہم اسے اس کی امانت لوٹا دیں گے۔
بہت دن گزر گئے لیکن کوئی نہیں آیا۔ بہت عرصے بعد اس بادشاہ کا گزر وہیں سے ہوا تو اسے وہ جھونپڑی پھر نظرآئی۔ بادشاہ بوڑھے آدمی سے ملنے اس کی جھونپڑی میں چلا آیا اور کہنے لگا کہ اُس دن میں جلدی میں تھا اس لیے آپ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرپایا تھا کہ آپ نے مجھے سخت پیاس کے وقت پانی پلایا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی تھیلی کا بھی ذکر کردیا جوکہ اس دن جلد بازی میں بادشاہ سے گر گئی تھی۔ بوڑھے آدمی نے فوراً اپنے بیٹے سے کہا کہ جاکر وہ تھیلی لے آئے۔ اس کا بیٹا گیا اور صحن سے تھیلی نکال کر لے آیا۔
بادشاہ نے تھیلی کھول کر اشرفیاں گنیں تو ساری اشرفیاں موجود تھیں۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے بوڑھے اور اس کے بیٹے کی اس ایمان داری پر اشرفیوں کی تھیلی بطور انعام دے دی اور انہیں اپنا وزیر مقرر کرکے محل میں لے آیا۔ اس طرح ان دونوں کو اپنی ایمان داری کا بہترین پھل ملا۔ اگر وہ تھیلی کو چھپا لیتے تو شاید کبھی بادشاہ کے وزیر نہ بنتے۔ سچ ہے، ایمان داری انسان کو عزت اور مقام عطا کرتی ہے۔
nn

مُسکرائیے
*ایک آدمی نے فائراسٹیشن فون کیا اور بولا ’’دیکھیے میں نے حال ہی میں اپنا باغ سنوارا ہے، میں نے اس میں بیش قیمت پودے لگائے ہیں‘‘۔ ’’کیا اس میں آگ لگ گئی ہے؟‘‘دوسری طرف سے پوچھا گیا۔ ’’کچھ پودے تو بالکل ہی نایاب ہیں۔ میں نے انہیں بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے‘‘۔ ’’دوسری طرف سے بڑی غصے بھری آواز آئی:’’دیکھیے جناب! یہ فائراسٹیشن ہے، گل فروشی کی دکان نہیں‘‘۔ ’’معلوم ہے مجھے! ذرا غور سے میری بات سنیے، میرے پڑوس میں آگ لگ گئی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ جب آپ لوگ آگ بجھانے آئیں تو میرے باغ اور پودوں کو نقصان پہنچائیں۔‘‘
***
*ایک ملازم کو تنخواہ ملی تو اس نے سوچا، بیوی کے حوالے کرنے سے پہلے کم ازکم رقم تو گن لوں۔ جب اس نے رقم گنی تو اس میں سو روپے زیادہ تھے۔ وہ فوراً کیشیر کے پاس پہنچا اور بولا: ’’آپ نے غلطی سے سو روپے زیادہ دے دئیے ہیں‘‘۔ کیشیر نے رقم گنی اورکہا: ’’رقم بالکل ٹھیک ہے، بات دراصل یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ میں گزشتہ تین مہینوں سے سو روپے کا اضافہ ہوچکا ہے‘‘۔ وہ شخص حیرانی سے بولا:’’کمال ہے یار۔ میری بیوی نے تو مجھے بالکل بتایا ہی نہیں۔۔۔‘‘
***
*ایک صاحب نے طوطا پال رکھا تھا۔ ایک دن وہ صاحب گھر پر نہ تھے کہ دودھ والا آگیا، اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی:’’کون؟‘‘ باہر سے اس نے جواب دیا ’’دودھ والا‘‘۔ لیکن دروازے پر کوئی نہ آیا۔ اس نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے پھر آواز آئی:’’کون؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’دودھ والا‘‘ اور انتظار کرنے لگا کہ ابھی کوئی دروازہ کھول دے گا۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ آخر اس نے تنگ آکر کہا: ’’بھائی صاحب میں تو باہر دودھ والا ہوں، اندر آپ کون ہیں؟‘‘ اندر سے فوراً آوازآئی’’دودھ والا‘‘۔
***
*ایک دفعہ ایک چوہیا اپنے بچوں کے ساتھ جا رہی تھی کہ راستے میں ایک بلی آگئی، چوہیا نے فوراً زور سے کتے کی طرح بھونکنا شروع کردیا۔ بلی بھاگ گئی۔ یہ دیکھ کر چوہیا نے اپنے بچوں کو نصیحت کی’’دیکھا بچو! دنیا میں مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کتنی ضروری ہے۔‘‘
***
*ایک سیاح ہوٹل میں گیا تو بیرے نے آکر آرڈر لیا۔ سیاح نے کہا: ’’فرائی مچھلی اور ہمدردی کے دوبول‘‘۔ بیرا مچھلی لے آیا اور پوچھا ’’اور کچھ؟‘‘ سیاح نے جواب دیا: ’’ہمدردی کے دو بول‘‘۔ بیرا اپنا منہ سیاح کے کان کے پاس لے کر گیا اور بولا: ’’مچھلی نہ کھانا، دو دن کی باسی ہے۔‘‘